میرا ایک دوست جمال آجکل بہت سنجیدگی سے خود کُشی کرنے کا سوچ رہا ہے ۔ایک دو بار تو بہت قریب تھا کہ وہ اپنے اس خیال پہ عمل بھی کر گزرتا ۔ اورظاہر ہے اس صورت میں آج میں یہ کالم تعزیتی انداز میں لکھ رہا ہوتا ۔لیکن پھر وہ بوجوہ ایسا نہیں کر سکا ۔ اس کے بقول بس کچھ Modalities طے ہونا باقی تھیں جس وجہ سے اس’ کارِ خیر‘ میں نہ چاہتے ہوئے کچھ تاخیر ہوئی لیکن اسے اُمید ہے کہ وہ یہ تاخیری مسائل جلدی حل کر لے گا اور پھر وہ قدرے سکون سے اپنے اس سوچے سمجھے فیصلے پہ عمل کر سکے گا ۔ جس دوست کے سامنے اس نے اس عمل پہ تاخیر کا بتایا تھا وہ کہتا ہے کہ کہ تاخیر کا ذکر کرتے ہوئے اس کے چہرے پر باقاعدہ ملال کی کیفیت اُبھری ۔مزے کی بات یہ ہے کہ خود کشی کے لیے معروف وجوہات میں سے کوئی بھی ایسی نہیں جو فی الوقت اُسے درپیش ہو ۔ لیکن اس کے باوجود وہ اس پہ عمل کے لیے جتنی سنجیدگی اور جس قدر عُجلت دکھا رہا ہے وہ حیران کُن ہے ۔اپنے انتہائی قریبی دوستوں کے محدود سے حلقے میں وہ اس خواہش کا اظہار کرتا رہا ہے ۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ قریبی دوست اسے اس ارادے سے باز رکھنے کے لیے کوئی کوشش نہیں کر رہے ۔دوست بتاتے ہیں کہ اُن کے سامنے جب وہ اس خواہش کا اظہار کرتا ہے تو اس پہ عجیب سرشاری کی کیفیت طاری ہوتی ہے ۔ اُس کے خیال میں لوگ ذرا مختلف سوچتے ہیں لہذا ضروری ہے کہ کہ ایسا کوئی ٹھوس جواز بھی موجود ہو جو لوگوں کو اُس کے اس فیصلے کو کسی حد تک قبول کرنے میں مدد دے سکے ۔اسے اس بات کا احساس ہے کہ اُس کے بعد کہیں لوگ یہ نہ کہیں کہ بھلا یہ بھی کوئی مرنے کی بات تھی ۔ میرے لیے اس کی خودکُشی کے ارادے کی بات اپنی جگہ پہ باعث تشویش ہے لیکن اس کے لیے باقاعدہ کسی جواز پہ اصرار بھی کافی حیران کُن ہے کیونکہ جب سے میں اُسے جانتا ہوں اُس نے آج تک کوئی کام کسی مقصد جواز یا کسی وجہ کی بنا پر نہیں کیا ۔ زیادہ سے زیادہ کوئی کام کرنے کے بعد وہ اس کاکوئی جواز گھڑ لیتا ہے ۔ خود کشی کے لیے کوئی معقول جواز البتہ وہ پہلے بتانا چاہتا ہے شاید اس لیے کہ بعد میں لوگوں کو جواز بتانا ممکن نہیں ہوگا۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے کچھ عرصہ پہلے تک جمال ایسا بالکل نہیں تھا ۔ وہ زندگی کے لیے بھاگ دوڑ کرنے والا بڑی مثبت سوچ کا حامل ایک نوجوان تھا ۔کچھ عرصہ پہلے اس کی کیفیت بالکل بھی ایسے نہ تھی ۔ پچھلے دو تین سال وہ کینیڈا میں رہا اور جب سے وہاں سے واپس آیا ہے اس نے ایسا سوچنا شروع کر دیا ہے ۔ جمال کی زندگی میں بظاہر کوئی مسئلہ نہیں ہے ۔ بلکہ غور سے دیکھیں تو اس کی زندگی ہمارے بیشتر لوگوں کے لیے قابل رشک نظر آتی ہے ۔محبت کرنے والے بیوی بچے، ایک بڑا سا گھر ،اچھی گاڑی اور ایک کامیاب چلتا ہوا وسیع کاروبار ۔ کسی انسان کو اور کیا چاہئے ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود خودکشی کی خواہش سمجھ سے باہر ہی نہیں انتہائی حیران کُن ہے ۔ دوسرے دوستوں کی نسبت جمال سے میری قربت اور بے تکلفی قدرے زیادہ ہے ۔ چنانچہ میں بھی اپنا فرض سمجھتے ہوئے اسے اس ارادے سے باز رکھنے اور سمجھانے کے لیے اس کے گھر پہنچا ۔ جمال بڑے تپاک سے ملا ۔ وسیع ڈرائنگ روم میں طویل بیٹھک ہوئی ۔تھوڑی دیر میں کافی اور مہنگے سگارکی مسحورکُن خوشبو نے ہمیں گھیر لیا ۔ میں نے اسے بتایا کہ زندگی ایک بڑی نعمت ہے اور ایک محبت کرنے والی فیملی کے ہوتے ہوئے اسے ختم کرنے کا سوچنا ایک انتہائی فضول خیال ہے ۔ اس نے سگار کا ایک لمبا کش لیا اور پھر مجھے خود کُشی کے ارادے کے پیچھے اپنی فلسفیانہ سوچ بتانے لگا ۔ اس کے چہرے پہ ایک گہری اور سنجیدہ مسکراہٹ تھی ۔اُس کے تازگی بھرے چہرے پہ اداسی یا پریشانی کا کوئی ایسا تاثر نہ تھا جو ظاہر کرے کہ یہ بندہ اپنے آپ کو مارنے کا ارداہ کیے بیٹھا ہے ۔پہلے تو اُس نے سقراط ، ارنسٹ ہیمنگوے اور ورجینیا وولف جیسی کئی نابغہ روزگار ہستیوں کی مثالیں میرے سامنے پیش کیں جنہوں نے ، اُس کے بقول ، خودکُشی کی ’ سعادت ‘ حاصل کی تھی ۔اُس نے بتایا کہ پس ِ مرگ ایسی شخصیات کے چہروں پہ موجود طمانیت اس موقف کو درست ثابت کرتی ہے کہ ان کا فیصلہ ٹھیک تھا ۔ پھر اُس نے خود کُشی کے کئی ایسے ’ فضائل ‘ بتانا شروع کیے جو میری نظر سے اب تک پوشیدہ تھے ۔اُسے بیسیوں Suicide Note زبانی یاد تھے اور وہ انہیں ترنگ میں لہک لہک کرایسے سُنا رہا تھا جیسے کوئی میر ؔ اور غالب ؔ کے اشعار پڑھ رہا ہو۔ اُس کے وفور شوق کا عالم دیدنی تھا ۔کسی مغربی مفکر کی طرح اس کا خیال تھا کہ انسان کے لیے سب سے بہتر تو یہ ہے کہ وہ پیدا ہی نہ ہو ۔لیکن اگر وہ بدقسمتی سے پیدا ہوچکا ہے تو اگلی بہترین بات یہ ہے کہ وہ فوراً خود کُشی کر لے ۔ وہ اپنے سفرِ آخرت کی پلاننگ یوں بتا رہا تھا جیسے وہ سوئٹزر لینڈ کی سیر پہ جا رہا ہو۔اس خواہش پہ عمل کی تفصیل وہ ایسے رومانوی انداز میں کر رہاتھا کہ مجھ پہ سحر سا طاری ہوگیا ۔ ایک لمحے کو میں نے اپنے آپ کو اُس کا ہم خیال پایا اور میرے ذہن میں ایسی ہی پلاننگ شروع ہوگئی ۔ لیکن اگلے لمحے میں نے سر جھٹکا ۔۔لاحول ولا قوۃ پڑھا اور وہاں سے نکل آیا ۔