یوم سارک کے موقع پر اپنے خصوصی پیغام میں وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ خطے میں غربت‘ جہالت‘ بیماری اور پسماندگی کے خاتمہ کے لئے ہمارے کندھوں پر ذمہ داری آن پڑی ہے۔ انہوں نے کہا کہ برابری کے اصولوں پر کاربند رہتے ہوئے موثر علاقائی تعاون ممکن ہے نیز ترقی کے عمل میں مسلسل رخنہ ڈالنے کا سلسلہ ختم ہونا چاہیے۔ سارک جنوبی ایشیا کے ممالک کی تنظیم ہے۔1984ء میں پاکستان‘ بھارت ‘ بنگلہ دیش‘ مالدیپ ‘ نیپال‘ سری لنکا اور بھوٹان نے یہ تنظیم قائم کی۔ بعد ازاں افغانستان بھی اس کا رکن بن گیا۔بنیادی مقصد خطے کے ممالک کے درمیان تجارتی روابط میں اضافہ اور باہمی تنازعات کو بات چیت سے طے کرنا تھا۔ تنظیم کے اجلاس چند برس پیشتر تک بڑی باقاعدگی سے ہوتے رہے۔ وزرائے خارجہ اور سربراہان کی سطح کے اجلاس خطے کے دو ارب باشندوں کی خصوصی توجہ کا مرکز ہوتے۔ خطے میں باہمی تجارت کو فروغ دینے کے لئے فری ٹریڈ معاہدہ ہوا۔ ثقافتی و تعلیمی شعبوں میں تعاون کے لئے بہت سے اقدامات ہوئے۔ ان اقدامات کا تعین اس طرح ہوتا رہا کہ بھارت کو ان کے زیادہ فوائد حاصل ہوں۔ بھارت نے سارک کانفرنس کے ابتدائی برسوں میں موجود خیر سگالی کی فضا کو ختم کر کے سارک کو اپنے مفادات کا ذریعہ بنا لیا۔ جوں جوں بھارت نے سارک کی افادیت کا گلا دبایا خطے کے دیگر ممالک کو شکایات پیدا ہونے لگیں۔ بی جے پی بھارت میں برسر اقتدار آئی تو اس نے داخلی پالیسیوں کے ذریعے اقلیتوں کا جینا مشکل کر دیا۔ انتہا پسند ہندو حکمرانوں نے باہمی احترام‘ برابری اور مکالمہ کی ان اقدار سے روگردانی کو وطیرہ بنا لیا جو جنوب مشرقی ایشیا کو ایک بلاک کی صورت میں ابھار رہی تھیں۔ ثقافتی تعاون کا مطلب یہ سمجھ لیا گیا کہ باقی تمام ممالک بھارت کی فلموں اور اوٹ پٹانگ ڈراموں کی منڈی رہیں گے۔ ان ملکوں کو اپنی تفریحی ثقافت کو بھارت میں فروغ دینے کا موقع نہیں دیا گیا۔ تجارتی رابطوں اور رعایتوں کی حالت کم و بیش ایسی ہی تھی۔ خطے کی ستر فیصد تجارت پہلے ہی بھارت کے تسلط میں تھی وہ باقی ممالک کو 30فیصد دینے پر بھی آمادہ نہ تھا۔ فری ٹریڈ معاہدہ میں بھارت نے اپنی اشیا کو کم سے کم شرح ڈیوٹی کا مستحق قرار دلایا اور خطے کی منڈی میں بھارتی مصنوعات کے لئے گنجائش بنائی۔ پاکستان‘ سری لنکا اور بنگلہ دیش کے لئے مساوی تجارتی رعایتوں کے عمل میں رکاوٹیں حائل کی جاتی رہیں۔دو دن پہلے مودی حکومت نے لوک سبھا میں شہریت کا متنازع بل پیش کیا جس پر حزب اختلاف اور حزب اقتدار کے درمیان شدید ہنگامہ آرائی ہوئی۔ شہریت ترمیمی بل 2019ء کے مطابق بھارت میں 1955ء سے نافذ شہریت کا قانون تبدیل کر دیا جائے گا۔ پاکستان‘ بنگلہ دیش‘ افغانستان سے آنے والے ہندوئوں اور دیگر غیر ملموں کے لئے شہریت حاصل کرنے کا عمل آسان بنایا جا رہا ہے جبکہ عشروں سے آباد مسلمان مہاجرین کو شہریت دینے کا عمل مشکل بنایا جا رہا ہے۔ بھارتی قانون کے تحت غیر قانونی طور پر دوسرے ممالک سے آنے والے افراد خصوصاً مسلمانوں کو جبراً واپس بھیج دیا جائے گا۔ بھارتی اپوزیشن کا کہنا ہے کہ مجوزہ قانون ملک میں مذہبی امتیاز کی شدت میں اضافہ کر سکتا ہے۔ بھارت کے اس فیصلے سے پورے جنوبی ایشیا میں اضطراب پیدا ہو سکتا ہے۔ مہذب اور ترقی یافتہ اقوام نے یہ اصول اپنا لیا ہے کہ وہ اپنے تنازعات کو جنگ اور تصادم سے حل کرنے کی بجائے بات چیت سے طے کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ان ملکوں نے جنگوں پر اٹھنے والے بھاری اخراجات بچائے اور ان وسائل کو اپنے عوام کی بھوک مٹانے‘ انہیں گھر مہیا کرنے‘ تعلیم اور صحت کی سہولیات فراہم کرنے کے لئے استعمال کیا۔ پاکستان نے ہمیشہ اس امر کی خواہش کی ہے کہ بھارت کشمیر سمیت دو طرفہ تنازعات کو بات چیت سے طے کرے۔ گزشتہ حکومتوں کی طرح وزیر اعظم عمران خان نے متعدد بار بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو دعوت دی کہ باہمی تنازعات کو بات چیت سے حل کرنے کی طرف قدم بڑھائیں۔ یہ بات صرف کہنے کی نہیں بلکہ پاکستان کی قیادت نے کرتار پور راہداری کو ریکارڈ مدت میں تعمیر کر کے ثابت کر دیا کہ وہ خطے میں استحکام کے لئے خلوص نیت سے کام کر رہا ہے۔ سارک تنظیم خطے کے ممالک کو وہی موقع دیتی ہے جو چینی سرمایہ کاری اور سی پیک پاکستان‘ بھارت‘ بنگلہ دیش اور سری لنکا کی منڈیاں ایک دوسرے سے منسلک کر کے فراہم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ حالات نے کس طرح کا جبر مسلط کر رکھا ہے کہ صرف بھارت کی وجہ سے سارک تنظیم اپنا کردار اور افادیت ظاہر نہیں کر سکی۔ بھارت کو یہ بات پیش نظر رکھنی ہو گی کہ گزشتہ چار دہائیوں سے اس سے کہیں چھوٹی آبادی اور کئی گنا چھوٹی معیشت رکھنے والا پاکستان مشکلات کے باوجود عالمی سطح پر اس کا ہم پلہ حریف بن کر کس طرح مقابلہ کر رہا ہے۔ پاکستان نے خطے میں موجود بین الاقوامی مفادات کے متعلق جو موقف اختیار کیا اس نے دنیا کو قائل کیا کہ وہ پاکستان کی عزت کرے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ چند ماہ قبل ایک بیان میں پاکستانیوں کو سخت جان اور اپنے وقار کا خیال رکھنے والی قوم قرار دے چکے ہیں۔ افغانستان میں قیام امن کی کوششیں ہوں، دہشت گردی کے خلاف جنگ ہو یا خطے کی سکیورٹی کا معاملہ ہو پاکستان کا کردار موثر اور فعال رہا ہے۔ وزیر اعظم نے جن الفاظ میں برابری کے اصولوں کی بات کی ہے وہ خطے میں طاقت کے توازن کی جانب اشارہ کر رہے ہیں۔ بھارت اگر پاکستان اور خطے کے دیگر ممالک‘ خصوصاً مسلمان ممالک کے متعلق امتیازی سوچ سے چپکا رہا تو اس کے لئے اپنی تجارت اور سکیورٹی کے مسائل سے نمٹنا مشکل ہو سکتا ہے۔