جسم و جاں پر ایک عجب گرانی ہے ایک بے کلی سی اور ایک بے قراری سی۔ لکھنے کی طرف طبیعت ہرگز مائل نہیں والد صاحب کی طبیعت بگڑی تو سنبھل نہیںپائی۔وہ لمحہ لمحہ مٹھی سے پھسلتی ہوئی ریت کی طرح چلے گئے کہ جانے والوں کو کون روک سکا ہے کوئی‘دیکھتے ہی دیکھتے آخری آسمان بھی سر سے سرک گیا۔ ایک بے اماں موسم نے آن لیا۔پہلی دفعہ میں اپنے آپ کو سن رسیدہ لگنے لگا۔ ان کے ہوتے ہوئے میرے اندر ایک کھلنڈرا سا احساس ہر دم جاگتا تھا اور ان کی طرف دیکھ کر باتیں کرنا چاند تاروں سے مخاطب ہونے جیسا تھا۔ کتنا عجب ہے کہ والدین بوڑھے ہوتے ہوئے اور بھی قیمتی ہوتے جاتے ہیں۔ ان کا سایہ مزید گہرا ہوتا جاتا تھا۔دکھ درد اُن کی مسکراہٹ سے تحلیل ہو جاتے۔ کتنا پر نور چہرہ تھا میرے والد گرامی نصراللہ شاہ کا۔ یہ نور کوئی لہو یا رگ و ریشے سے نہیں آیا تھا میں نے ان کو ہمیشہ اللہ اور اس کے رسولؐ کی محبت میں سرشار و استوار دیکھا۔وہ اسی عشق و استفراق کے پیکر میں ڈھلے ہوئے تھے جس کو اقبال نے حرز جاںکیا تھا اس میں ناموری نہیں ہوتی بلکہ مٹ جانا ہوتا ہے میں جب بھی مسجد جاتا تو سب ان کا پوچھتے۔ ریاض احمد صاحب مجھے گلے ملتے تو میرے والد کے اشعار پڑھنے لگتے: تیری میری گل نئیں ایہ گل اے حضورؐ دی اکھیاں دے نور دی دے دلاں دے سرور دی گلاں نے ہزار اک گل اے اصول دی شان میرے رب دی تے رب دے رسول ؐ دی وہ جس جوش اور جذبے سے حمد اور نعت سناتے ایسے لگتا کہ ان کا جذبہ اور والہانہ پن سب شعروں میںجھلملانے لگتا ان کا چہرہ گلاب صورت کھلا ہوا تھا مگر اس میں جو ایک بے نام سی روحانی آمیزش تھی وہ کوئی عطا تھی ۔ وہ جس کی طرف مسکراتے ہوئے دیکھتے وہ ان کا گرویدہ ہو جاتا۔ آخری دنوں میں میں نے ان کی حمدیں اور نعتیں سوشل میڈیا پر لگائیں تو بہت فیڈ بیک آیا۔ بشریٰ حزیں تو اصرار کرنے لگیں کہ زیارت کرنی ہے۔ وہ سچ مچ زیارت کے قابل ہی تھے۔کتنا بڑا سچ ہے کہ اللہ اپنے خاص بندوں کی محبت لوگوں کے دلوں میں ڈال دیتا ہے۔میں نے اپنی زندگی میں پہلی مرتبہ کسی کا غسل ہوتے دیکھا۔ میرا چھوٹا بھائی احسان اللہ شاہ اپنے مریدوں کے ہمراہ والد صاحب کو غسل دے رہا تھا۔ ایک شاندار احساس مجھے ہوتا رہا ہے کہ والد صاحب کو نہلا کر ایسے ہی تیار کیا گیا جیسے کوئی دلہا ہو اور سفید برق کپڑوں میں سچ مچ ان پر وہ روپ چڑھا تھا کہ آنکھ نہیں ٹکتی تھی۔اس پہ بھی ذہن و دل میں اترا کہ ہمارا فطری دین اسلام مرنے کے بعد مسلمان کی کیسی تکریم کرتا ہے۔ اس کی صفائی ستھرائی اور بنائو سنگھار۔ پھر نیک آدمی جو متاع ایمان لے کر جاتا ہے تو اس کا آمنا سامنا بھی سوال جواب کرنے والوں سے ہوتا ہے۔مجھے محمد علی ظہوری یاد آ گئے: کہتا ہے کون مجھ کو دعائیں ہزار دو پڑھ کر نبیؐ کی نعت لحد میں اتار دو مولانا حمید حسین جیسے برگزیدہ عالم دین نے ان کا جنازہ پڑھایا اور وہ فرما رہے تھے کہ سید نصراللہ شاہ صاحب سے جو تعلق خاطر رہا وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی ہستی جنازہ میں شریک لوگوں کی بخشش کے لئے مددگار ہو گی۔ میرے معزز قارئین ایک چھوٹا سا واقعہ میں ضرور شیئر کروں گا کہ ایک مرتبہ کسی تدفین کے موقع پر رات گئے ایک قبرستان میں میں موجود تھا۔ جسد خاکی کو لحد میں اتارا جا رہا تھا۔ میرے ساتھ کھڑے ایک شخص نے مجھ سے پوچھا کیا آپ ایک جنتی شخص کو دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس عجیب سوال پر میں چونکا مگر میں نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ ’ہاں‘ اس شخص نے دور کھڑے میرے والد صاحب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا اس شخص کو دیکھو۔ میں اس منظر کو کبھی نہیں بھولا۔ وہ تہجد گزار تو تھے ہی میں نے انہیں نوافل تک بیٹھ کر پڑھتے نہیں دیکھا۔ پھر اشراق اوابین اور دوسرے نوافل ۔ نوافل قرب الٰہی کا وسیلہ کہے جاتے ہیں لاریب وہ ایک مطہر و پاکیزہ و صالح نظام عبادات و بندگی میں سرتاپا ڈھلے ہوئے تھے۔وہ عام شخص نہیں تھے۔ پاکستان بنا تو ہجرت کر کے آئے سب سے پہلا امتحان جو پنجاب یونیورسٹی نے لیا اس میں ان کی پہلی پوزیشن تھی اور یہ ریکارڈ 25سال کے قریب رہا۔ وہ ساری عمر استاد کے منصب پر رہے تبلیغ کے ساتھ وابستہ رہے۔ میری والدہ کو ساتھ لے کر اس سلسلہ میں برما بھی گئے۔ وہ اٹھتے بیٹھے امر بالمعروف اور نہی عنی المنکر کرنے والے تھے۔ بے حد فیاض اور محب وطن۔ وہ انہی لوگوں میں تھے جو زمین کا حسن ہوتے ہیں اور بقول ناصر کاظمی زمین کا بوجھ اٹھانے والے وہ شاعر تھے تو تخلص ناصرکرتے تھے۔ ان کی حمد اور نعت کا مجموعہ بھی چھپ چکا ہے۔ان کے جنازے میں ان کے بیٹے ثناء اللہ شاہ اور احسان اللہ شاہ کے علاوہ موجودہ حالات کے باوجود بے شمار لوگوں نے شرکت کی قاری محمد ایوب ‘ڈاکٹر ناصر قریشی‘ محمد شفیق ملک‘ غلام عباس جلوی‘طارق چغتائی‘ ڈاکٹر محمد امجد‘عبدالغفور ایڈووکیٹ ‘پروفیسر فرخ محمود‘عبدالجبار ادا‘ تیمور حسن اور مبشر اقبال صدیقی‘ مزمل حسین‘ رضوان حمید قریشی‘ڈاکٹر شاہر محمود ہاشمی‘ طیب اقبال صدیقی کے علاوہ کئی ادیب شاعر تھے کہ سب نے ماسک پہنے ہوئے تھے اور اس موقع پر کچھ نہیں سوجھتا۔ انہیں مرغزار کے قبرستان میں دفن کیا گیا۔ آخری وقت ان کی زبان پر اللہ کا ہی تذکرہ تھا: صدف کو عطا سچے موتی ملے شب تار کو چاند تارے ملے پہاڑوں کے دامن گلوں سے پھرے اڑی تتلیاں پھول پہنے ہوئے کھلے پھول رنگوں کے زیور لئے جو دیکھا ادھر تو ادھر مل گیا جو ڈھونڈا اُدھراِدھر مل گیا خوشی اس بات کی بہت ہے کہ وہ دولت دین کے ساتھ مالا مال گئے۔ آخری بات یہ کہ سب کچھ کے باوجود جانے والے دعائوں کے محتاج ضرور ہوئے ہیں۔ آپ سے بھی یہی التجا ہے کہ میرے والد نصراللہ شاہ صاحب کو دعائوں میں نہ بھولیے گا۔