پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس میں آصف علی زرداری نے میاں نواز شریف اور مولانا فضل الرحمن سے وہی کچھ کیا جو 2007ء میں میاں صاحب نے آل پارٹیز ڈیمو کریٹک الائنس(اے پی ڈی ایم) کے پلیٹ فارم پر عمران خان اور اپنے دیگر اتحادیوں اور حضرت مولانا نے اپنے حلیف قاضی حسین احمد کے ساتھ کیا تھا ؎ کانٹا کسی کے مت لگا‘گو مثل گل پھولا ہے تو وہ تیرے حق میں تیر ہے‘ کس بات پر بھولا ہے تو مت آگ میں ڈال اور کو‘پھر گھانس کا پولا ہے تو سن رکھ یہ نکتہ بے خبر‘کس بات پر بھولا ہے تو کُلجگ نہیں‘ کرجگ ہے یہ‘ یاں دن کو دے اور رات لے کیا خوب سودا نقد ہے‘ اس ہات دے‘ اس ہات لے حضرت مولانا فضل الرحمن کی سربراہی میں قائم ہونے والے سیاسی اتحاد پی ڈی ایم اور جولائی 2007ء میں لندن میں تشکیل پانے والے اے پی ڈی ایم میں گہری مماثلت ہے‘ فوجی آمر جنرل پرویز مشرف کے خلاف وجود میں آنے والا اتحاد اے آر ڈی اور ایم ایم اے کا مجموعہ تھا مگر پی ڈی ایم کی طرح اے پی ڈی ایم ابتدا ہی میں تنازعات کا شکار ہو گیا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو پرویز مشرف سے درپردہ مذاکرات شروع کر چکی تھیں اور مولانا فضل الرحمن کو اُمید تھی کہ 2007ء کے انتخابات کے بعد پرویز مشرف ایوان اقتدار میں موجود رہے تو ان کا دال دلیا بہتر انداز میں چلتا رہے گا‘ دال دلیا کی جگہ حلوہ مانڈا کی اصطلاح میں نے مولانا کے احترام میں استعمال نہیں کی‘ اے پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے دو اہم فیصلے ہوئے ۔اوّل یہ کہ اگر پرویز مشرف نے موجودہ اسمبلیوں سے دوبارہ صدر منتخب ہونا چاہا تو پارلیمنٹ میں موجود جماعتیں اجتماعی استعفوں کے ذریعے یہ کوشش ناکام بنا دیں گی۔ ثانیاً‘ پرویز مشرف کی زیر نگرانی انتخابات کا بائیکاٹ کیا جائے گا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے تو ابتدا ہی میں انتخابات کے بائیکاٹ اور اسمبلیوں سے استعفوں کے فیصلے سے اختلاف کیا اور آصف علی زرداری کی طرح میاں صاحب کے علاوہ دیگر حلیفوں کو باور کرایا کہ ہم پارلیمنٹ اور سسٹم کے اندر رہ کر جدوجہد کرنے کے حامی ہیں‘1985ء کے انتخابی بائیکاٹ کی غلطی دہرانے کے حق میں نہیں‘میاں نواز شریف اور مولانا نے ابتدا میں استعفوں اور بائیکاٹ کی آپشن پر صاد کیا مگر جونہی میاں صاحب وطن واپس آئے بے نظیر بھٹو کے مشورے اور اپنے بیرونی دوستوں کے دبائو پر بائیکاٹ کے فیصلے سے مکر گئے۔ عمران خان‘ قاضی حسین احمد‘ محمودخان اچکزئی وغیرہ اجتماعی فیصلے پر قائم رہے اور زندگی بھر پچھتائے ۔ایم ایم اے کے پلیٹ فارم پر مولانا نے قاضی صاحب سے بے وفائی کی اور اجتماعی استعفوں کے علاوہ بطور الیکٹورل کالج خیبر پختونخواہ اسمبلی توڑ کر فوجی آمر کی مشکلات میں اضافہ کرنے سے گریز کیا حالانکہ 2004ء میں پرویز مشرف تحریری معاہدے سے مکر کر مولانا اور قاضی دونوں کو دھوکہ دے چکا تھا۔16مارچ 2021ء کے اجلاس میں جب آصف علی زرداری نے میاں صاحب اور مولانا فضل الرحمن کو وہی بھاشن دیا جو یہ دونوں شاطر اور موقع شناس رہنما 2007ء میں عمران خان اور قاضی حسین احمد جیسے اپنے حلیفوں کو دیا کرتے تھے تو مجھے تعجب ہوا نہ افسوس‘ مریم نواز شریف کے جذباتی خطاب اور مولانا فضل الرحمن کی بے بسی پر مجھے شاکر شجاع آبادی یاد آئے۔ ؎ جیوں میکوں آن روایا ای‘ایویں میں وانگوں پل پل روسیں ہک واری روکے تھک پوسیں‘بیا یاد آسی توں ول روسیں کوئی ڈکھڑا اَن ونڈیسیا نہ‘توں لا کندھیاں کو گل روسیں بس فرق میعاد دا ہے شاکر‘میں اج رُناں توں کل روسیں اگست 2020ء میں تحریک کے مختلف مراحل کا اعلان ہوا تو پاکستان کی احتجاجی تحریکوں اور سیاسی اتحادوں کی تاریخ سے واقف تجزیہ کاروں کو بخوبی علم ہو گیا کہ دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کی قیادت نے مولانا فضل الرحمن کی مذہبی قوت کو استعمال کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور یہ دونوں جماعتیں بھی ایک دوسرے پر اعتماد کرنے کے لئے تیار ہیں نہ کسی مشترکہ حکمت عملی پر اتفاق رائے کی خواہش مند۔