کیا سروکار ہمیں رونق بازار کے ساتھ ہم الگ بیٹھے ہیں دست ہنر آثار کے ساتھ کوئی نقطے سے لگاتا چلا جاتا ہے فقط دائرے کھینچتا جاتا ہوں میں پرکار کے ساتھ وہ بھی ایسا ہی یکتائے روزگار ہے جس کا دل لاکھوں لوگوں کے لئے دھڑکتا ہے اور لاکھوں دل اس کے لئے دھڑکتے ہیں تو دعا کرتے ہیں۔ وہ چند لوگوں میں سے ہے اس کے بندوں کا بندہ جو اپنے بندے سے ستر مائوں سے بڑھ کر پیار کرتا ہے اس کی آنکھیں دل اور دل اشکوں سے بھرا رہتا ہے۔ یہ نمی نمو ہی تو ہوتی ہے جو کسی کو ہرا بھرا رکھتی ہے۔ جن کی آنکھوں میں ہوں آنسو انہیں زندہ سمجھو۔ پانی مرتا ہے تو دریا بھی اتر جاتے ہیں محبت کا یہ دریا بہہ رہا ہے۔انہوں نے مواخات مدینہ کی روشنی میں اخوت تنظیم کو دنیا کی سب سے بڑی خیراتی تنظیم بنا دیا کہ جو کم آمدنی والے لوگوں کو بلا سود قرضے دیتی ہے اور انہیں اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کی سعی کرتی ہے، تو میں بات کر رہا ہوں اپنے شفیق دوست محترم ڈاکٹر امجد ثاقب کی۔ یہ وہی لوگ ہیں جن کے بارے میں کہا تھا: مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں تب خاک پردے سے انسان نکلتا ہے۔ انسانوں کے دکھ کو اپنا دکھ بنانے والے اب نایاب ہیں اور وہی حریم زندگی کا باب ہیں کہ جہاں شرف انسانیت کو دیکھا جا سکتا ہے یہ سب محبت میں ہوتا ہے کہ جب کوئی اپنے مقصد اس میں رنگ دے: تجھ کو معلوم نہیں کیا ہے محبت کا کمال جس کو چھوتی ہے اسے خواب بنا دیتی ہے اچھا لگتا ہے مجھے گل تو بجا لگتا ہے وہ بھی میری ہی طرح محو دعا لگتا ہے اب کورونا وبا کی سنگینی کا احساس بڑھتا جا رہا ہے۔ سپریم کورٹ نے بھی از خود نوٹس لے کر ہفتہ اتوار کی چھٹی بحال کر دی ہے۔ یعنی ہفتہ اتوار کاروبار بند ہو گا۔ کچھ لوگ بھی سوچنا شروع ہو گئے ہیں اب اکثر لوگوں کے چہروں پر ماسک نظر آنے لگے ہیں اور کچھ احتیاطی تدابیر بھی ہونے لگی ہیں۔ کچھ تدابیر ضرورت سے زیادہ بھی ہو رہی ہیں۔ابھی صبح مجھے ڈاکٹر خضر یاسین بتا رہے تھے کہ کراچی سے ان کے عزیز وہاں کے واقعات بتاتے ہوئے کہنے لگے کہ سنا مکی کے زیادہ استعمال سے بھی مسائل پیدا ہوئے ہیں میں نے انہیں کہا کہ انہی لوگوں کے بارے میں بلھے شاہ نے کہا تھا علموں بس کریں اویار آپ مکمل علم کے بغیر کسی جڑی بوٹی کو بھی مت استعمال کریں۔ یگانہ نے بھی کہا تھا علم کیا علم کی حقیقت کیا۔ جیسی جس کے گمان میں آئی اس میں شک نہیں کہ سنا مکی کے پتے اس کیلئے مفید بتائے گئے ہیں۔ مگر اس کا طریقہ بھی ہے یہ اچھی خاصی گرم ہوتی ہے یہ مکہ میں پیدا ہوتی ہے اسے بکریاں زیادہ کھالیں تو مینگنیوں کی بجائے وہ دست کرنے لگتی ہیں یہاں بھی کچھ لوگوں نے اس کا بے دریغ استعمال کیا اور انہیں اسہال کی شکایت ہو گئی۔ لوگ اس کے پیچھے بھاگے ہیں تو یہ 2400 فی کلو ہو گئی آپ کو یاد ہو گا کہ ڈینگی بخار کے دنوں میں پپیتا کے پتے ڈینگی کیلئے اکسیر بتائے گئے تو ایک ایک پتہ پانچ صد روپے کا بکا تھا ہمارے ہاں بھیڑ چال تو ہے پھر زندگی سب کو عزیز ہے۔ کورونا کے شروع میں کسی نے پیاز علاج بتایا تو لوگ چیخ اٹھے کہ کہیں ایسا نہ ہو پیاز 500روپے کلو ہو جائے۔ کوئی کیا کرے کہ ہمارا تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ حکومت بھی کیا کرے حکومت کی کمزوریاں اور نااہلیاں اپنی جگہ مگر عوام بھی اسی سانچے میں ڈھلے ہوئے ہیں۔حکومت نے آٹا سستا کیا تو وہ پہلے سے بھی مہنگا ملنے لگا۔پیٹرول ارزاں ہوا تو پیٹرول نایاب ہو گیا۔ کون کس کو پکڑے۔مافیاز حکومت کے اندر بھی بیٹھے ہیں اور اس کی نگرانی پر بھی حکومت بے بس کہ دست و بازو ان کے بھی گروی رکھے ہوئے ہیں۔ سب کی غلطیوں کا خمیازہ بے چارے غریب بھگتتے ہیں اور خاص طور پر تنخواہ دار۔ تو گزارش یہ ہے کہ اپنے حواس برقرار رکھیں اور اپنی حفاظت کریں حکومت کے نالائق لوگوں پر نہ جائیں جو وبا کو ہوا دیتے ہیں۔ ان کی غرض و غائت صرف اپنے تک ہیں۔ اگر انہوں نے آٹا مافیا کا احتساب کیا ہوتا تو کم از کم لوگوں کے کلیجے میں ٹھنڈ پڑ جاتی مگر وہ اسی طرح وزارتوں کے مزے لے رہے ہیں۔ کیا یہ خلق خدا کی آواز نہیں کہ سلمیٰ اعوان جیسی مہا تخلیق کار کہے کہ اگر یہ صورت حال شہباز شریف کے حوالے کر دی جاتی تو بہت کچھ سدھر جاتا۔ یہی بات شعیب بن عزیز نے کہی اور یہ بات دل کو لگتی ہے وجہ یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے پیرا شوٹر باتیں ہی باتیں کئے جاتے ہیں عمل کچھ بھی دکھائی نہیں دیتا۔سوچ سوچ کر دکھ تو ہوتا ہے کہ جب کوئی یہ کہے کہ اپوزیشن والے کورونا کے خلاف حکومت کی کامیابیوں سے پریشان ہیں۔ ابھی سلمیٰ اعوان نے مجھے سہیل وڑائچ کے حوالے سے بتایا کہ وہ بھی کورونا سے متاثر ہیں تو میں اداس سا ہو گیا ہوں۔ سہیل میرا کلاس فیلو ہے اور اس نے صحافت کی دنیا میں ایک مقام بنایا ہے۔ دل سے دعا نکلی کہ اللہ اسے اپنے حفظ و امان میں رکھے کل اقتدار جاوید کی وساطت سے اپنے دوست محمد عباس مرزا کے بارے میں بھی یہی کچھ معلوم ہوا ۔ انشاء اللہ وہ جلد صحت یاب ہو جائیں گے کئی فیملیز پوری کی پوری اس وبا کا شکار رہیں اور پوری کی پوری صحت یاب بھی ہو گئیں۔ آخر میں اقتدار جاوید کے دو شعر: اک شکل بنی آئینے کی اک عکس جھکا آئینے پر جب کھینچا عطر گلابوں کا جب رنگ چڑھا پشمینے پر ہے خاص نہایت مکے کی ہے واضح ہدایت مکے کی کوئی جھلمل جھلمل کرتا ہے رازوں کا راز مدینے پر