پاکستان ایسوسی ایشن دبئی اور پاکستان جرنلسٹ فورم نے مشترکہ طور پر ہمارے اعزاز میں ایک تقریب رکھی تھی ۔ تقریب میں ان دوستوں سے ملاقات ہوئی جو کئی عشروں سے متحدہ عرب امارات میں ذاتی کاروبار کے ساتھ صحافتی ذمہ داریاں انجام دے رہے تھے۔یو اے ای میں مقامی صحافت سے پاکستانی کمیونٹی کا تعلق بہتر بنانے کی ضرورت ہے ۔ انگریزی میں شائع ہونے والے اخبارات میں پاکستان اور بھارت کے درمیان کوریج زیادہ لینے کی دوڑ لگی رہتی ہے ۔اس لحاظ سے ان اخبارات کو بڑا متوازن رہنا پڑتا ہے ۔سنسنی خیزی بالکل نہیں پھیلائی جاتی ۔کھیل اور علمی سرگرمیوں کو خصوصی توجہ ملتی ہے۔ تقریب کے آغاز میں ہمیں بتا دیا گیا تھا کہ کسی طرح کی سیاسی گفتگو نہ کی جائے، میں تو پہلے ہی ’’اب کیا ہو گا ‘‘ ٹائپ کے سوالات سے تنگ رہتا ہوں ، اوپر سے موبائل پر واٹس ایپ گروپوں نے قافیہ تنگ کر رکھا ہے، لیفٹ اس وجہ سے نہیں کرتا کہ بعض اوقات کوئی اطلاع مل جاتی ہے ۔ اچھا لگا کہ کمیونٹی کو متحد رکھنے کے لئے سیاسی گفتگو کو تقریبات میں ممنوع قرار دیا جا رہا ہے۔ صدارت جرنلسٹ فورم کے صدر طاہر منیر طاہر کی تھی۔پاکستان ایسوسی ایشن دبئی کی جانب سے نعیم رسول اور محمد ابوبکر نے خوش آمدید کہا،حافظ زاہد علی نے نظامت کی۔تقریب میں جن احباب نے شرکت کی ان میں ارشد انجم ، اشفاق احمد، شیخ پرویز،اعجاز گوندل ،خالد گوندل، کاشان تمثیل، احمد سارنگ قریشی ، عارف شاہد،معین صمدانی اور دیگر احباب نے محبتوں سے نوازا۔ بلاشبہ سرمد خان نے ہمیں جوڑنے میں بنیادی کردار ادا کیا ۔ طاہر علی بندیشہ وقفے وقفے سے مقامی علمی و ادبی حوالوں سے آگاہ کر رہے تھے ۔ تقریب سے فارغ ہوئے تو نعیم رسول نے پاکستان ایسوسی ایشن کی پوری عمارت دکھانے کا انتظام کر رکھا تھا۔ہمیں بتایا گیا تھا کہ کسی دوسرے ملک میں پاکستانی تارکین کا اس سے بڑا سوشل سنٹر نہیں، دیکھا تو اس پر یقین آگیا۔ انڈور کرکٹ ، فٹ بال، ٹینس ، بیڈ منٹن وغیرہ کھیلنے کا انتظام تھا۔ کئی بچے اور نوجوان کھیلوں میں مصروف تھے ۔ سپورٹس ایرینا کے ساتھ وسیع ہال تھا ۔کم و بیش چار پانچ سو لوگ آسانی سے بیٹھ سکتے ہیں۔ ہال میں سٹیج کے سامنے والی خالی جگہ پر کرسیاں لگا دی جائیں تو مجموعی طور پر ایک ہزار لوگ سما سکتے ہیں ۔ اس خالی جگہ پر بیڈ منٹن کھیلا جاتا ہے ۔ہم بالائی منزل پر گئے تو دیکھا ہال کی تقریبات کو ملاحظہ کرنے کے لئے گیلری میں نشستیں رکھی گئیں تھیں۔ مرکزی دروازے کے سامنے والی عمارت میں نیچے برکس کیفے ہے۔ نعیم رسول نے بتایا کہ ایسوسی ایشن نے عطیہ دینے والے پاکستانیوں کو ایک اینٹ کا خرچ بتایا تھا، عطیہ کرنے والوں کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے کیفے کا نام برکس رکھا گیا۔ عمارت کی دوسری منزل پر ایک خوبصورت لائبریری ہے، کوئی چار ہزار کے قریب کتب ہوں گی ۔ ادب، سیاحت ، دینیات، شاعری ، معلومات عامہ ۔ بچوں کے لئے خصوصی طور پر کتابیں منتخب کی گئیں تھیں۔ دبئی میں علاج معالجہ کی سہولیات بہت مہنگی ہیں ۔ایسوسی ایشن نے سوشل سنٹر میں ایک میڈیکل یونٹ بنا رکھا ہے ، پاکستانیوں کا علاج بہت کم فیس پر یا پھر مفت ہوتا ہے۔ اس سنٹر نے ایک اچھی پالیسی یہ اختیار کی ہے کہ دیگر ممالک کے باشندوں کے لئے بھی اپنی طبی سہولیات حاضر کر دی ہیں۔ پارکنگ کا اچھا انتظام ہے ۔ میں حیران تھا کہ اس قدر کشادہ اور وسیع المقاصد عمارت پاکستانی کمیونٹی نے کیسے بنا لی۔ احباب نے بتایا کہ ساٹھ یا ستر کے عشرے میں شیخ زید نے یہ زمین تحفہ دی تھی۔ پہلے عمارت اس قدر بڑی نہ تھی۔ تین سال پہلے اس کی تعمیر نو مکمل ہوئی۔نعیم رسول اسلامیہ کالج سول لائنز کے سابق طالب علم اور روئنگ کے کھلاڑی رہے ، ان سے اس حوالے سے تعلق استوار ہوا ہے ، معین صمدانی صاحب نے میری کتاب مقامی ادبی فیسٹول کی انتظامیہ کو بھیجنے کا مشورہ دیا ۔شام اتر چکی تھی ۔ یہاں ملنے والے تمام صحافی دوست بہت ملنسار تھے۔ کئی ایک اپنے اخبار اور میگزین چلا رہے تھے۔ ارشد انجم کا ہفت روزہ ’’ جانب منزل ‘‘ بہت جاندار معلوم ہوا۔ کئی دوست پاکستان کے میڈیا ہاوسز سے منسلک ہیں۔طاہر منیر صاحب نوائے وقت کا حصہ ہیں ، میرے آنے کی بابت انہوں نے ارشاد احمد عارف سے فون پر بات کی تاکہ سند رہے۔ اصل میں پاکستان سے بہت سے لوگ صحافی اور ادیب بن کر جاتے ہیں ، اپنے ڈمی اخبارات کی آڑ میں عجیب و غریب سرگرمیوں میں ملوث ہو جاتے ہیں۔ صحافی کی رسائی اور مشاہدہ باقی لوگوں سے زیادہ ہوتا ہے اس لئے پاکستان جرنلسٹ فورم کے دوستوں نے کئی مسائل کا ذکر بھی کیا۔ دبئی میں پاکستانیوں کے لئے صرف تین سکول ہیں ۔ لوگ یا تو مہنگے انڈیں اور امریکن سکولوں میں بچے پڑھاتے ہیں یا پھر پڑھا ہی نہیں سکتے ۔بہت سے پاکستانی اس صورت حال سے پریشان ہیں ۔لوگ اپنے طور پر کچھ انتظام کر لیتے ہیں لیکن حکومت پاکستان اور پاکستان میں پرائیویٹ تعلیمی ادارے چلانے والے لوگ اس جانب توجہ نہیں دے رہے ۔ پاکستان ایسوسی ایشن نے کسی مصیبت زدہ پاکستانی کی امداد کا انتظام کر رکھا ہے ۔ کوئی محنت کش یہاں انتقال کر جائے تو اس کے گھر والوں کو معقول رقم ارسال کی جاتی ہے، میت بھیجنے کے اخراجات اور ساتھ ایک آدمی کا سفری خرچ برداشت کیا جاتا ہے ۔ یہاں سے نکلے تو کچھ دیر دبئی کی سڑکوں پر پھرتے رہے ۔ایک جگہ برا کشادہ اور خوبصورت گھر نظر آیا ، ایک روز پہلے یہان سے گزرے تھے تو ٹیکسی والے نے بتایا کہ یہ دبئی کے حکمران شیخ محمد کی ہمشیرہ کی رہائش گاہ ہے ۔ بر لب سڑک عالیشان عمارت ، دیوار سے لیکر سڑک تک مخملی گھاس ،دیوار کے اندر سے جھانکتے درخت ۔ہم اس عمارت کے سامنے سے گزرتے ہوئے رگا کو روانہ ہو گئے۔ اپارٹمنٹ پہنچے تو احمد جواد بٹ پہنچ گئے ۔ احمد جواد بٹ احمد نگر گوجرانوالہ سے ہیں ،کالم نگار ہیں ۔ زندہ دل شخصیت ہیں۔ انہوں نے دبئی میں اپنے ملنے ملانے والوں کا بتایا ۔کچھ خاص جگہوں کی بابت آگاہ کیا ۔ یہ مقامات ابھی ہم نہیں دیکھ سکے ۔سوچا ہے اگلی بار آئے تو ضرور وہاں جائیں گے ۔دبئی ہر طرح کی شخصیات کا گڑھ ہے ۔یہاں دنیا بھر کے ڈان رہتے ہیں، اعلیٰ افریقی ، پاکستانی، بھارتی، یورپی، روسی شخصیات کی رہائش اور بزنس دفاتر ہیں ۔ایک سے بڑھ کر ایک شاطر ۔لیکن مجال ہے جو کوئی مقامی قانون کی خلاف ورزی کی جرات کر سکے ۔یہی وجہ ہے کہ دبئی پر امن ہے اور جہاں امن ہوتا ہے سرمایہ اسی طرف رخ کرتا ہے ۔ (جاری ہے)