ہم لوگ کسی کام چور ڈاکٹر، کرپٹ آفیسر یا نااہل ایجوکیشنسٹ کی کمزوریاں پکڑنے میں خوب مہارت رکھتے ہیں لیکن جب ایک اہل اور مخلص بندے کی ہزار خوبیاں بھی ہم پر منکشف ہوجاتی ہیں تواس کی دلجوئی اورتعریف کیلئے ہمارے پاس دوالفاظ بھی نہیں ہوتے ۔خدانہ کرے کہ ایک دن کام والے بندے بھی ہم سے روٹھ جائیں گے ۔ ژوب سول ہسپتال میں چند روز پہلے جانا ہوا تو ماضی کی نسبت یہاں پرکافی بہتری اور تسلی بخش تبدیلی ملی،یاد رہے کہ ژوب سول ہسپتال(ڈی ایچ کیو) اس علاقے کا وہ واحد ہسپتال ہے جس سے نہ صرف ژوب شہر اور بے شمار دیہی علاقہ جات کے مریضوں کا بلکہ ضلع شیرانی، موسیٰ خیل اور قلعہ سیف اللہ،وانا حتیٰ کہ افغانستان کے چندعلاقوں کے مریض بھی یہاں علاج کیلئے لائے جاتے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے ماضی میں صحت کے اس مرکزی ادارے کے بنیادی وسائل بھی ہماری غافل حکومتوں سے پورے نہیں ہوپارہے تھے۔یہاں سے منتخب ہونے والے ایم پی ایز تو گفتار کے غازی خوب بنے ہوئے تھے لیکن کردار ان کا کافی مایوس کن رہاتھا۔جب سے میںنے ہوش سنبھالا ہے تب سے ژوب سول ہسپتال قابل رحم اور خستہ حال میں دیکھتاآرہاہوں۔ ژوب ہسپتال صحت کا وہ بدنصیب ادارہ تھا جو اس الٹراساونڈسسٹم کی سہولت سے بھی محروم تھا۔ باولے کتوں کے علاج کیلئے ریبیز انجکشنزکااستعمال ، گردوں کے مریضوںکیلئے ڈائیلاسز مشینیں، سی سی ٹی وی کیمروں کی تنصیب اور ٹراما سنٹر کا قیام اس ہسپتال میںایک خواب وخیال لگتاتھا۔البتہ ہسپتال کی بے حس انتظامیہ نے ایک شرمناک سہولت عوام کیلئے ضرور مہیا کی تھی وہ یہ کہ یہاں پر شہر اور دیہات کے لوگوں کیلئے گاڑیاں پارک کرانے پر کوئی قدغن نہیں تھی ۔اللہ کا لاکھ شکر ہے کہ پچھلے ایک سال سے ژوب ہسپتال حقیقت میں ایک شفاخانہ لگتاہے ۔ ایک کے بجائے دو گائناکالوجسٹ بھی تعینات ہوچکی ہیں،سی سی ٹی وی کیمرے نصب ہوچکے ہیں، ریبیزکے متاثرہ مریضوں کا علاج کیاجاتاہے،کڈنی مریضوں کیلئے ڈائیلاسز اور سی بی سی مشین اورالٹراساونڈسسٹم جیسے بنیادی سہولیات کی فراہمی یقینی بنائی گئی ہیں۔چندماہ پہلے صحافیوں کو پریس بریفنگ دیتے ہوئے ڈاکٹر ہادی کاکہناتھا کہ ایک ماہ میں آوٹ ڈور میں نوہزار چھتیس مریضوں کو چیک کیاگیاہے جس میں سات ہزار پانچ سوپینتیس مریضوں کو ہسپتال سے ادویات بھی دی گئی ہیں۔ گوکہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ ژوب ہسپتال اس وقت گاڑیاں پارک کرانے یاقبائلی تنازعات کے تصفیے کرانے کی جگہ نہیں بلکہ صحت کا ایک تسلی بخش ادارے کا روپ دھار چکاہے ۔اس ادارے کی فعالیت کا سہرا پچھلے سال تعینات ہونے والے نوجوان ایم ایس ڈاکٹر عبدالہادی کاکڑ کے سَر جاتاہے جنہوں نے صوبے کے دیگر ہسپتالوں میں غیرمعمولی تنخواہ اور مراعات کو ٹھکراتے ہوئے ژوب ہسپتال کاانتخاب کیاہے ۔ ڈاکٹرعبدالہادی کاکڑ سے میری ایک مختصر ملاقات ہوئی ہے اور سچی بات یہ ہے کہ اسی ایک نشست میں مَیں نے انہیں ایک فعال ڈاکٹر اور خدمت خلق پریقین رکھنے والا بندہ پایا۔ماضی میں یہاں پر رہ جانے والے MSs اورڈاکٹرز کے مقابلے میں ڈاکٹر عبدالہادی کا معاملہ بالکل برعکس نظرآیا کیونکہ موصوف کوئٹہ کے ایک بلوچ خاندان میں شادی کرنے کے باوجوداپنے اہل وعیال کوکوئٹہ میں سسرال کے ہاں چھوڑکر خودایک مسافر کی طرح یہاں ژوب میں مقیم ہیں۔ اسی طرح اس ہسپتال میں بلوچستان رورل سپورٹ پروگرام (بی آر ایس پی ) کے فنڈز اور کوششوں سے قائم ہونے والا ٹراما سنٹر بھی ایک نئی تبدیلی ہے جس پر اس پرائیوٹ ادارے اس کی انتظامیہ کی جتنی بھی تعریف کی جائے وہ کم ہے ۔ تیسرے نمبر پرمیں ان قابل قدر اور اپنی ڈیوٹیوں پرہمہ وقت حاضر رہنے والے ڈاکٹرز کوبھی خراج تحسین پیش کرتاہوں جنہوں نے ہر وقت میں یہاں کے عوام کے علاج معالجے کے فریضے کواحسن طریقے سے نبھایاہے جن میں ڈاکٹر شیخ نصیب اللہ صاحب ،ڈاکٹر قمر صاحب ،ڈاکٹربایزمندوخیل صاحب، ڈاکٹر زین الدین کاکڑ، ڈاکٹر محمدامین صاحب اور اسلام آباد کی پرآسائش زندگی کوخیر باد کہنے والے سرجن جناب آصف اپوزئی صاحب کا نام قابل ذکر ہیں۔اسی طرح یہاں ژوب میں نیم سرکاری ادارے پی پی ایچ آئی میں ڈی ایم ایس رہ جانے والے ہمارے مخلص دوست جناب سیدامان شاہ صاحب(آج کل بارکھان میںتعینات) کے خدمات کا اعتراف کرنا بھی ضروری سمجھتاہوں جنہوں نے پولیو کے موذی مرض کے خاتمے کیلئے قابل قدرخدمات سرانجام دیئے ہیں۔ژوب کی نشست پرکامیاب ہونے والے ایم پی اے مٹھا خان کاکڑصاحب (مشیرلائیواسٹاک ) کا ذکر نہ کرنا بھی بے انصافی ہوگی ۔ اگرچہ موصوف ایم پی اے صاحب نے ابھی تک مذکورہ ہسپتال کیلئے اتنے فنڈز تو مختص نہیں کیے ہیں تاہم اس ہسپتال کی فعالیت میں ماضی کے تمام ایم پی ایز اور منسٹرز صاحبان کے مقابلے میں جاندار کردار اداکررہے ہیں۔مٹھا خان صاحب چونکہ بلوچستان حکومت میں ایک اہم منصب پر فائز ہیں ، یوں توقع کی جاتی ہے کہ وہ صحت کے اس بنیادی مرکز کوہرقسم کی جدیدسہولیات فراہم کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے ۔کیونکہ ڈاکٹر عبدالہادی کے مطابق ہسپتال اب بھی بہت سے ضروری سہولیات سے محروم ہے جس میں ایمرجنسی ادویات،فیڈریونٹ اور کارڈیک یونٹ کاقیام ، پانی کیلئے بورنگ ،ٹیکنیکل اسٹاف میں وسعت ،ایم ایس اور دوسرے بیرونی ڈاکٹرز کیلئے رہائش گاہوں کی تعمیرجیسے مطالبات شامل ہیں۔یاد رہے کہ ژوب کے دور دراز علاقوں کی ڈسپنسریاں (جسے فعال بنانا ڈی ایچ صاحب کی ذمہ داری ہے)بدقسمتی سے غیر فعال ہیں جس کی وجہ سے وہاں کے مریضوں کاعلاج بھی ژوب سول ہسپتال میں کیاجاتاہے۔ آخر میں اس صاحب خیر عرب نوجوان کا بھی مشکورہوں جنہوں نے کروڑوں روپے کے فنڈز جاری کرکے ژوب آرمی اور ایف سی کے توسط سے ژوب ہسپتال کی عمارت کی مرمت اور آرائش کی ہے ۔