آصف علی زرداری میاں نواز شریف کے بارے میں یہ رائے رکھتے ہیں کہ وہ جذباتی توازن سے محروم ایک ضدی انسان ہیں جو سیاست میں ذاتی اور خاندانی مفاد کو ترجیح دیتے ہیں۔میاں نواز شریف ‘ آصف علی زرداری کو ایک موقع پرست‘ فریب کار اور بدعہد شخص سمجھتے ہیں۔ جن کی زبان پر اعتبار کیا جا سکتا ہے نہ سیاست پر‘ دونوں کی رائے میں وزن ہے۔زرداری سندھ حکومت کو اپنے اور اپنے خاندان کے لئے غنیمت سمجھتے ہیں اور فوری انتخابات کو پیپلز پارٹی کے لئے زہر قاتل کہ سندھ حکومت ان کے ہاتھ سے نکل جانے کا اندیشہ کیا گماں غالب ہے میاں صاحب تاحیات نااہل ہیں اور فی الحال مریم نواز شریف پر پارلیمانی سیاست کے دروازے بند پاتے ہیں‘ ان کا خیال ہے کہ بھر پور احتجاجی تحریک اور اجتماعی استعفوں سے عمران خان اور ان کے سرپرستوں کو ایسے انتخابات پر مجبور کیا جا سکتا ہے‘ جس کے نتیجے میں مسلم لیگ (ن) اور شریف خاندان پر پورے ملک نہیں تو کم از کم پنجاب میں اقتدار کے دروازے کھل جائیں۔ اس بنا پر وہ عدم اعتماد کی کسی تحریک کے حق میں ہیں نہ پنجاب میں چودھریوں سے مفاہمت کے حامی۔ دونوں قائدین اور خاندانوں کی تگ و دو پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی توجہ اپنی طرف مبذول اور بہتر سودے بازی کے لئے راہ ہموار کرنا ہے مگر طریقہ کار مختلف‘ میاں صاحب نے یہ مقصد محاذ آرائی اور تصادم کی حکمت عملی کے ذریعے حاصل کرنا چاہا ‘مولانا بھی ہمنوا نظر آئے جبکہ بھٹو کی پھانسی اور بے نظیر بھٹو کی ناگہانی موت کے بعد زرداری اس طریقہ کار کو اپنے اور جمہوریت کے لئے تباہ کن سمجھتے ہیں ان کا یہ موقف بھی ہے کہ میاں صاحب پنجاب کے ڈومیسائل کی بنا پر لڑ بھڑ کر بھی محفوظ ہیں جبکہ انہیں یہ سہولت حاصل نہیں۔ گزشتہ روز پی ڈی ایم کے اجلاس میں آصف علی زرداری نے میاں صاحب کی طبیعت صاف کی تو اس کا یہی پس منظر تھا اور سینٹ کے انتخابات میں مسلم لیگی سینیٹرز کی دغا بازی سے بھی وہ خاصے مضطرب تھے‘ مریم نواز نے جوابی تقریر میں جو موقف اختیار کیا وہ عذر گناہ بدتر از گناہ کا عمدہ نمونہ تھا‘ لندن میں بیٹھ کر اپنے اور دیگر جماعتوں کے لیڈروں اور کارکنوں کو اسٹیبلشمنٹ کے خلاف اکسانا‘ چڑھ جا سولی پہ بیٹا رام بھلی کرے گا‘ کا راگ الاپنا اور استعفوں کی ترغیب دینا آسان ہے‘ ملک میں رہ کر سیاسی اور جمہوری جدوجہد کرنا کارے دارد‘ اگر میاں صاحب کو جاں اتنی ہی عزیز ہے اور ان کے صاحبزادگان بھی بلاول بھٹو کے شانہ بشانہ لاٹھی گولی کھانے کے لئے تیار ہیں نہ جیل جانے پر آمادہ ۔ جس کو ہو جان و دل عزیز اس کی گلی میں جائے کیوں تو چھوڑیں جمہوری جدوجہد اور اُصول پسندی کے نعرے ۔آصف علی زرداری کو کیا پڑی ہے کہ سندھ حکومت سے ہاتھ دھوئے ‘ اپنے اکلوتے بیٹے کو جیل بھیجے اور اس عمر اور بیماری کی حالت میں خود قربانی کا بکرا بنے ۔پی ڈی ایم کاٹھ کی ہنڈیا تھی‘ بیچ چوراہے کے پھوٹ گئی‘ یہ جمہوری اتحاد ہوتا اور کسی اعلیٰ نصب العین کے لئے متحرک تو پیپلز پارٹی کی طرف سے کورا جواب ملنے پر لانگ مارچ سے دستبردار ہونے کے بجائے نو جماعتوں کی رائے کو اہمیت دیتا‘ اپنے لائحہ عمل کا اعلان کرتااور عوام کو سڑکوں پر لانے سے پہلے استعفوں کی آپشن بروئے کار لاتا‘ مگر قیادت خوب جانتی ہے کہ اجتماعی استعفوں پر ارکان پارلیمنٹ کا ردعمل کیا ہو گا؟ میاں صاحب اور مولانا کے ساتھ زرداری نے وہی کیا جو یہ دونوں حد سے زیادہ شاطر سیاستدان 2007ء میں اپنے اتحادیوں سے کر چکے‘قاضی صاحب اللہ تعالیٰ کو پیارے ہو چکے‘عمران خان البتہ آصف علی زرداری کا شکریہ ادا کریں کہ اُس نے بھی ایک گیند سے دو کھلاڑی آئوٹ کر ڈالے۔