ابھی تو دنیا پوری طرح آبائی مسائل سے نبرد آزما نہیں ہوئی تھی کہ اچن چیتے وبائی سلسلے کا آغاز ہو گیا ہے۔ ساتھ یہ بھی وعید سنا دی گئی کہ اب اس سے بھاگنا نہیں بلکہ جبری شادی کی طرح نہ چاہتے ہوئے بھی ایک دوسرے کے کندھے سے کندھا ملا کر چلنا بھی ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر ساتھ ساتھ چلنا ٹھہرہی گیا ہے تو یہ بھی ضروری ہے کہ اس کے لیے نہ صرف کسی قاعدے قانون کا اجرا ہو بلکہ ماضی، حال اور مستقبل میں در آنے والی وباؤں کی روشنی میںکچھ اصول و ضوابط بھی مرتب کر لیے جائیں۔ قانون بنانا تو ظاہر ہے حکومتوں کا کام ہے، البتہ قاعدے کی ترتیب و تدوین کے سلسلے میں کچھ پیش رفت ہو سکتی ہے۔ ویسے بھی ہمارے بچے روایتی قسم کے قاعدے پڑھ پڑھ کے تنگ آئے ہوئے ہیں۔ تعلیمی ادارے بند ہونے کی وجہ سے بچے شکرمند اور بڑے فکر مند ہیں۔ ہر طرف کورونا کورونا کا کھیل کھیلا جاتا رہا ہے۔ سوشل میڈیا پہ وبائی امراض سے متعلق اور غیر متعلق بے ہنگم معلومات کا طوفان آیا ہوا تھا۔ ا ب وزیرِ اعظم اور ان کی ٹیم کی ان تھک کوششوں کی وجہ سے اچھی خبریں آ رہی ہیں، چلو کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے، لیکن یاد رہے ابھی کورونا کا کفر ٹوٹا ہے، ایس او پیز کا قُفل نہیں۔ ویسے بھی کہا جا رہا ہے کہ اول تو یہ کورونا کرپشن کی مانند ہمارے ہاںپوری طرح ختم نہیں ہوگا اور اگر یہ معجزہ کسی طرح سر زد ہو بھی گیا تو زندگی کو ایک نئی ڈگر پہ گامزن ہونا پڑے گا۔ ترجحات و ترغیبات کا نئے سرے سے تعین کرنا ہوگا۔ آئیے اس نئی نکور زندگی کا آغاز ہم معلوماتی و تفریحاتی قاعدے سے کرتے ہیں۔ الف: بات وبا کی چلی ہے تو الف سے امریکا، اینکر، ا یڈز اور اپوزیشن کچھ بھی ہو سکتے ہیں لیکن ہمارے ایک بزرگ کا فرمان ہے کہ ہم اپنی نسلوں کو اگر آج تک الف سے انار یا آم کہ جن سے دھیان علم کی طلب سے زیادہ معدے کی بھوک کی طرف جاتا ہے، کی بجائے، الف سے امن یا انسانیت پڑھایا کرتے تو ہماری اس بے روح، بے مقصد تعلیم و تربیت کے نتائج بہت مختلف ہو سکتے تھے۔ اس میں ہمارے نصاب سازوں کو شاید یہ مشکل درپیش تھی کہ وہ قاعدے پر انسانیت اور امن کی تصویر کیسے دکھاتے؟ اپنے حکیم جی کا کہنا ہے کہ امن اور انسانیت کی تصویر قاعدے میں نہیں معاشرے میں دکھائی جاتی ہے۔ ویسے آپس کی بات ہے کہ گزری ہوئی قوموں کی نسبت آج کا انسان ہے بڑا خوش قسمت کہ اس پہ اچانک تباہی نازل ہونے کی بجائے مختلف انداز کی تنبیہات کروائی جا رہی ہیں کہ شاید اس کے سُدھرنے کی کوئی صورت نکل آئے لیکن سچ بات ہے کہ ہمیں تو اس آدم زاد کی بابت میرزا غالب کا نہایت گہرا اور سنہرا مشاہدہ ہی درست معلوم ہو رہا ہے : بسکہ دشوار ہے ہر کام کا آسان ہونا آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا الف ، اپوزیشن سے یاد آیا کہ اس وبائی دورانیے میں سب سے شرم ناک کردار ہماری اپوزیشن کا رہا۔ اپنی سابقہ لوٹ مار معاف کرانے کے لیے انھوں نے اس وبا کو ڈراما قرار دینے، رونے دھونے، گیدڑ بھبکیاں لگانے اور اے پی سی کے نام پہ گدھے کو باپ بنانے جیسے ہر حربے کا استعمال کیا۔ ب: سچ پوچھیں تو ب سے شروع ہونے والی جتنی بھی وبائیں ہمارے ذہن پہ دستک دیتی ہیں، ان میں سب سے مہلک بیماری بھارت ہے، جو گزشتہ تہتر سال سے ہمارے پورے قومی وجود کو سرطان کی طرح لاحق ہے اور ایک مستقل روگ کی شکل اختیار کیے ہوئے ہے۔ ایک زمانے میں مولانا ظفر علی خاں نے ہندوستان کی پوری تاریخ کو ذہن میں رکھتے ہوئے فرمایا تھا: بھارت میں بلائیں دو ہی توہیں، اک ساوکر ہے، اک گاندھی ہے اِک جھوٹ کا چلتا جھکڑ ہے، اک مکر کی اٹھتی آندھی ہے ٰؒلیکن حالات و واقعات نے ثابت کیا کہ ہمارے مولانا کچھ زیادہ ہی بھولے تھے، کیونکہ اس بھارت کا ہر نِیتا پہلے سے زیادہ موذی،مکار، شاطر اور بدبودار ہے۔ پھر اگر غور کیا جائے تو اسی ب سے بد نیتی، بے عملی، بے غیرتی اور بد چلنی بھی بڑی خوف ناک بیماریاں ہیں، جن کے اشتراک سے معاشرے میں بے روزگاری جیسی ایک نئی وبا پھوٹ پڑتی ہے۔ پ: جہاں تک بیماریوں کا تعلق ہے، پ سے پولیو پہ گہری نظر رکھنا ضروری ہے، جس نے ماضی میں گھروں کے گھر اجاڑ دیے یا مفلوج کر دیے۔ہماری بد بختی ملاحظہ ہو کہ بعض قومیں ہماری آنے والی نسلوں پہ ترس کھا کے ہمیں اس کی مفت ویکسین فراہم کرتی ہیں اور ہم اس کو بھی سو سو طرح کی الزام تراشیوں اور شکوک و شبہات کی نذر کر دیتے ہیں۔ سب سے بڑا عذر یہ ہے کہ اس سے بچوں کی پیدائش پہ اثر پڑتا ہے، قابلِ غور امر یہ ہے کہ اگر یہ بات سچ بھی ہے تو جس طرح کی مخدوش نسلیں ہم پیدا کر رہے ہیں، یہ ہمارے لیے پھر بھی نعمت ہی قرار پاتی ہے۔ ت: اس وقت ہمارے معاشرے میں ت سے شروع ہونے والی سب سے بڑی بیماری تعصب ہے۔ یہ تعصب نسلی، مذہبی، سیاسی، علاقائی، لسانی، صوبائی، جیسا بھی ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ اس نے ہماری پاک دھرتی کی جڑیں کھوکھلی کرنے میں سب سے زیادہ اور گھناؤنا کردار ادا کیا ہے۔ اس قومی مرض کا صرف ہمارے اندرونی حاسدوں ہی نے نہیں بلکہ بیرونی دشمنوں نے بھی ہمیشہ بھرپور فائدہ اٹھایا ہے۔ افسوس کی بات یہ کہ ہمارا دین اسی چیز کے خاتمے پہ سب سے زیادہ زور دیتا رہا، چند مفاد پرستوں کی وجہ سے اسی کی جڑیں ہمارے معاشرے میں روز بروز گہری سے گہری ہوتی جا رہی ہیں۔ ٹ: سے ٹَڈی دَل۔ ایک انوکھی وبا جو انھی دنوں ہم پہ اچانک آن مسلط ہوئی ہے، کہا جا سکتا ہے کہ ان دنوں ہمارے دیس میں دو وبائیں بیک وقت بر سرِ عمل ہیں، ایک ہماری نسلوں کے درپے ہے اور دوسری ہماری فصلوں کی دشمن۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ان میں ایک دکھائی دیتی ہے اور دوسری چھپ کے وار کرتی ہے، اس لیے یہ دوسری والی زیادہ خطرناک ہے، یاد رہے یہی معاملہ اندرونی اور بیرونی دشمنوں کا بھی ہے۔ ث: سے اس وقت ثبوت سے بہتر کوئی لفظ نہیں ہے۔ یہ سب سے بڑی اور سب سے بُری وبا ہے جو ہمارے پورے ملکی نظام کو لاحق ہے۔ ثبوت ویسے تو ایک مثبت چیز ہے لیکن ہمارے معاشرے میں اس کا نقصان کسی بڑی سے بڑی وبا سے کم نہیں۔ یہاں جس کسی کو بھی بڑے سے بڑے جرم میں پکڑا جاتا ہے، وہ تسلی بخش ثبوت نہ ہونے کی بنا پر چند دنوں بعد دندناتا، نیز ہمارے قانون اور محدود سوچ پہ مسکراتا ہوا باہر آ جاتا ہے کہ تم ایسی چیز کی تلاش میں ہو جس کا نام نشان مٹانے میں ہم نے پی ایچ۔ڈی کی ہوئی ہے ۔یہ وہ نایاب چیز ہے جو ہمارے کرم فرما اور انصاف فراہم کرنے والے ادارے، اپنی آنکھوں کے سامنے کھرب پتی بننے والوں سے اتنے وثوق سے طلب کرتے رہتے ہیں، جیسے جرم کرنے والے نے کسی ولیمے والی تقریب کی طرح اس کی باقاعدہ ویڈیو بنوائی ہوگی۔ یہ جاننے کے باوجود کہ جو اس ملک کا حکمران ہو، سیاہ و سفید کا مالک رہا ہو، ہر دفتر کا ریکارڈ انسانوں سمیت جلانے میں ماہر ہو، احدوں، فہدوں، گُلو بٹوں، عزیر بلوچوں کا پروردہ ہو، وہ آپ کے لیے ثبوت چھوڑے گا؟ ہمارا تو خیال ہے کہ قدرت نے کرونا کی وبا یہی سمجھانے کے لیے نازل کی ہے کہ بعض مضر چیزیں ہمارے ارد گرد موجود ہوتی ہیں لیکن دکھائی نہیں دیتیں!!