ہمارے ہاں شادی بیاہ کی بے جا رسومات کے لئے اکثر ہندو مت کو موردِ الزام ٹھہرایا جاتا ہے۔ہم میں سے اکثر ان قباحتوں کو برا جانتے ہیتاہم اپنی باری آنے پر کوئی ان سے جان چھڑانے کے لئے تیار نہیں ہوتا۔ایک اندازے کے مطابق مڈل کلاس پاکستانی گھرانوں میںعام درجے کی ایک شادی پرلڑکی والے قیمتی عروسی جوڑو، زیورات اور جہیز میں دیئے جانے والے سامان پر اوسطاً پچاس لاکھ روپے تک خرچ کرتے ہیں۔اس کے علاوہ دونوں طرف بارات اور ولیمے کی مد میں اوسطاً دس سے بیس لاکھ روپے درکار ہوتے ہیں۔ ہمارے دین میں جہیزاور بارات جیسی تقریبات کا کوئی تصور موجود نہیں۔ ہر خاص و عام کے علم میں ہے کہ انہی خرافات کی بناء پر ہمارے معاشرے میں بیٹیوں کو بوجھ سمجھا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ بیٹی کی پیدائش سے ماں باپ کے کندھے جھک جاتے ہیں۔بہت سی دیگر معاشرتی وجوہات اپنی جگہ تاہم اس بوجھ کی بنیادی نوعیت معاشی ہی ہے۔ ہندو مت پر الزام تو دھرا جاتا ہے،تاہم قدیم ویدک عہد میں عورت کو معاشرے میں قابل رشک مقام حاصل تھا۔رگ وید میں عورت کی ذات کو بابرکت بتایا گیاہے۔ انہیں شوہر کے انتخاب کی کامل آزادی حاصل تھی۔ کہا جاتا ہے کہ بعد ازاں ہندومت پر ایران بالخصوص بین النہرین ثقافت کے اثرات پڑے تو عورت کی حیثیت گھٹتی چلی گئی۔500 قبل مسیح ہندو مذہب کے احیاء نے عورت کے مقام کو بے حد گھٹا دیا۔ چنانچہ بیٹے کے لئے جہاں سنسکرت میں ’’پتر‘‘ کا لفظ استعمال ہوا وہیں بیٹی کے لئے ’دہتر‘کی اصطلاح استعمال ہوئی۔ ’دہتر‘کا مطلب ہے ’دور کردی گئی‘، یعنی ’ پرایا دھن‘ ۔ ہندوئوں میں بیاہ کی اہم رسم کو بھی’کنیادان‘ کہتے ہیں کہ جس سے مراد ہے کہ بچی ’دان‘ ( خیرات) کردی گئی۔قدیم ویدوں میں جہیز کا کوئی تصور موجود نہیں تھا۔تاہم چونکہ عورت کا جائیداد میں کوئی حصہ مقرر نہی،لہٰذہ لڑکی کے خاندان سے توقع کی جاتی تھیکہ بیٹی کو ایک ہی بار اپنی استطاعت کے مطابق بہترین لباس اور مناسب زیورات پہنا کر رخصت کیا جائیگا۔ بعد ازاں اسی رسم میں نمود و نمائش شامل ہوتی چلی گئی۔ ہندوئوں کے ہاں شادی ’منڈپ ‘میں کی جاتی ہے۔منڈپ دراصل ایک خیمہ ہے،جو لڑکی کے گھر کے صحن میں لگایا جاتاہے۔ شادی کی تمام رسومات کی ادائیگی کے علاوہ باراتیوں کی تواضح اسی خیمے کے اندر کی جاتی۔منڈپ کو موجودہ دور کا شادی ہال کہا جاسکتا ہے ۔ لڑکی کے گھر میںبارات کی آمد ،رسومات کی ادائیگی ، مہمانوں کے لئے تناول ماحضر اور بالآخر وہیں سے دلہن کی رخصتی کا تصور غالباََ ’’ منڈپ‘‘ سے ہی مستعار لیا گیا ہے۔ اللہ کے رسولﷺ نے اپنی نورِ نظر فاطمۃ الزہرہ ؓ کا نکاح حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے کیا تو بتایا جاتاہے کہ گھرداری کا سامان تو کیا آپ کے پاس اپنا مکان بھی نہیں تھا۔چنانچہ آپؐ نے عم زاد کا ولی ہونے کی حیثیت سے انہیںاپنی زرہ بکتر فروخت کر کے بیوی کے لئے حق مہر کی ادائیگی کا بندوبست کرنے کو کہا۔حق مہر کیرقم آپ ؐکے حوالے کی گئی،تو آپؐ نے آٹا پیسنے کی چکی، چند برتن اور کچھ معمولی اشیاء خرید کرمیاں بیوی کے حوالے کیں۔ بد قسمتی سے حق مہر سے خریدی گئی اشیاء کو آپ ؐ کی طرف سے بیٹی کے لئے جہیز قرار دے کر جہیز کا جواز گھڑنے کی کوشش کی جا تی ہے۔ دین حق کی تعلیمات کے مطابق شادی کے موقع پر صرف ایک کھانے کی تاکید ہے اور وہ ولیمہ ہے ، جس کی ذمہ داری مرد پر ہے۔اب اسے بدقسمتی نہ کہا جائے تو کیا کہا جائے کہ ہمارے معاشرے میںوہ ماں باپ جو اپنے لختِ جگر کو پال پوس کر کسی اور کا گھر آباد کرنے کے لئے اس کے حوالے کرتے ہیں تو الٹا انہی سے یہ امید بھی رکھی جاتی ہے کہ وہ نئے گھر کے لئے سوئی سے لے کر گاڑی تک کا بندو بست بھی کریں گے۔ یہ بھی توقع کی جاتی ہے کہ بارات کی شکل میںلڑکی کے ہاں آنے والے لائو لشکر کہ جس میں عزیز و اقرباء کے علاوہ ڈھیروں اجنبی بھی ڈھو ڈھا کر ’منڈپ‘ میں لائے جاتے ہیں، لڑکی والوں کے مرغ متنجن، بریانی، تکہ کباب اور حلوے مانڈے پر دادِشجاعت دے گا۔ ایک خاتون کہ جنہوں نے ایک پختون گھرانے کی بیٹی کو اپنی بہو بنانے کا فیصلہ کیا تھا، بعد ازاں پریشان پھرتی رہیں۔ پختونوں کے ہاں شادی اور گھر بسانے کی تمام تر ذمہ داری لڑکے پر عائد ہوتی ہے۔ یہ نا صرف منطق بلکہ ہماری دینی تعلیمات کے عین مطابق ہے۔ سوال یہ ہے کہ گھر لڑکے کا بسایا جارہا ہے تو قیمت لڑکی کے والدین کیوں کر ادا کریں۔ایسا نہیں کہ ہر دلہن کے ماں باپہمیشہمظلوم ہی ہوتے ہیں۔ جن کے ہاں لڑکے ہوتے ہیں جب انہیں بیاہنے کی باری آتی ہے تو انہی مظلوم مائوں بہنوں کو اپنے سارے ارمان یاد آجاتے ہیں۔اَوروں پر ظلم ڈھانا ہو۔ خود اپنی زندگی عذاب کرنی ہو تو کوئی گُر ہم سے سیکھے۔ میں پاکستانی مڈل کلاس سے تعلق رکھتا ہوں، اپنے جیسوں میں رہتا ہو۔ جانتا ہوں کہ شادیوں پر کروفر کے لئے جن کے پاس فوری وسائل نہ ہوں وہ اپنے گنے چُنے اثاثے فروخت کرتے ہیں۔بیٹی کی شادی کے لئے پلاٹ بیچنا اچھنبے کی بات نہیں سمجھی جاتی۔جس گھر میں دو چار بچیاں موجود ہوں ، بڑی بوڑھی عورتیں اسکنبے کا تذکرہ تاسف سے کرتی ہیں ۔ جو کنبے جوان بچیوں کو ٹھکانے لگا بیٹھیں،انہیں خوش نصیب سمجھا جاتاہے۔ اس فرض کی ادائیگی میں کون کس راہ سے گزرا، سبھی جانتے ہیں۔ لیکن بے جا اصراف سے باز نہیں آتے۔ غربت سے پناہ مانگی گئی ہے۔اللہ نے کسی کو بے پناہ مالی وسائل عنایت کئے ہوں تویہ اس کی دین ہے۔ان وسائل کو زندگی خوشگوار بنانے کے لئے کئی طور سے استعمال کیا جا سکتا ہے۔شادیوں پر بے جا اخراجات بہرحال مالی وسائل کا کوئی اچھا مصرف نہیں۔ کورونا کی وباء نے ہمیں ایک موقع فراہم کیا کہ ہم کچھ اور نہیں تو شادیوں کی اوپر تلے تقریبات پر اٹھنے والے اخراجات کوہی بچاسکیں۔ میں اس موضوع پر بہت عرصے سے لکھنا چاہ رہا تھا۔ تاہم وبا کے دوران بھی مجھ ایسے کم آمیز کو بھی کئی تقریبات میں از راہِ کرم مدعو کیا جاتا رہا۔ چنانچہ کسی پیارے کی دل شکنی ہر گز مطلوب نہیںتھی۔اب جبکہ تقریبات پر مکمل پابندی عائد ہو چکی ہے تو کیا ہی اچھا ہو کہ بالائی طبقے والے کہ جن کی بے پناہ دولت میں کسی کو کوئی کلام نہیں، شادی کی تقریبات کو محدود کر نے کا سلسلہ نا صرف وبا کے موسم میں بلکہ اس کے بعد بھی جاری رکھیں۔اہلِ ثروت کی طرف سے بچیوں کی سادگی سے رخصتی کو بھر پور تشہیر کی جائے تواس سے ہم جیسے بھی حوصلہ پکڑیں گے۔اسی میں بہت سوں کا پردہ رہ جائے گا۔