اسلام آباد(خبر نگار)چیف جسٹس پاکستان جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے کہا ہے کہ عدالتوں کے فیصلے احتجاج اورلوگوں کے ہنگاموں پر نہیں شواہد پر ہوتے ہیں۔یہ ریما رکس انھوں نے 6 افراد کے مقدمہ قتل میں ملزمان کی اپیلوں کی سماعت کے دوران اس وقت دیئے جب ملزمان کے وکیل نے موقف اپنایا کہ وقوعہ کا عینی شاہد موجود ہے اور نہ ہی ایف آئی آر میں ملزمان کو نامزد کیا گیا تھا لیکن قتل کے اس اندوہناک واقعہ کیخلاف لوگوں کے احتجاج اور ہنگامہ کرنے پر4ملزمان سرفراز ،محمد یوسف،محمد ندیم اور جاوید ریاض کو شامل تفتیش کرکے ان کے ماورائے عدالت اعتراف پر چھ چھ بار سزائے موت سنائی گئی۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ایسا نہیں ہوسکتا کہ شہر میں ہنگامے ہونے پر 4 افرادکو لٹکانے کا فیصلہ دیدیا جائے ،فیصلہ شواہد پر دیا جاتا ہے ۔ فاضل وکیل کا کہنا تھا کہ سارے شہر کو پتہ ہے کہ ان ملزمان کا واقعہ سے کوئی تعلق نہیں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ سارے شہر کو پتہ ہوگا لیکن ہم نے تو وہ دیکھنا ہے جو ریکارڈ پر موجود ہے اور ریکارڈ کے مطابق واقعاتی شواہد سے ثابت ہے کہ ملزمان وقوعہ کے وقت موجود تھے اور ان کے فنگر پرنٹس وقوعہ کی جگہ سے حاصل نمونوں کے ساتھ میچ بھی ہوچکے ہیں۔تفصیلات کے مطابق بھٹی سٹریٹ ،مہاجر آباد لاہور میں 1996ء میں نامعلوم افراد نے شفیقہ بیگم اور انکے 5 نابالغ بچوں،مقبول احمد،تیمور احمد،ہارون،قرۃالعین اور عائشہ کو قتل کردیا تھا ۔پولیس نے 4 افراد سرفراز ،محمد یوسف،محمد ندیم اور جاوید ریاض کو شامل تفتیش کرکے ملزمان کے خون آلود کپڑے بر آمد کرلئے تھے ۔ٹرائل کورٹ نے چاروں ملزمان کو چھ چھ بار سزائے موت اور قید کی سزا سنائی تھی اور ہائی کورٹ نے سزا بحال رکھی تھی۔پیر کو چیف جسٹس کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی تو ملزمان کے وکیل نے کہا کہ قتل میں ملزمان کے کردار کا تعین نہیں ہوا لیکن ملزمان گزشتہ 23سال سے جیل میں اور 17سال سے کال کوٹھڑی میں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اس نکتے پر ہم سزا کم کرنے کا جائزہ لے سکتے ہیں۔استغاثہ نے سزا کا دفاع کیا اور کہا کہ میڈیکل رپورٹ کے مطابق ملزم سرفراز اور یوسف اس واقعہ کے دورا ن زخمی ہوئے جبکہ ملزم سرفراز کی بالی مقتولہ کے ہاتھ میں رہ گئی تھی اور میڈیکل تجزیہ سے ثابت ہوا کہ بالی سرفراز کی ہے ۔عدالت نے دلائل سننے کے بعد چاروں ملزمان کو مجرم ٹھہراتے ہوئے قرار دیا کہ وقوعہ کے عینی گواہ اور ملزمان کیخلاف براہ راست ثبوت موجود نہیں لیکن ٹھوس واقعاتی ثبوتوں سے ملزمان کا وقوعہ پر موجودگی ثابت ہے جبکہ ملزمان کے وکیل ان کی بے گناہی ثابت نہیں کرسکے تاہم استغاثہ نے قتل کے اس واردات میں ملزمان کے ذاتی کردار کا تعین نہیں کیا اس لئے سزا میں احتیاط برتتے ہوئے چھ چھ بار کی سزائے موت کو چھ چھ بار عمر قید میں تبدیل کردیا جاتا ہے ۔دریں اثنائسپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے گجرانوالہ میں ایک قتل کیس میں عمر قید کے 2ملزمان قیصر بٹ اور عبدالغفار کو بری کر دیا ۔کیس کی سماعت چیف جسٹس آصف سعید خان کھو سہ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کی،سرکاری وکیل محمد جعفر نے عدالت کو بتایا کہ دونوں ملزمان پر الزام ہے کہ انہو ں نے مقتول ٹیکسی ڈرائیور منظو احمد سے ٹیکسی بک کرائی جس کے بعد دونوں ملزمان کو ٹیکسی میں منظور احمدکے ساتھ جاتے دیکھا گیا، ملزمان سے دو پستول برآمد ہوئے ۔عدالت نے کہاکہ صرف اس بنیاد پر سزا نہیں دی جا سکتی کہ ملزمان کو مقتول کے ساتھ جاتے دیکھا گیا۔