عطاء الحق قاسمی نے کہا تھا کہ کوئی ان کی تعریف کرے تو انہیں برا لگتا ہے اور اگر کوئی ان کی تعریف نہ کرے تو انہیں یہ اس سے بھی برا لگتا ہے۔ بہرحال ہمیں بھی اچھا لگا کہ معروف ادبی تنظیم وجدان نے ہمارے ساتھ ایک شام منائی۔ اس سے پیشتر ڈاکٹر صغریٰ صدف نے پلاک میں اور ڈاکٹر رفاقت علی نے آئی آر ڈیپارٹمنٹ پنجاب یونیورسٹی میں شام کا اہتمام کیا تھا۔ اس تقریب کی خوشی مجھے اس لئے ہوئی کہ یہ سرکاری شعبہ کی طرف سے نہیں بلکہ ایک نامور ادبی تنظیم وجدان جس کے چیئرمین نبیل انجم ہیں، کی طرف سے باغ جناح کی قائد اعظم لائبریری میں منعقد کی تھی اور پھر اس تقریب کو چار نہیں آٹھ چاند اس لئے لگے کہ استادڈاکٹر خواجہ محمد زکریا نے اس کی صدارت کی اور قطر سے آئے ہوئے فرتاش علی سید مہمان خصوصی تھے۔ حافظ ممتاز نے نقابت کے فرائض انجام دیے۔ نہ جانے مجھے یہاں اپنے پیارے دوست اسلم کولسری کیوں یاد آئے کہ ایک مرتبہ ایک ویڈیو ریکارڈنگ میں انہوں نے میزبانی کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے سعداللہ شاہ کے دونوں ادوار دیکھے ہیں۔ رومانٹک اور مزاحمتی دونوں ادوار کے نمائندہ اشعار انہوں نے پڑھے: جہاں پھولوں کو کھلنا تھا وہیں کھلتے تو اچھا تھا تمہی کو ہم نے چاہا تھا تمہی ملتے تو اچھا تھا اے مرے دوست ذرا دیکھ میں ہارا تو نہیں میرا سر بھی تو پڑا ہے مری دستار کے ساتھ میں یہ بھی بتاتا چلوں کہ سٹیج پر ہمارے ساتھ ڈاکٹر صغریٰ صدف بھی موجود تھیں جو دراصل وجدان کی روح و رواں ہیں۔ میں کہا کرتا ہوں کہ یہ خاتون ایک فرد نہیں ایک ادارہ ہے۔ان کے کریڈٹ پر پلاک کی ساری کامیابیاں ہیں۔ بہرحال مجھ سے محبت کرنے والوں میں بہت سے دوست وہاں آئے۔ امتیاز کوکب بھی آیا اور اس نے ہمیں یاد دلایا کہ تیس سال قبل ایک مؤقر ادارہ نے میرا انٹرو لگایا تو میرے ایک شعر کو سرخی بنایا: بحر رجز میں ہوں نہ میں بحر رمل میں ہوں میں تو کسی کی یاد کے مشکل عمل میں ہوں اس نے یہ بھی کہا کہ میں نے تب فیصل آڈیٹوریم کا بڑا مشاعرہ پڑھا جب شاعروں کی گلیکسی وہاں موجود تھی احمد ندیم قاسمی‘ منیر نیازی سے لے کر امجد اسلام امجد تک۔ یہ1982ء کی بات ہے۔ یادوں کا سلسلہ چلنے لگا تو محترمہ بینا گوندی نے آ کر کہا میں ان کے لئے سعداللہ شاہ نہیں بلکہ سعد ہوں کہ اردو سائنس بورڈ میں ہماری نشستیں ہوا کرتی تھیں۔ واقعتاً جذبات و خیالات کا ایک ہجوم اور شاعری کا جنون۔ کچھ اشعار تواتر کے ساتھ دوستوں نے دہرائے۔ چند ایک آپ دیکھ لیں: اس نے پوچھا جناب کیسے ہو اس خوشی کا حساب کیسے ہو وہ مجھ کو چھوڑ گیا تو مجھے یقین آیا کوئی بھی شخص ضروری نہیں کسی کے لئے نظر انداز کیا میں نے بھی اس دنیا کو اور دنیا نے بھی پھر قرض اتارے سارے مت شکایت کرو زمانے کی یہ ملامت ہے ہار جانے کی بے یقینی میں کبھی سعد سفر مت کرنا یہ تو کشتی میں بھی گرداب بنا دیتی ہے انیس احمد جو خود بھی ایک خوبصورت شاعر ہیں انہوں نے میری اردو شاعری کے ساتھ ساتھ پنجابی شاعری کا تذکرہ کیا کہ پنجابی شاعری پر بھی مجھ پر پنجاب یونیورسٹی کی طرف سے تھیسز ہو چکا ہے اور اس میں خاص طور پر میرے گیت اور غزلیں کئی سنگر گا چکے ہیں۔ ابھی ابرار الحق نے غزل گائی ہے مگر اس سے پہلے حامد علی خاں نے: موسم تیرے آون نال موسم تیرے جاون نال بندہ کلا رہ جاندا بہتے یار بناون نال کشمیر سے آنے والے ڈاکٹر صغیر صفی اور ڈاکٹر کاشف رفیق نے بھی میرے ساتھ اپنی محبتوں کا اظہار کیا کہ مگر سب کچھ لکھنا آسان بھی نہیں اور ممکن بھی نہیں۔ صوبیہ خان اور کچھ دوسرے دوست بھی تھے۔ ممتاز راشد لاہوری اور طارق چغتائی بطور خاص تشریف لائے۔ فرتاش سید نے بہت اعلیٰ باتیں کیں اور شکوہ بھی کیا کہ انہوں نے مجھے قطر مشاعرہ میں بلایا مگر میں مصروفیت کے باعث نہ جا سکا۔ مگر اس کے بعدآصف شفیع لوگوں کے مشاہرہ میں لے آیا۔ چونکہ فرتاش کہنہ مشق شاعر بھی ہے اور اردو ادبیات کا استاد بھی۔ اس لئے اس نے فنی محاسن پر بات کی اور خوب کی۔ مجھے یاد ہے احمد فراز نے ایک شعر مجھ سے تین مرتبہ دہرانے کو کہا: کار فرہاد سے یہ کم تو نہیں جو ہم نے آنکھ سے دل کی طرف موڑ دیا پانی کو ڈاکٹر صغریٰ صدف نے بہت ہی محبت کا اظہار کیا کہ اس نے شاعری میں مجھ سے رہنمائی لی۔ میں سمجھتا ہوں کہ رہنمائی بھی ہر کوئی نہیں لیتا اور نہ ہر کسی کی رہنمائی کی جا سکتی ہے۔ یہ بات تو طے ہے کہ وہ کوئی بھی ہو استاد کے ادب بغیر کچھ نہیں ملتا۔ ڈاکٹر خواجہ محمد ذکریا نے اس بات کا اظہار بھی کیا کہ میں ان سے پڑھا نہیں کہ میرا مضمون تو انگریزی تھا اور وہ اردو کے استاد مگر میں ہمیشہ انہیں اپنا استاد کہتا ہوں۔ انہوں نے بتایا کہ انہوں نے بتایا کہ انہوں نے میرے پہلے شعری مجموعہ ’’بادل‘‘چاند ہوا اور میں کا دیباچہ لکھا۔ میں اکاسی بیاسی ہی سے ان کے پاس اورئنٹل کالج جاتا۔ تب بڑا ادبی ماحول تھا۔ انہوں نے کہا کہ میرے ہاں مستقل ارتقا موجود ہے جبکہ ساتھ چلنے والے پتہ نہیں کہاں کھو گئے۔ بہرحال یہ خواجہ صاحب کی محبت تھی کہ انہوں نے اپنے صدارتی خطبہ میں میری شاعری کو ایسا خراج تحسین پیش کیا کہ مجھے اپنی محنت کا جیسے پھل مل گیا۔ وہاں موجود سب دوستوں نے مجھے اپنی یادیں شیئر کرنے کو کہا اور پھر میں تھا اور وہ تھے صرف ایک دو دہرا دیتا ہوں۔ میں نے بتایا کہ خانہ کعبہ کو دیکھ کر میں اللہ سے حمد مانگی تھی اور پھر وہ حمد مل گئی۔ دوشعر: رنگ سارے ہی یہاں جذب ہوئے جاتے ہیں اور گردش میں جہاں بھر کا اجالا ہے میاں والہانہ کوئی پتھر کو کہاں چومتا ہے اس محبت میں محمدؐ کا حوالہ ہے میاں میرا خیال ہے کہ کالم یہاں ختم کرتے ہیں ایک شعر کے ساتھ اجازت: ہم سے نہ کوئی الجھے ہم لوگ ہیں دیوانے آندھی سے ہمیں ضد ہے ایک دیپ جلانا ہے