واشنگٹن میں بیس ہزار پاکستانیوں کا اپنے منتخب وزیر اعظم کا خطاب سننے کے لیے اجتماع ظاہر کرتا ہے کہ ان تارکین کی اپنے وطن سے امیدیں برقرار ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے اپنے خطاب میں کہا کہ وہ پاکستان کو ریاست مدینہ کی طرز پر ایک جدید فلاحی ریاست بنانا چاہتے ہیں۔ وزیر اعظم جانتے ہیں کہ ترقی یافتہ ممالک میں مقیم پاکستانی کس محنت سے اپنا مقام بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں اور ان کی خواہش ہے کہ ملک میں احتساب کا عمل کسی امتیاز کے بغیر اپنے منطقی انجام کو پہنچے۔ وزیر اعظم نے اپوزیشن کے اتحاد اور حکومت مخالف سرگرمیوں کو این آر او لینے کی کوشش کے طور پر بتایا۔ وزیر اعظم نے تقریر میں انسداد بدعنوانی، معاشی اصلاحات، میرٹ اور مواقع، خواتین حقوق، کھیلوں اور ملک کی عمومی حالت میں بہتری کے نکات حاضرین کے سامنے رکھے۔ عمران خان اپنا منصب سنبھالنے کے بعد پہلی بار امریکہ تشریف لائے ہیں۔ امریکہ کے ساتھ اعلیٰ ترین سطح پر بات چیت کا سلسلہ 2015ء سے رکا ہوا تھا۔ اس دوران جس قدر مشاورت یا پیغام رسانی ہوئی وہ عسکری قیادت اور سفارتی ذرائع سے ہوئی۔ درمیان میں وہ وقت بھی آیا جب پاکستان کے ایک منتخب وزیر اعظم نجی دورے پر امریکی ایئرپورٹ پہنچے تو ان کے کپڑے اتروا کر ان کی تلاشی لی گئی۔ وزیر اعظم عمران خان کے دورے میں آرمی چیف اور وزیر خارجہ ان کے ساتھ ہیں۔ وزیر اعظم نے واشنگٹن میں امریکی اور پاکستانی سرمایہ کاروں سے الگ الگ ملاقاتیں کی ہیں۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے اعلیٰ عہدیداروں سے ملاقات میں پاکستانی معیشت کی بحالی اور مالیاتی نظم پر بات ہوئی۔ وزیر اعظم کے دورہ امریکہ کو اپوزیشن نے ملک میں تنقید کا ہدف بنا رکھا ہے۔ کبھی وزیر اعظم کے پروٹوکول اور کبھی وزیر اعظم کے وفد میں عسکری قیادت کی شمولیت پر اعتراض کیا جاتاہے۔ حیرت کی بات ہے کہ اپوزیشن خاص طور پر مسلم لیگ ن اس دورے پر جن پہلوئوں سے تنقید کر رہی ہے بھارتی ذرائع ابلاغ بھی ان کو زیر بحث لا رہے ہیں۔ تحریک انصاف کے حامیوں میں زیادہ تعداد ان پڑھے لکھے اور سیلف میڈ افراد کی ہے جنہوں نے کرپشن، اقربا پروری اور سیاسی مفادات میں لتھڑے ہوئے نظام سے بیزاری کا اظہار کر کے اپنی جدوجدہد کو دیانت داری سے جاری رکھا۔ یہ لوگ جانتے ہیں کہ پاکستان کے پاس قدرت کے عطا کردہ تمام خزانے موجود ہیں۔ اگر کوئی چیز نہیں تو وہ عوام کے مسائل سے آگاہ نظام ہے۔ تارکین وطن وسائل پر حکمران طبقات کے تسلط کے باعث ریاست کے مہربان خزانوں میں سے نہ اپنا گھر بنا سکے نہ روزگار حاصل کر سکے۔ یہ لوگ ملک کی خدمت کے دعویدار رہنمائوں کی باتوں میں آ کر کئی بار لٹے اور آخر دوسرے ملکوں کا رخ کیا۔ پاکستان ہر سال ان کی وجہ سے 20ارب ڈالر کا زرمبادلہ حاصل کرتا ہے۔ سفارتی مشینری کی نا اہلی کا بھرم ان پاکستانیوں نے قائم رکھا ہے جو ذاتی جیب سے خرچ کر کے دوسرے ممالک میں پاکستان کا مثبت تشخص بناتے ہیں۔ واشنگٹن کے وسیع و عریض ایرینا میں وزیر اعظم عمران خان کے خطاب کا انتظام بھی ایسے ہی پاکستانی تارکین کا حسن انتظام بتایا گیا ہے جو دیار غیر میں رہ کر پاکستان کی سلامتی، ترقی اور استحکام کے لیے کوششیں جاری رکھتے ہیں۔ پاکستانیوں کے اجتماع سے خطاب میں وزیر اعظم نے ان اقدامات کا ذکر کیا جن کے ذریعے وہ معیشت کو مستحکم کر رہے ہیں۔ پاکستان پر 30ہزار ارب روپے کا قرض ہے۔ اس قرض کو واپس کرنا ہے۔ ملک میں ایسے مواقع پیدا کرنا ہیں کہ روزگار کے مسائل نہ رہیں۔ میرٹ سسٹم کو بحال کرنا ہے۔ خواتین حقوق کے لیے حکومت نے کئی قانونی مسودے تیار کر رکھے ہیں جن میں عورتوں کو وراثت سے حصہ دینے کا معاملہ بھی شامل ہے۔ یہ تمام باتیں امریکہ اور کینیڈا میں آباد پاکستانی سننا چاہتے ہیں۔ وہ جاننا چاہتے ہیں کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے ایک سال کے اقتدار میں نظام کوشفاف اور قابل بھروسہ بنانے کے لیے کیا کچھ کیا ہے۔ یقینا وزیر اعظم سے ملاقات میں تارکین وطن نے اپنے مسائل سے آگاہ کیا ہو گا۔ ایسے بہت سے مسائل ہیں جن کو فوری طور پر حل کیا جانا ضروری ہے۔ خاص طور پر ان کی املاک پر قبضے، سرمایہ کاری اور بچوں کے حوالے سے معاملات وزیر اعظم کی توجہ چاہتے ہیں۔ یہ امر باعث تشویش ہے کہ امریکہ میں وزیر اعظم کی آمد سے قبل ایسے ملک دشمن گروہ سرگرم ہو چکے ہیں جو احتساب کے معاملے کو متنازع بنانا چاہتے ہیں۔ ایسے لوگ بھی متحرک ہیں جو بعض اقلیتوں کے حقوق کے نام پر ملک دشمن مہم چلا رہے ہیں۔ بھارت کی شہہ پر بلوچستان کے علیحدگی پسند الگ تماشاہ لگا رہے ہیں۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایسے افراد کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں جو کسی مسلم ملک، خاص طور پر پاکستان کے خلاف ان سے شکایت کریں۔ س صورت حال میں واشنگٹن میں ہزاروں پاکستانیوں کے اجتماع سے وزیر اعظم عمران خان کے خطاب سے صدر ٹرمپ کو یہ واضح پیغام گیا ہے کہ ان کی ملاقات پاکستان کے ایک ایسے رہنما سے ہو رہی ہے جو ملک اور بیرون ملک یکساں مقبول ہے۔ جن ممالک میں سفارتی اور حکومتی رابطے کسی ریاست کے اہداف پورے نہ کر سکیں وہاں پبلک ڈپلومیسی عمدہ نتائج دیتی ہے۔ وزیر اعظم کا خطاب امریکہ میں آباد صرف پاکستانی تارکین کے لیے حوصلہ افزا نہیں بلکہ اس سے امریکی انتظامیہ کو پاکستان کی ترجیحات سمجھنے میں سہولت ملی ہے۔