ہم وبا لکھتے رہے ، وہ وفا پڑھتے رہے ایک ہی غلطی نے ہمیں محرم سے مُجرم کر دیا کہتے ہیں وبا اور وفا پلٹ کے آ جائے تو اس میں زیادہ شدت اور حدت ہوتی ہے۔ ان دونوں میں ایک قدر مشترک یہ بھی کہ دونوں نظر نہیں آتیں، صرف اثرات چھوڑتی ہیں۔ سب سے اہم بات یہ کہ دونوں بعض حالات میں جان لیوا ثابت ہوتی ہیں۔ ان میں فرق صرف یہ ہے کہ وفا ایک انفرادی عمل بھی ہو سکتا ہے جب کہ وبا اجتماعی طور پر اثر انداز ہوتی ہے۔ سچ بات تو یہ ہے کہ یہ انسان کے انفرادی و اجتماعی اعمال کی سزا ہوتی ہے جو اسے گاہے گاہے ملتی رہتی ہے اور جس کے سامنے انسان کی ساری ترقی، جملہ عروج اور تمام تدابیر دھری کی دھری رہ جاتی ہیں، میر نے ایسے ہی نہیں کہا تھا: اُلٹی ہوگئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا آخر اس بیماریِ دل نے اپنا کام تمام کیا ان دنوں ماہرین طب کے اعداد و شمار بتا رہے ہیں کہ کرونا بھی لوٹ آیا ہے اور اب کے اس کے تیور شدید بھی ہیں اور خطرناک بھی۔خدا خدا اور دعا دعا کر کے کھلنے والے ادارے دوبارہ بند ہو رہے ہیں۔ بازاروں ، محفلوں کی رونقیں ماند پڑتی دکھائی دے رہی ہیں۔ شادی شادی کھیلنے کی تمنا رکھنے والے دولھے مرجھائے مرجھائے پھر رہے ہیں۔ سب پاکستانیوں کے چہروں پر پریشانی کے آثار ہیں لیکن مجال ہے کہ کہیں ان چہروں پہ ماسک نظر آ جائے۔ممکن ہی نہیں کہ یہ باہمی فاصلے کا احترام کر لیں، شادی کے شرکا میں کمی اور انداز میں سادگی کا سوچ لیں۔ حد یہ کہ ہم نے کرونا جیسی موذی بیماری کو جگتوںاور جہالت سے بھگانے کا فیصلہ کیا ہوا ہے۔ ایسے میں ہم نے بھی اپنے الف سے ث تک لکھے ادھورے وبائی قاعدے کو مکمل کرنے کی ٹھانی ہے کہ شاید اسی طرح کسی کے دل میں وبا سے احتیاط کا خیال پیدا ہو جائے۔ ج: سے جرثومہ، جی ہاں دوستو کرونا ایک نظر نہ آنے والا جرثومہ ہی تو ہے، جس نے ہمارا غیب پہ ایمان اور بھی مضبوط کر دیا ہے۔ کہتے ہیں یورپ کی کسی یونیورسٹی میں ایک پروفیسر کسی مسلم طالب علم سے حقارت آمیز انداز میں پوچھ رہا تھا، یہ جو تم ہر وقت خدا خدا کرتے رہتے ہو، یہ کبھی نظر بھی آیا ہے؟ اور اگر نظر نہیں آتا تو ہم اس پہ یقین کیسے کر لیں؟ سنا ہے طالب علم کو کوئی فوری جواب نہ سُوجھا تو اس نے میز پر سے پیپر ویٹ اٹھا کے اس کے سر میں دے مارا، پروفیسر تلملا کے رہ گیا۔ سر پکڑ کے کہنے لگا: ظالم تم نے یہ کیا کیا؟ میرا سر درد سے پھٹا جا رہا ہے۔ طالب علم نے اسی انداز میں جواب دیا: درد نظر تو نہیں آ رہا ہم کیسے یقین کر لیں؟ کسی زمانے میں مسلم لیگ ’’ج‘‘ بھی ہوا کرتی تھی، جس کے اوپر ہمیشہ کی مطلب، مفاد اور اقتدار پرست ’’ن‘‘ نے خود کُش حملہ کیا اور اس کو قصۂ ماضی بنا دیا۔ یہ سندھ کے ایک شریف سیاست دان محمد خاں جونیجو کی پارٹی تھی۔ جونیجو کا سب سے بڑا قصور یہ تھا کہ وہ شریف آدمی تھا اور اس ملک میں جمہوریت کے پودے کو پھلتے پھولتے دیکھنے کا متمنی تھا لیکن آج پھر اقتدار پرستی، کرپشن سے کمائی دولت کی خرمستی، اور اغیار نمستی کی آڑ میں بڑھ چڑھ کے جمہوریت کے نعرے لگانے والوں نے اُس پودے کو جڑ سے اکھاڑ نے میں سب سے اہم کردار ادا کیا۔ پھر پڑوسی ملک بھارت سے اور معاملات کے ساتھ ساتھ ہماری زبان اور اُردو ہندی تلفظ کی بھی’ ج‘ ہی سے جنگ بھی ہے ۔ بی بی سی کے معروف براڈ کاسٹر رضا علی عابدی اپنی کتاب ’’اُردو کا حال‘‘ میں لکھتے ہیںکہ ایک بار دہلی ریڈیو سٹیشن پہ وہاں کے براڈ کاسٹرز کے ساتھ گپ شپ کے ماحول میں بیٹھے تھے کہ مَیں نے ان سے باتوں باتوں میں پوچھا کہ یہ جو آپ اُردو میں گھسیڑ گھسیڑ کے ہندی کے نامانوس اور ادق الفاظ لاتے ہیں، مجھے اس منطق کی آج تک سمجھ نہیں آئی۔ اس پر ایک مقامی براڈ کاسٹر نے ہنس کر کہا: ’اگر ہم ایسا نہ کریں تو وہ اُردو بن جاتی ہے۔‘ چنانچہ انھوں نے اسی اُردو دشمنی میں ہماری اچھی خاصی جیم کو ’ز‘ اور ’ی‘ کے ساتھ گڈ مڈ کر دیا ہے۔ہم ان کے ج سے جاسوس کو کلبھوشن یادیو کہتے ہیں، وہ جادیو کہتے ہیں۔ ہم زندگی کی بات کرتے ہیں، وہ اسے جندگی بنا دیتے ہیں۔ ہمارے شہر میں ایسا ہی ایک کردار تھا جو ’’ج‘‘ کو ’’ز‘‘ بولتا تھا۔ یعنی جمع کو زمع، جنگل کو زنگل، جہلم کو زہلم اور جگہ کو زگہ۔ ستم یہ کہ اسے گانا گانے کا بھی بہت شوق تھا۔ ایک محفل میں اس سے گانا سنانے کی فرمائش کی گئی تو بد قسمتی سے اس نے گیت بھی ’’جیم زدہ‘‘ ہی شروع کر لیا، یعنی: ’’زے تینوں پیار دے زنازے چنگے لگ دے‘‘ تھوڑی دیر بعد ہال سے آواز آئی: ’’اینوں زُتیاں مارو‘‘ آج کل اسی ’ج‘ سے جلسوں کی بھرمار ہے، جس میں شریک سیاست دان اور ان کی اولادیں ’جمہوریت کے احیا‘ اور حکومت کے خاتمے کے لیے مرے جا رہے ہیں۔ ایک صاحب نے فیس بُک پہ اقتدار کے ان بھوکوں کی تصویر لگا کے نیچے لکھا کہ: ’’اگر ان لوگوں نے ملک کے حالات ٹھیک کرنے ہیں تو خراب کس نے کیے تھے؟؟ اصل میں تو سب جانتے ہیں کہ یہ وہی ٹولہ ہے جس نے ملک کی معیشت کو ان حالوں تک پہنچایا ہے۔ ان کا اصل مقصد اپنے مالی، اخلاقی، سیاسی اور بین الاقوامی جرائم سے توجہ ہٹانا ہے۔ چ: سے کسی زمانے میں چیچک ہوا کرتی تھی، جس نے دنیا بھر میں گھروں کے گھر خالی کر دیے۔ اس کی ویکسین بھی اتنی تکلیف دہ تھی کہ ہم سکولوں اور گھروں میں ٹیکے لگانے والوں سے چھپتے پھرتے تھے۔ پچاس سال سے زائد عمر کے لوگوں کے بازوؤں پہ آج بھی اس تشدد آمیز ویکسین کے نشانات ڈھونڈے جا سکتے ہیں۔ ہمارے ہاںاسی چ سے چوہا، چمگادڑ اور چینی مافیا کی چخ چخ بھی ہے۔بچپن میں اسی چ سے چپچپاتے ایک جملے ’ چچی نے چچا کو چاندی کے چمچے سے چٹنی چٹائی‘ سے ہماری زبان کی روانی اور جولانی چیک کی جاتی تھی۔ پھر اسی چ سے برادر ملک چین بھی ہے، جو بھارت کے لیے شاید کرونا سے بھی بڑے اور لا علاج مرض کی صورت اختیار کیے ہوئے ہے۔ ایم اے میں ہمارے اُردو کے ایک استاد فرمایا کرتے تھے کہ اس ’’چ‘‘ سے کوئی ڈھنگ کا لفظ شروع نہیں ہوتا۔ نہ جانے کیوں ان کا دھیان کبھی چاند، چاندنی ، چناب،چمک، چہار چمن، چنبیلی اورچہل قدمی کی طرف نہیں گیا۔ ہمارا بنجارا شاعر ابنِ انشا تو اس حرف کا دیوانہ تھا، اس کا اسی چ سے سے لبالب ایک شعر ملاحظہ ہو: چاند کسی کا ہو نہیں سکتا چاند کسی کا ہوتا ہے چاند کے لیے ضد نہیں کرتے اے میرے اچھے انشا چاند