لاہور(انور حسین سمرائ) صوبے میں وبائی امراض کی روک تھا م اور بچاؤ کیلئے پنجاب امتناع وبائی امراض آرڈیننس2020 میں چند بنیادی نقائص پائے جانے کا انکشاف ہوا ہے جس سے وبائی امراض پر کنٹرول کرنے کے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوسکیں گے ۔آرڈیننس میں صحت کی سہولیات فراہم کرنے والے نجی ہسپتالوں اور لیبارٹریزکے کردار کو متعین نہیں کیا گیا جبکہ صوبے کے 70فی صد عوام کو طبی سہولیات ان نجی اداروں کے ذریعے میسر ہیں۔ماہرین کے مطابق آرڈیننس میں کلی و جزوی لاک ڈاؤن کا کوئی مربوط طریقہ کار بھی وضع نہیں کیا گیا اور کابینہ کے بجائے صوبائی سیکرٹری کو اختیارات دیئے گئے ہیں جو رولز آف بزنس کی خلاف ورزی ہے ۔تفصیلات کے مطابق پنجاب حکومت نے صوبے میں وبائی امراض کی روک تھام اور بچاؤ کیلئے صوبائی کابینہ کی منظوری سے پنجاب امتناع وبائی امراض آرڈیننس2020کو 90روز کیلئے جاری کیاگیا تھا۔ پنجاب حکومت کے ایک سینئر اہلکار نے بتایا کہ اگرچہ یہ ایک اچھی کوشش ہے لیکن آرڈیننس میں چند بنیادی نقائص پائے جاتے ہیں جن کی وجہ سے اس کی افادیت میں کمی ہوسکتی ہے ۔ آرڈیننس میں کسی بھی علاقے جس میں وبائی امراض پھیلنے پر کلی و جزوی لاک ڈاؤن کا کوئی طریقہ کار وضع نہیں کیا گیا جبکہ خلاف ورزی پرسمری ٹرائل سے 2سے 6 ماہ جیل کی سزا و جرمانے دینے پر زور دیا گیا جبکہ دنیا بھر میں اگر وبائی امراض پھیلتی ہیں تو ہیلتھ ایمرجنسی لگائی جاتی ہے اور جیلوں کو خالی کروایا جاتا ہے کیونکہ اگر ان میں وباء پھیل جائے تو بڑی اموات کا امکان ہوتا ہے ۔آرڈیننس میں نجی صحت کے اداروں کے ساتھ اشتراک کا کوئی سسٹم بنایا گیا اور نہ ہی کرونا ٹیسٹ کی فیس مختص کی گئی ،ہر لیبارٹری اپنی مرضی کی فیس عوام سے چارج کررہی ہے جو 300سے 8000تک ہے ۔آرڈیننس کے مطابق وبائی امراض پھیلنے کی صورت میں صوبائی سیکرٹری وزیر اعلیٰ کی منظوری سے ہیلتھ ایمرجنسی لگانے کا اختیار رکھتا ہوگا جبکہ آئین کے مطابق صوبائی حکومت سے مراد وزیر اعلیٰ اور کابینہ ہے جس کا آرڈیننس میں کوئی ذکر نہیں ۔یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ آرڈیننس ڈرافٹ کرنے میں پبلک ہیلتھ کے ڈاکٹرز جو وبائی امراض کے ماہر ہوتے ہیں،قانون نافذ کرنے والے اداروں اور کمیونی کیشن سسٹم چلانے والے ادارے کو مشاورت میں شامل ہی نہیں کیا گیا۔وبائی امراض کے متاثرہ مشتبہ افراد کے لئے کوئی فارم بھی تیار نہیں کیا گیا کہ ان کی کونسی معلومات حاصل کرنی ہیں اور ان کو کیسے مربوط بنایا جائے گا۔ محکمہ صحت کے ایک سینئر اہلکار نے بتایا کہ آرڈیننس بیوروکریٹس مائنڈ سیٹ کا عکاس ہے جس میں میڈیکل اور پبلک ہیلتھ کے ماہرین کی رائے کو شامل نہیں کیا گیا اور جلد بازی میں صوبے کے بیوروکریٹس نے وزیر اعلیٰ کا اعتماد حاصل کرنے کے لئے ایک نقائص سے بھرپور ڈاکومنٹ جاری کروادیا گیا۔ قانون سازی کا مقصد ہوتا ہے کہ کم ازکم 50سال کی صورت حال کو مد نظر رکھ کر قانون سوچ سمجھ کر بنایا جائے جبکہ اس آرڈیننس میں جلد بازی میں متعلقہ شعبہ جات سے مشاورت بھی نہیں کی گئی۔