یہ آج سے آٹھ سال پہلے کی بات ہے‘میں لاہور ایک مشہور نجی تعلیمی ادارے میں اردو پڑھاتا تھا،ایک روز مجھے ایک پرانے کولیگ کا فون آیا ہے کہ لاہور کے ایک مشہور فزیشن کے بیٹے کو اردو کی ہوم ٹیویشن پڑھانی ہے ۔ میں نے اپنے اس کولیگ سے مروت میں حامی تو بھر لیں مگر دل انکار پر بضد رہا۔میں نے سوچا کہ جب مجھے کال آئے گی تو میں انکار کرنے کی بجائے فیس اس قدر زیادہ بتائوں گا کہ وہ خود ہی انکار کر دیں۔ اگلے روز مجھے اس مشہور ڈاکٹر کا فون آ گیا‘اپنا تعارف کروایا کہ میں فلاں فلاں ہسپتال میں بیٹھتا ہوں اور میرا اپنا ہسپتال بھی ہے‘آپ کا بہت نام سنا ہے‘آپ ہمیں وقت دیں۔میں نے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت تین گنا فیس بتاتے ہوئے کچھ شرائط بھی گنوا دیں‘ انھوں نے میری ڈیمانڈڈ فیس بھی دینے کی حامی بھر لی اور دیگر شرائط بھی۔اب میرے پاس کوئی عذر نہیں تھا لہٰذا میں نے پڑھانے کی حامی بھر لی۔ مجھے اس بچے کو پڑھاتے ہوئے تقریباً ایک ماہ گزر گیا‘میں نے اس دوران بارہا محسوس کیا کہ یہ بچہ اردو تو کیا‘سرے سے پڑھائی میں ہی سنجیدہ نہیں۔میں نے ایک روز اس سے پوچھا کہ بھئی تمہارا مسئلہ کیا ہے؟پانچ پروفیسر(مختلف مضامین کے) تمہارے گھر پڑھانے آتے ہیں‘دنیا کی ہر سہولت تمہیں میسر ہے جو پاکستان میں صرف دس سے پندرہ فیصد بچوں کو میسر ہوتی ہے‘پھر بھی تم اس قدر کاہل اور سست کیسے ہو سکتے ہو؟ اس طالب علم کے جواب نے میرے رونگٹے کھڑے کر دیے‘اس نے کہا ’’سر میں ڈاکٹر بننا ہی نہیں چاہتا مگر میرے والد کا کہنا ہے کہ اگر تم میڈیکل نہیں پڑھو گے تو تمہیں مار دیں گے‘‘۔مجھے یہ جواب سن کر شدید دھچکا لگا ‘ایک بچے پہ اس قدر ظلم کیوں؟حالاں کہ اس بچے کا ایک بھائی‘دو بہنیں اور والد ڈاکٹر تھا۔اس سب کے باوجود اس کے والد کی خواہش تھی کہ اسے بھی میڈیکل میں ہی جانا چاہیے کیوں کہ اگر یہ ڈاکٹر نہ بن سکا تو معاشرے میں اس کا نام خراب ہوگا۔ میں نے اگلے ہی روز ان سے اس نوکری سے معذرت کر لی اور ڈیڑھ ماہ کی بجائے محض ایک ماہ کی تنخواہ وصول کی اوران کو اللہ حافظ کہ دیا۔وہ دن ہے اور آج کا دن‘میں نے ہمیشہ کلاس روم میں کھڑے ہو کر اپنے بچوں کو یہی بتایا اور سمجھایا کہ ’’بچو !سکوپ ڈگری میں یا سی جی پی میں نہیں ہوتا‘آپ کے اندر ہوتا ہے۔ڈگریاں آپ کو انٹرویو کی ٹیبل تک تو پہنچا سکتی ہیں‘اس سے آگے آپ کی اپنی صلاحیتیں ہوتی ہیںجو آپ کی کامیابی کا باعث بنتی ہیں۔ میں اپنے پاس آنے والے ہر طالب علم کے والدین سے یہی بات کرتا ہوں کہ خدارا ً اپنے بچوں کو مستقبل کے معاملات میں خود مختار کر دیں‘آپ انھیں گائیڈ ضرور کریں‘انھیں مختلف شعبوں سے متعارف ضرور کرائیں مگر آخری فیصلہ ان پر چھوڑ دیں‘آپ بس ان پر اعتماد کریں‘وہ آپ کے اعتماد کو کبھی ٹھیس نہیں پہنچائیں گے۔