وزیر اعظم عمران خان نے مغربی ممالک کی حکومتوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اللہ کے آخری رسول حضرت محمدؐ کی توہین پر مبنی سرگرمیوں پر معافی مانگیں اور اس طرح کی جسارت کو بھی ہولو کاسٹ پر تبصرے کی طرح جرم قرار دیں۔ وزیر اعظم نے کہا کہ توہین آمیز خاکوں کی بار بار اشاعت نے دنیا بھر کے مسلمانوں کی دل آزاری کی ہے۔مسلمان اپنے نبیؐ کا احترام اور محبت سب سے بڑھ کر کرتے ہیں اس لئے ہم یہ برداشت نہیں کر سکتے کہ کوئی ان کی شان میں گستاخی کرے۔ وزیر اعظم ان خیالات کا اظہار حالیہ دنوں کے پرتشدد واقعات کے بعد صورتحال کو قابو میں لانے کی بعض کارروائیوں کے تناظر میں کر رہے تھے۔ اقوام متحدہ کا ادارہ دوسری عالمی جنگ کے بعد قائم کیا گیا۔ اس ادارے کا بنیادی مقصد دنیا کو مزید جنگوں سے بچاتے ہوئے تنازعات کے پرامن حل کا راستہ تلاش کرنا تھا‘ اگرچہ کشمیر اور فلسطین جیسے مسائل کا حل نہ ہونا ادارے کی افادیت پر سوال اٹھاتا ہے تاہم بہت سے ممالک میں قیام امن کے لئے اقوام متحدہ نے قابل قدر کردار نبھایا ہے‘ اقوام متحدہ کے ذیلی اداروں میں عالمی عدالت انصاف‘ یونیسکو ‘ سلامتی کونسل‘ جنرل اسمبلی وغیرہ اہم ہیں۔ گزشتہ کچھ برسوں سے مغربی ممالک میں اسلامی شعائر کا مسلسل مذاق اڑایا جا رہا ہے۔ فرانس‘ سویڈن‘ امریکہ اور ڈنمارک وغیرہ میں یہ واقعات تسلسل کے ساتھ رونما ہو رہے ہیں۔ عالمی برادری خصوصاً مغربی ممالک اس سلسلے میں مسلمانوں کے جذبات کا احترام کرنے میں ناکام رہے۔ یہ وہی ترقی یافتہ اور مہذب ہونے کے دعویدار ممالک ہیں جہاں یہودیوں پر نازی جرمنی کے مظالم کو ہولوکاسٹ کا نام دیا گیا اور قانونی طور پر ہولو کاسٹ پر کسی طرح کا تبصرہ کرنے کو جرم قرار دیا گیا۔ تاریخی طور پر یہ امر ہمیشہ شکوک و شبہات سے بھر پور رہا ہے کہ ہولو کاسٹ کیا اسی طرح کے واقعات ہیں جیسے یہودیوں نے بیان کیے یا ان میں افسانہ طرازی شامل ہے۔ بہرحال اس سے یہ ضرور ظاہر ہوتا ہے کہ مغربی ممالک جن انسانی حقوق کی آڑ میں مادر پدر آزاد اظہار رائے کا جواز مسلمانوں کے سامنے رکھتے ہیں وہ اصول یہودیوں کے روبرو ٹوٹ جاتا ہے۔ او آئی سی 57مسلم ممالک کی تنظیم ہے یہ کوئی دفاعی اتحاد نہیں فقط رابطہ کاری اور امہ کی ترجیحات سے متعلق رہنمائی کا فریضہ انجام دینے والی تنظیم ہے۔ اس تنظیم کے اعلامیہ کو عالم اسلام اور ڈیڑھ ارب مسلمانوں کی آواز سمجھا جاتا ہے۔ او آئی سی متعدد بار مطالبہ کر چکی ہے کہ مسلمانوں کی دل آزاری پر مبنی سرگرمیوں کو روکا جائے۔ دنیا میں جمہوری روایات کے احترام کی بات کرنے والے مغربی ممالک کی ساری رواداری اور تہذیب اس وقت غائب ہو جاتی ہے جب ان کے بعض جنونی شہری دنیا کی سب سے معتبر‘ معزز اور قابل احترام ہستی کے بارے میں گستاخانہ طرز عمل اختیار کرتے ہیں۔ مغربی ممالک میں خاکوں اور قرآن پاک کے متعلق ذمہ دارانہ طرز عمل کی تاکید کرنے کے لئے کوئی قانونی پابندی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دس بارہ برس قبل ایک امریکی شہری ٹیری جونز نے جب قرآن پاک کو نذر آتش کرنے کا اعلان کیا تو امریکہ سمیت دنیا بھر کے مسلمانوں نے امریکی حکومت سے ایسی سرگرمیاں رکوانے کا مطالبہ کیا۔ امریکی قانون میں ایسے فعل کو اظہار رائے کی آزادی سے منسلک کیا جاتا ہے اس لئے قانونی سطح پر کوئی پابندی نہ ہونے پر ٹیری جونز کو دیگر حوالوں سے باز رکھنے کی کوشش کی گئی۔ فرانس کا تنازع اس وقت شدید ہوا جب ایک سکول ٹیچر نے بھری جماعت میں خاکوں کو اظہار رائے کی آزادی کے ساتھ جوڑ کر طلبا کو دکھایا۔ مسلمان طالب علموں کے احتجاج کے باوجود یہ استاد اپنی حرکت سے باز نہ آیا تو ایک مسلمان طالب علم نے اسے سرراہ قتل کر دیا۔ فرانس میں اس فعل پر قانون حرکت میں آیا‘ وہ قانون جو کروڑوں مسلمانوں کی دل آزاری پر خاموش رہا اس کے ہاتھوں وہ نوجوان طالب علم شہید ہو گیا۔ فرانس کے صدر میکغون نے اس موقع پر ناصرف غیر ضروری طور پر مقتول ٹیچر کی حرکت کا دفاع کیا بلکہ فرانس کے اہم ٹاور پر خاکوں کی نمائش کرنے کا حکم بھی جاری کیا۔ فرانسیسی صدر کا یہ فیصلہ کسی طور پر ایک ذمہ دار اور سلامتی کونسل کے رکن ملک کے سربراہ کے معیار سے مطابقت نہیں رکھتا تھا۔ اس سے یہ تاثر ابھرا کہ مغربی معاشروں میں کچھ مخصوص عناصر اور گروہ ہی مسلمانوں اور شعائر اسلام کے متعلق متعصب رویہ نہیں رکھتے بلکہ ان کے حکمران بھی بغض سے بھرے ہوئے ہیں۔ اس پر پاکستان نے سرکاری طور پر بھر پور احتجاج کیا‘ پاکستانیوں نے فرانس کی بنی متعدد اشیا کا بائیکاٹ کیا۔ وزیر اعظم عمران خان اور ترک صدر طیب اردوان نے عالمی فورمز پر فرانسیسی صدر سے مصافحہ اور بات کرنے سے انکار کیا۔ یہ بات کسی شک و شبہ سے بالا ہے کہ طاقتور جنگی و معاشی صلاحیت کے حامل مغربی معاشروں میں سے اکثر اسلاموفوبیا کا شکار ہیں۔ نیوزی لینڈ‘ برطانیہ ‘ کینیڈا اور چند ایک دیگر ممالک کے سوا کہیں بھی اسلامی شعائر کا احترام نہیں کیا جا رہا۔ ان حالات میں مسلمان ریاستوں سے زیادہ مسلمان معاشروں کا کردار اہم ہو جاتاہے۔ ہمیں علم‘ معیشت اور ٹیکنالوجی کی طاقت حاصل کرنا ہے۔ ہمارا احتجاج اور مطالبات صرف اس لئے توجہ حاصل نہیں کر پاتے کہ ان کا رخ خود تخریبی کی طرف ہے‘ خود کو تعمیر کرنے کے لئے ہم اپنی صلاحیتوں کو خرچ کریں تو وہ دن دور نہیں جب کسی بدبخت کو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف بات کرنے کی ہمت نہ ہو گی۔