سندھ میں جب بھی سیاسی حالات پرامن ڈگر پر پاؤں رکھتے ہیں تب اس جماعت کی جانب سے سندھ میں دو صوبوں کاشوشہ چھوڑا جاتا ہے جو کل پیپلز پارٹی کے اور آج تحریک انصاف کے ساتھ ہے۔وہ جماعت اچھی طرح جانتی ہے کہ پاکستان میں تاریخ سے زیادہ لوگ جغرافیہ کے بارے میں جذباتی ہیں۔ ملک کی ساری بڑی جماعتیں جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کی بات پر اصولی طورپر اتفاق کرنے کے باوجود ابھی تک عملی طور پر ایک قدم نہیں اٹھا سکیں تو اس سندھ کو دوصوبوں میں تقسیم کس طرح کیا جاسکتا ہے جس سندھ کے لوگ اپنی دھرتی کے بارے میں بہت جذباتی ہیں۔ ملک کے جس سیاسی دانشور کو متحدہ کی حقیقت معلوم ہے وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ’’ متحدہ اچھی ملازم اور بہت بری مالک ہے‘‘ جب بھی ایم کیو ایم آزمائش میں آتی ہے تب اس کی زبان اور اس کا بیان یکسر بدل جاتا ہے۔ وہ بڑی میٹھی اور مظلومیت سے بھری ہوئی ایسی باتیں کرتی ہے کہ سننے والے کو رونا آجائے مگر جب متحدہ کے ہاتھ میں پاور آتی ہے تب یہ جماعت پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کو ریموٹ کنٹرول پر چلاتی ہے۔ ایک بیان آیا اور شہر بند۔ جو بس چلی وہ نذر آتش۔ جس نے بغاوت کی وہ بوری میں بند اور جب متحدہ کے ہاتھوں میں پاور نہیں رہتی تب وہ بڑی مہذب اور انتہائی نفیس جماعت بن جاتی ہے۔ ایسی مہذب اور اس قدر نفیس کہ وزیر اعظم عمران خان کو بھی یہ اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ اس کی حکومت میں سب سے زیادہ نفیس وزراء متحدہ کے ہیں۔ وزیر اعظم کے اس تعریفی بیان کے بعد متحدہ کا اسٹائل تبدیل ہوگیا اور اس نے موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک بار پھر سندھ میں دو صوبوں دوسرے الفاظ میں تقسیم سندھ کے بارے میں بیان دے ڈلا۔ ایم کیو ایم کے اس بیان سے کس کو فائدہ ہوا؟ اس بیان اس پیپلز پارٹی کو فائدہ ہوا جس کے ہاتھوں کرپشن کے باعث سندھ کارڈ چھوٹ چکا تھا۔ جن کی بولتی نیب کے باعث بند ہو چکی تھی۔ پیپلز پارٹی کے وہ رہنما جو سندھ کے عوام کی نظر میں مکمل طور پر ایکسپوز ہوچکے تھے ؛ ان کو ایک بار پھر سستے ہیرو بننے کا موقع مل گیا ۔ وہ اسمبلی میں پھر سے چیخنے اور چلانے لگے کہ بچہ بچہ کٹ کر مرے گا مگر سندھ کو تقسیم کرنے نہیں دیا جائے گا۔ تاریخ کی آنکھوں نے ہمیشہ دیکھا ہے کہ جب بھی کوئی فتنہ برپا ہوتا ہے تب اچھے لوگ خاموش ہوجاتے ہیں اور برے لوگ شور مچانے میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ اس بار بھی ایسا ہو رہا ہے۔ اہلیان سندھ پیپلز پارٹی کے کرتوتوں کی وجہ سے ان کی بات سننے کے لیے تیار نہیں تھے مگر اب پیپلز پارٹی والے بڑھ چڑھ کر بول رہے ہیں اور سندھ کے سادہ لوگ ان کو سننے پر مجبور ہیں۔ عمران خان حکومت میں بھلے نئے ہوں مگر سیاست میں بہت سینئر ہیں۔ ان کو اچھی طرح معلوم ہے کہ متحدہ کس طرح بدلے ہوئے حالات میں گرگٹ کی طرح رنگ بدلتی ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ عمران خان کے ساتھ جو اردو بولنے والے ہیں وہ کراچی کی سیاست میں فیصلہ کن کردار نہیں ادا کرسکتے۔مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ عمران خان ایم کیو ایم میں اس طرح جان ڈالیں جس طرح پرویز مشرف نے ڈالی تھی۔ وہ وقت اور تھا۔ یہ وقت اور ہے۔ اس وقت متحدہ اس طرح منظم نہیں جس طرح پہلے تھی۔ اس وقت متحدہ ٹکڑوں میں تبدیل ہوچکی ہے۔ اگر اس بار عمران خان نے متحدہ کو پھر سے منظم کرنے کے حالات میسر کرنے کی غلطی کی تو ان کے ہاتھوں سے وہ موقع چھوٹ جائے گا جو حالات نے ان کے حوالے کیا ہے۔ عمران خان کو قدرت نے پہلے خیبر پختون خوا دیا۔ پھر انہیں پنجاب میں کامیابی عطا فرمائی۔ وہ بلوچستان میں بھی ہیں۔ اب اگر انہیں پیپلز پارٹی کو شکست دے کر سندھ کو سیاسی طور پر فتح کرنا ہے تو انہیں متحدہ کے بجائے کراچی میں بہتر اور اچھی قیادت کے لیے کوشش کرنی چاہئیے۔ اس وقت نہ صرف کراچی بلکہ پورے سندھ کے اردو بولنے والے سیاسی طور پر تنہا ہیں۔ ان کے سر پر ہاتھ رکھنا مشکل نہیں۔ مگر یہ کام نیک اور صالح لوگوں کے معرفت کرنا چاہئیے۔ عمران خان اگر کراچی شہر کے مسائل سے پاک کرنے کے سلسلے میں سنجیدہ ہیں تو انہیں اردو بولنے والی آبادی میں اس جماعت اسلامی کے ساتھ اتحاد کرنا چاہیے جس کے دامن پر کرپشن کا کوئی داغ نہیں۔ وہ کراچی کے مسائل سے اچھی طرح آگاہ ہے۔ اس جماعت کو کراچی میں ترقیاتی منصوبے اچھی طرح سے پایہ تکمیل تک پہنچانے کا تجربہ ہے۔ اگر عمران خان سیاسی مجبوری کے سبب متحدہ سے ہاتھ ملا سکتے ہیں تو جماعت اسلامی سے کیوں نہیں؟کراچی کو اپنی مٹھی میں مضبوطی سے لینے کے لیے عمران خان کو اردوبولنے والی آبادی میں داخل ہونا ہوگا مگر ہمارا مشورہ یہ ہے کہ عمران خان اس بستی میں متحدہ کے معرفت نہ جائیں۔ متحدہ کے معرفت جانے سے عمران خان کو فوری فائدہ بھی حاصل ہوسکتا ہے مگر وہ آگے چل کر نقصان کا باعث بنے گا۔ سب سے اچھی بات یہ ہے کہ اس بکھرے ہوئے شہر کو یکجا کرنے کے لیے عمران خان ایک تو تحریک انصاف کو کراچی میں مناسب اور مثبت قیادت بنانے کی کوشش کرنی چاہئیے اور اس کے علاوہ مختلف زبانیں بولنے والے لوگوں کی جو بہتر اور باکردار جماعتیں ہیں؛ ان کے ساتھ ورکنگ رلیشن شپ رکھنے میں حکومت کو عملی کامیابی حاصل ہوگی ۔ اس طرح کراچی حقیقی طور پر منظم ہوجائے گا۔ عمران خان کو معلوم ہے کہ کراچی پاکستان کے لیے معاشی انجن کا درجہ رکھنے والا شہر ہے مگر سندھ کو کراچی کے معرفت کنٹرول کرنا ممکن نہیں ہے۔ کراچی کے راستے اندرون سندھ میں داخل ہونا بہت آسان ہے۔ عمران خان کی سیاسی جڑیں سندھ میں بھی ہیں۔ وہ نہ صرف شہروں بلکہ دیہی سندھ کی نفسیات سے بھی آگاہ ہیں۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ سندھی بولنے والی آبادی سندھ کی وحدت کے بارے میں بہت حساس ہے۔ اس کیے برسوں سے وجود سندھ کے حوالے سے یہ سیاسی کھیل کھیلا گیا ہے۔ جب بھی متحدہ کمزور ہوتی ہے تب وہ مثبت سیاست کی بات کرتی ہے۔ جب بھی متحدہ طاقت میں آنے لگتی ہے تب وہ لسانی بنیادوں پر سندھ کو تقسیم کرنے کی بات کرتی ہے۔ جب بھی متحدہ مثبت سیاست کرتی ہے تب پیپلز پارٹی کمزور پڑنے لگتی گے۔ جب بھی متحدہ منفی سیاست کرتے ہوئے ’’مہاجر صوبے‘‘ کا نعرہ لگاتی ہے تب پیپلز پارٹی سندھ کارڈ اٹھا کر سیاسی میدان میں داخل ہوتی ہے۔ اس بار بھی وہ کچھ ہو رہا ہے۔ تاریخ کا یہ تماشا آخر کب تک چلتا رہے گا؟ عام لوگ اپنے مسائل کے حل کے بارے میں پریشان ہیں۔ لوگوں کے لیے اہم مسئلہ نئے صوبے کا نہیں بلکہ مہنگائی اور لاقانونیت کا ہے۔ عام لوگوں کے بنیادی مسائل کو حل کرنے کے بجائے جب لسانیاتی اور صوبائی تعصب کی آگ جلا کر اسے نعروں سے بھڑکایا جاتا ہے تب سب سے پہلے اس آگ میں امن اور عام لوگ جلتے ہیں۔ عمران خان کراچی میں بہتر سیاست اور ترقی کی بہتر منصوبہ بندی کرنے کا جو عزم رکھتے ہیں اس کی روح اس صورت میں پامال ہوجائے گی اگر وہ اچھا کام برے ہاتھوں کے سپرد ہوا۔ عمران خان کو کراچی میں بدکردار لوگوں سے بچنا اور بہتر کردار کے مالک افراد سے ملنا چاہئیے۔ عمران خان کو چاہئیے کہ وہ سازشیوں کی دل شکنی کریں جو جذباتی ماحول پیدا کرتی ہیں اور معصوم لوگوں ان باتوں پر لڑتے ہیں ۔ ہم سب جانتے ہیں کہ ترقی صرف امن سے آتی ہے۔ امن انصاف سے پیدا ہوتا ہے۔ کراچی امن اور انصاف کا سب سے بڑا حقدار ہے۔