کورونا کی وبا کے باعث دنیا سکڑ کر حقیقی معنوں میں گلوبل ویلیج بن چکی ہے ۔کرۂ ارض پر بسنے والے انسانوں کی اکثریت کو جس قسم کے مشترکہ خوف تشویش کشمکش اور چیلنجز کا سامنا ہے اس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔ اس صورتحال نے عالمی سطح پر ایک نئے احساس کو جنم دیا ہے جس نے ذہنوں کو جکڑ رکھا ہے اور دنیا جس قسم کے جذباتی ہیجان میں مبتلا ہے اس کا اثر توقع سے زیادہ طویل المدتی ہو سکتا ہے۔ دوسری طرف جذباتی عدم توازن سے ایک خاص قسم کی نرگسیت پسندی جنم لے رہی ہے جس کی وجہ سے نفرت کو مزید پنپنے کا موقع مل رہا ہے۔ انسانی تاریخ میں نوع انسانی کو کورونا کی صورت میں کسی وبا کا پہلی بار سامنا نہیں کرنا پڑ رہا۔ ماضی میں مختلف وبائیں کروڑوں انسانوں کو نگل چکی ہیں البتہ اس بار اقوام میں ذرائع ابلاغ کی ترقی اور مواصلاتی فاصلوں کے سکڑ جانے سے وبا کی شدت لمحہ ضائع کئے بغیر پوری دنیا میں بیک وقت محسوس کی گئی ہے ۔جدید ذرائع ابلاغ دنیا بھر سے خبروں کو ہماری ٹی وی سکرینوں کے ساتھ موبائل فون پر پہنچا رہے ہیں۔ اطلاعات کی لمحوں میں رسائی کے باوجود بھی دنیا کو کورونا وائرس کے خلاف جنگ میں وہ عالمی یکجہتی کا مظاہرہ کرنے میں ناکام ہے جو ہونا چاہیے۔ اس کے برعکس ٹیکنالوجی کسی حد تک نفرت کے پرچار کا ذریعہ بھی بن رہی ہے۔ دنیا بھر کے پالیسی ساز اس بات پر متفق ہیں کہ کورونا وائرس کے باعث دنیا دو بڑے چیلنجز کی زد میں ہے۔ جس میں پہلا عالمی معیشت کی کساد بازاری ہے تو دوسرا معاشی دبائو کا قدرتی نتیجہ نفرت انگیز بیانیہ اور نفرت گوئی ہے۔دنیا بھر میں سنگین نوعیت کے معاشی چیلنجز کے باعث پیداوار میں کمی کی وجہ سے لاکھوں کروڑوں افراد بے روزگار ہو چکے ہیں جیسا کہ اقوام متحدہ کے ادارے اکنامکس اور سوشل افیئر نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ 2020ء میں عالمی معیشت 1فیصد سکڑ سکتی ہے۔ خاص طور پر یو این کانفرنس آن ٹریڈ اینڈ ڈویلپمنٹ نے پاکستان کی معیشت کی خاکہ کشی کی ہے۔ یو این سی ٹی اے ڈی کے مطابق پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جن کو ادائیگی کے شدید عدم توازن کا سامنا ہو گا جس کا اثر افراط زر کے باعث ہیلتھ سیکٹر پر نمودار ہو سکتا ہے۔ عالمی کساد بازاری کا تو پھر بھی جلد یا بدیر ازالہ ہو ہی جائے گا مگر کورونا کے باعث پھیلنے والی نفرت کئی سال تک اپنا اثردکھائے گی خاص طور پر ان معاشروں میں جو پہلے ہی قومیت پسندی ‘ شدت پسندی اور نسلی تفاخر کا شکار ہیں یہ چیلنج خاص طور پر کمزور معاشروں میں پیچیدہ صورت حال اختیار کر جائے گا۔ کورونا کی وبا ان معاشروں میں نفرت اور تنازعات کو ہوا دینے کا باعث بنے گی۔ کورونا وبا کے بعد پیدا ہونیوالا عالمی احساس ایک طرف تو مایوسی اور نفرت کا باعث بن رہا ہے تو دوسری طرف عالمی اجتماعی شہرت کے احساس کو بھی فروغ دے رہا ہے۔ اس طرح یہ تعصب عالمگیریت کے خلاف نفرت میں اضافے کا باعث بن رہا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اکثر اقوام عالمگیریت کے تصور کو درست انداز میں سمجھ نہیں پا رہیں اور اکثر عالمگیریت کو مسترد کر چکی ہیں اقوام متحدہ کے ایک ماہرنے عالمی برادری کو متنبہ کیا ہے کہ ریاستوں کو ایک دوسرے پر الزام تراشی اور نفرت انگیزی سے اجتناب برتنا ہو گا بالخصوص نسلی اور مذہبی گروہوں کو اس وبا کے پھیلائو کا ذمہ دار ٹھہرنے اور نفرت پھیلانے سے ۔اقوام متحدہ کے مشاہدے میں یہ بات بھی آئی ہے کہ کوویڈ 19کے باعث مختلف ممالک میں مذہبی عدم برداشت میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ عالمی سیاست میں دانشور حلقوں میں سنجیدہ مباحثوں کا آغاز بھی ہو چکا ہے۔نسلی تفاخر اور تعصب کے علاوہ صحت کے حوالے سے بھی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ البتہ عالمی رہنمائوں کی جانب سے اجتماعی مفاد میں بہت ہی کم جدوجہد دکھائی دے رہی ہے۔ وہ دانستہ طور پر اس سوال کو کہ آیا عوام کی صحت کو قومی مفاد میں پہلی ترجیح ہونا چاہیے یا ذاتی ترجیح؟ کو نظر انداز کر رہے ہیں۔ بدقسمتی سے کورونا وائرس کو چینی وائرس کہہ کر امریکہ اور ایشیا کے درمیان نفرت کو ابھارا جا رہا ہے اور یہ نفرت صرف امریکہ ہی نہیں یورپ آسٹریلیا یہاں تک کہ بھارت میں بھی پائی جاتی ہے سوشل میڈیا پر تعصب آمیز اصلاحات جیسا کہ کونگ فلو (Kung Flue)گردش کررہی ہے اس طرح کے تعصبات کا اظہار بھارتی مسلمانوں کے بارے میں بھی کیا جا رہا ہے۔ جہاں اس قسم کا نفرت آمیز پراپیگنڈا صرف سوشل میڈیا ہی نہیںبلکہ مین سٹریم میڈیا پر بھی جاری ہے۔ ٹی وی چینلز پر کورونا جہاد کی سرخیاں لگائی جا رہی ہیں یہاں تک مشرق وسطیٰ کے حالات بھی کچھ زیادہ مختلف نہیں کورونا کو یہودیوں سے نفرت کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے اسی طرح اسرائیلی فلسطینیوں پر الزامات لگا رہے ہیں البتہ بھارت میں مذہبی انتہا پسندی کا بدترین مظاہرہ سامنے آیا ہے جہاں ریاست ہندو توا اور گروہی تعصب کو فروغ دے رہی ہے انتہا پسند حکومتی عناصر میڈیا اور سوشل میڈیا میںمتعصبانہ رویہ کو فروغ دے رہے ہیں۔مذہبی تعصبات کے کچھ واقعات پاکستان میں بھی رپورٹ ہو رہے ہیں جہاں کورونا وبا کے دوران خیراتی اداروں کی طرف سے غیر مسلم ہندو اور عیسائیوں کو امدادی سامان کی فراہمی سے انکار کیا جا رہا ہے۔ کورونا کے عفریت نے انسانی رویہ میں تعصب کو عیاں کر دیا ہے نفرت ایک طرح سے خوف کا اظہار ہوتی ہے جو بعض اوقات المیوں کو جنم دیتی ہے۔ قابل توجہ امر تو یہ ہے کہ عالمی اجتماعی ضمیر کورونا کی وبا کو جلد بھول جائے گا لیکن اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے تعصب اور نفرت سے پیدا ہونے والے تنازعات اور بحران انسانی ضمیر کو اپنی لپیٹ میں لے رکھیں گے۔ اس بحران کو انسان کا پیدا کردہ بحران کہنا غلط نہ ہو گا۔