مسئلہ تب شروع ہوتا ہے جب بچہ آرٹس یا کامرس کی طرف جانا چاہتا ہے اور ہم اسے سائنس یا انجینئرنگ کی جانب جانے کے لیے محض اس لیے مجبور کرتے ہیں کہ اس کا سکوپ ہے۔ یہ کیسا عجیب فارمولا ہے کہ مولوی کا بیٹا مولوی بنے گا‘انجینئر کا بیٹا انجینئر بنے گا ‘وکیل وپولیس والے کا بیٹا بھی وکیل یا پولیس مین بنے گااورڈاکٹر کا بیٹا ڈاکٹر۔ خدا جانے ہم اپنے بچوں کے ساتھ یہ ظلم کرنا کب چھوڑیں گے۔ خدا جانے ہم اپنے بچوں کو یہ اعتماد کب دیں گے کہ وہ اپنے مستقبل کافیصلہ خود کریں‘مجھے پورا یقین ہے کہ آپ کابچہ اگر اپنی مرضی سے آرٹس میں بھی جائے گا تو وہ کچھ نہ کچھ نیا ضرور کرے گا‘وہ والدین کو مایوس نہیں کرے گا۔آپ خود دیکھ لیجیے گا‘جو بچہ موسیقی پڑھنا چاہتا تھا‘اسے آپ نے جبراً ڈاکٹر بنا دیا‘وہ کبھی اپنے شعبے میں دل سے کام نہیں کرے گا۔وہ مریضوں کو انجکشن تو لگا رہا ہوگا مگر ساتھ میں نصرت‘محمد رفیع اور لتا کا گانا بھی گنگنا رہاہوگا۔شاید آپ کو میری باتوں سے اتفاق نہ ہو مگر یہ باتیں آنے والے دنوں میں ضرور سچ ثابت ہوں گی کہ بہتر وہی تھا‘جو بچہ خود کہ رہا تھا۔ میں یہ نہیں کہتا کہ کامرس‘سائنس یا انجینئرنگ اچھے شعبے نہیں‘یا میں صرف فنونِ لطیفہ اور آرٹس کو فروغ دینا چاہ رہا ہوں‘میں تو وہ بتا رہا ہوں جو پچھلے پندرہ سال میں دورانِ تدریس میں نے دیکھا‘محسوس کیا اور جو ظلم نئی نسل پر اب تک ہورہا ہے۔میں یہ بات آج تک نہیں سمجھ پایا کہ ہم ایسا کیوں کرتے ہیں۔ہم نے اپنے معاشرے میں آرٹس اور فنونِ لطیفہ سے نفرت خود پیدا کی‘ہم نے اپنے بچوں کو خود بتایا کہ اردو یا آرٹس سبجیکٹ پڑھناایک ناکام طالب علم ہونے کی نشانی ہے‘مولوی اور استاد معاشرے کے نااہل لوگ ہوتے ہیں لہٰذا اچھا وہی ہے جو انجینئر‘ڈاکٹر یا بینکار بن گیا‘ڈاکٹر چاہے چائنہ کا بھی وہ ڈاکٹر ہی ہوتا ہے ہم جانتے بوجھتے ایک ایسا ذہنی غلام معاشرہ تیار کر رہے ہیں جس میں دور دور تک کوئی بڑا ذہن پیدا نہیں ہو سکتا‘ہم ایک ایسی نسل تیار کر ہے ہیں جس میں ڈاکٹر ‘انجینئر‘ بینکار‘ شاعر‘ ادیب‘مصور‘موسیقار‘سائنس دان تو نہیں ہوں گے مگر’’ دولے شاہ کے چوہوں‘‘ کی تعداد خاصی کثرت میں ہوگی۔ایسی’’ بونی‘‘قوم دنیا میں صرف بدنامی کا باعث بنتی ہے۔ عزت و وقار کا نہیں۔اگر ہم سب چاہتے ہیں کہ ہماری آنے والی نسل روشن دماغ پیدا ہو تو ہمیں اپنے اور اپنے بچوں کے دماغوں سے وہ لوہے کے خول اتارنے ہوں گے جو ہم نے ان کے سروں پر چڑھا رکھے ہیں‘ہمیں ایک آزاد خیال‘روشن دماغ اورتازہ دم معاشرہ تیار کرنا ہوگا۔ اگر ہم نے آج بھی اس تباہ کن صورت حال سے اپنے بچوں کو نہ نکالا تو یاد رکھیے آنے والی نئی نسل ‘موجودہ نسل ِ نو سے زیادہ خطرناک ہوگی اور ایسی ہی ہم نسل در نسل غلامی اور ذہنی پس ماندگی کا شکار ہوتے چلے جائیں گے‘اگر یہ سب ایسے ہی چلتا رہا تو ہم مغرب کی کامیابی پر گالیاں اور اپنی ناکامی پر بھی تالیاں بجاتے رہ جائیں گے ۔ ٭٭٭٭٭