بلاول بھٹو کے ٹرین مارچ پر بحث ہو رہی ہے‘ دوسری طرف خبر ہے کہ نیب نے آصف زرداری کے خلاف ایک اور ریفرنس تیار کر لیا ہے۔ محب وطن حلقے تقریباً مطمئن ہیں کہ زرداری گرفتار ہو کر رہیں گے۔ وہ بعض بڑی ہستیوں کا ذکر کرتے ہیں جن کا کہنا ہے کہ اس بار ہم نے طے کر لیا ہے کہ نہیں چھوڑنا۔ زرداری کی اربوں کھربوں کی کرپشن پکڑی جا چکی ہے’ناقابل تردید ثبوت آ چکے ہیں۔ ایک محب وطن ریٹائرڈ بزرگوار فرما رہے تھے کہ اب کوئی بھی زرداری کو نہیں بچا سکتا۔ بجا فرمایا۔ لیکن اگر زرداری خود کو بچانے کے لئے تیار ہو جائیں تو۔؟ ذرا غور فرمائیے۔ اگر زرداری اپنا سر تسلیم محب وطن طاقتوں کے مطلوبہ زاویے پر خم کر دیں تو بات ٹل نہیں جائے گی؟ کہا جا رہا ہے کہ پلان کے تحت صرف نواز شریف کو ’’نہ کھپے‘‘ کرنا مطلوب تھا ۔ اٹھارہویں ترمیم کے مسئلے پر زرداری اکڑ گئے اور اب یہ اکڑ انہیں مہنگی پڑ گئی۔ کہا تو یہ بھی جا رہا ہے کہ بلاول کو پکڑنے کا بھی کوئی ایسا منصوبہ نہیں تھا لیکن لاڈاں والی سرکار نے فرمائش کی ہے کہ بلاول بھی نہ کھپے۔ محب وطن طاقتیں لاڈاں والی سرکار کا دل کیسے توڑ سکتی ہیں۔ ٭٭٭٭٭ ادھر نالہ لئی کی سرکار نے بلاول کو زیرو قرار دے دیا ہے۔ ساتھ یہ پوری کابینہ بلاول پر حملہ آور بھی ہے۔ یعنی پہلی بار ہو رہا ہے کہ ایک زیرو پر اتنی بڑی یلغار ہو رہی ہو۔ وزیر اطلاعات بھی بلاول پر خوب برسے ہیں لیکن ساتھ ہی کہا ہے کہ باقی سب تو ٹھیک۔ بلاول کو غدار قرار نہیں دیا جا سکتا۔ باقی کابینہ کو ان سے اتفاق نہیں‘ وہ بلاول کو غداری کا تمغہ دینے پر تلی ہوئی ہے۔ فواد چودھری صاحب یہ تمغہ نہیں دے رہے تو اس کی وجہ شاید آئندہ مہینوں میں ہونے والی کسی تبدیلی کی صورت میں اپنے لئے گنجائش رکھنا ہو سکتی ہے۔ تبدیلی کے لئے حالات کسی بھی وقت پلٹ سکتے ہیں یا پلٹائے جا سکتے ہیں۔ ٭٭٭٭٭ بے نظیر کی پہلی حکومت غلام اسحاق خاں نے برطرف کی تو مرکزی الزام یہ تھا کہ ان کے خاوند وزیر اعظم ہائوس میں بیٹھ کر اربوں روپے کی کرپشن کرتے ہیں‘ ہر سودے میں دس فیصد کمشن لیتے ہیں۔ کرپشن کسی صورت برداشت نہیں‘ چنانچہ اس اعلان کے ساتھ حکومت ختم کر دی گئی کہ زرداری کا کڑا احتساب ہو گا۔ ان سے لوٹی ہوئی رقم نکلوائی جائے گی۔ زرداری کو گورنر ہائوس سے گرفتار کیا گیا اور کرنسی نوٹوں سے بھرے تھیلے بھی برآمد کر لیے گئے۔ الیکشن ہوئے اور نواز شریف کی حکومت آ گئی۔ لیکن دو سال بھی نہ گزرے تھے کہ غلام اسحاق نے ان کا تختہ بھی پلٹ دیا۔ اسمبلی توڑنے کا اعلان قوم سے خطاب میں کیا۔ منہ سے جھاگ اڑا رہے تھے بلکہ برسا رہے تھے۔ نواز حکومت ختم کرنے کے بعد عبوری کابینہ بنائی گئی جن میں ایماندار لوگ چن چن کر شامل کئے گئے۔ کابینہ کے سب سے ایماندار رکن کون تھے؟ جی ہاں آصف زرداری، انداز کوفی و شامی بدلتے دیر نہیں لگتی۔ ٭٭٭٭٭ بلاول پر عمومی الزام یہ ہے کہ وہ بھارت کا ایجنٹ ہے۔ انہوں نے کالعدم تنظیموں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا تھا اور کہا تھا کہ ان تنظیموں کے سرپرست وزیروں کو بھی برطرف کیا جائے۔ اس پر حکومت نے کہا‘ یہ بھارت کا بیانیہ ہے۔ یعنی کالعدم تنظیموں کے خلاف بات کرنا بھارت کا بیانیہ بیان کرنا ہے۔ پھر تو کالعدم تنظیمیں بہت اچھی ہیں۔ ان پر پابندی کیوں ہے؟ انہیں بحال نہیں کرنا چاہیے تاکہ بھارت کا بیانیہ پاش پاش ہو جائے؟ ٭٭٭٭٭ وزیر اطلاعات نے اطلاع دی ہے کہ پارلیمنٹ میں بہت برکت ہے اور اب برکت کی وجہ یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمن پارلیمنٹ سے باہر ہیں۔ ہو سکتا ہے وہ درست کہہ رہے ہوں۔ بسا اوقات کسی کا نہ آنا باعث برکت بھی ہوا کرتا ہے لیکن وہ ایک بار پھر دیکھ لیں۔ برکت فضل الرحمن کے نہ آنے کی وجہ سے ہے جو آہی نہیں سکتے کہ رکن اسمبلی نہیں ہیں یا بابرکت ہستی کوئی اور ہے جو آ تو سکتی ہے آنے کا وعدہ بھی کیا تھا اور آ ہی نہیں رہی۔ ویسے برکت کی تشریح بھی کوئی کر دے تومناسب رہے گا۔ ملکی تاریخ میں پہلی بار یہ ’’برکت‘‘ ہوئی ہے کہ سات مہینے سے قانون سازی نہیں ہو رہی۔ یہ بھی برکت ہی ہے کہ فیصلے ہو رہے ہیں اور پارلیمنٹ کو علم ہی نہیں۔ پارلیمنٹ کیا‘ خود کابینہ اور وزیر اعظم کو بھی بسا اوقات فیصلوں کا علم تب ہوتا ہے جب وہ ہو چکے ہوتے ہیں۔ ٭٭٭٭٭ ایک مثال ملاحظہ ہو۔ گیس کے بل کئی گنا زیادہ آئے۔ وزیر اعظم نے تحقیقات کا حکم دیا۔ یہ کیسے زیادہ آئے۔ گزشتہ ہفتے وزیر اطلاعات نے فرمایا ایک مافیا ہے جو زرداری دور سے گیس کے بل کی اووربلنگ کر رہا ہے‘ ہم نے اس مافیا کو پکڑ لیا ہے۔ عظیم کارنامہ۔ لیکن مافیا دس سال سے گیس کے بل بڑھاتا رہا پھر بھی صارفین کو زیادہ بل نہیں آئے۔ اس میں کیا راز ہے؟ صرف دور انصافیاں ہی میں کیوں آئے؟ اس میں کیا راز ہے؟ بہرحال آج کی اطلاع ہے کہ وزیر اعظم کو رپورٹ پیش کر دی گئی ہے کہ وفاقی وزیروں نے جو نئے سلیب بنائے تھے‘ بل ان کی وجہ سے زیادہ آئے ع مافیا مافیا کر دی میں آپے ہی مافیا ہوئی ٭٭٭٭٭ صدر صاحب نے کیا اقوال زریں ارشاد فرمائے کہ دل خوش کر دیا۔ فرمایا ہماری جنگ غربت اور افلاس سے ہے۔ بظاہر ایسا لگ نہیں رہا۔ لگ تو یہ رہا ہے کہ حکومت کی جملہ جنگ غریبوں اور مفلسوں سے ہے۔ ہر اقدام انہی کے صفائے کی طرف جا رہا ہے۔ گیس کے نرخوں میں 145فیصد کا اضافہ چند ماہ پہلے ہوا تھا‘ اب 145فیصد کا مزید اضافہ کرنے کی تجویز بھی آ گئی ہے۔ بہرحال دن میں تین دیسی مرغیاں‘ دیسی گھی میں بھنی ہوئی اور ہرن کی ایک ران‘ مسلم کھانے والے کو یہ جنگ مبارک ہو۔