سراج الحق نے کیا مزے کی بات کی ہے کہ عمران خان تمہارا دوست ٹرمپ تو چلا گیا‘ اب تمہاری باری ہے۔اس الیکشن میں پاکستانیوں کو اتنا مزہ آیا ہے کہ گویا سراج الحق جیسے ثقہ آدمی نے بھی پھبتی کس کر لطف اٹھایا ہے۔ اس الیکشن میں ٹرمپ کے ہارنے پر ایسے خوشیاں پھوٹ رہی ہیں جیسے عمران کی شکست پر ن لیگ کو ہونے کی توقع ہے۔ میں دونوں کا مقابلہ نہیں کر رہا۔ ٹرمپ کے ہارنے پر میں بھی خوش ہوں۔ اس لئے کہ لگتا تھا دنیا سے جمہوریت کی اعلیٰ اقدار ہمیشہ ہمیشہ کے لئے رخصت ہو رہی ہیں۔ صرف ٹرمپ کی وجہ سے نہیں بلکہ پوری دنیا میں قیادت کا چلن بدلنے لگا تھا۔ ہم تو مودی اور ٹرمپ کی مثالیں دیتے ہیں۔ مگر ایک وقت ایسا تھا کہ لگتا تھا پورے یورپ میں جمہوریت رخصت ہو رہی ہے۔ یہ فرانس کا بدبخت صدر اسی روایت کی یادگار ہے۔ اس وقت جو ایک ٹی وی اینکر امریکی چینل پر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا ہے تو ان آنسوئوں کو بے معنی نہ سمجھئے۔ ذرا غور کیجیے ان لوگوں نے امریکہ میں کیا محسوس کیا ہو گا۔ جو برسوں سے امریکی شہری تھے اور اب انہیں امریکی صدر یہ کہہ رہا تھا کہ تم یہاں سے چلے جائو۔کالے‘ مسلمان‘ مہاجرین سب ایک بدتمیز صدر کے طعنوں ہی کی زد میں نہ تھے‘ وہ ان کے لئے مصائب بھی پیدا کر رہا تھا۔ ان کے لئے زندگی گزارنا ایک کرب سے گزرنا تھا۔اس شخص نے کیا کیا بدتمیزیاں کی ہیں۔ سب سے پہلے میکسیکو کے صدر سے الجھا کہ سرحد پر دیوار بنائو اور اپنے پیسے سے بنائو۔ پھر اپنے پرانے حلقوں کو آڑے ہاتھوں لیا کہ ہم خواہمخواہ یورپ کی سلامتی سنبھالے ہوئے ہیں۔ ہمیں اس کے پیسے دو وگرنہ چھٹی کرو۔ چین کے ساتھ تو اس نے مسابقت کی دوڑ شروع کر دی تھی۔ امریکہ میں یہودی لابی بہت مضبوط ہے۔مگر پھر بھی رکھ رکھائو کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ اس نے آتے ہی اعلان کیا کہ میں تل ابیب سے امریکی سفارتخانے کو یروشلم منتقل کر رہا ہوں۔ مڈل ایسٹ میں اپنے حلیفوں کے بارے میں صاف کہا کہ ان کی حکومت ہماری وجہ سے ہے۔ہمارے بغیر یہ پندرہ دن بھی نہیں چل سکتے۔ایران کے ساتھ یورپ کے تمام ممالک نے امریکہ سے مل کر ایک معاہدہ کیا تھا۔ عالمی معاہدے اس طرح ٹوٹا نہیں کرتے جس طرح اس شخص نے اسے یک طرفہ طور پر توڑ ڈالا۔ ساری زندگی ایران سے لڑتا رہا۔ جاتے جاتے متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان سفارتی تعلقات بھی قائم کر گیا۔ اس کا آج ہی ایک عملی اثر دیکھا ہے کہ متحدہ عرب امارات نے شراب پر پابندی اٹھا لی ہے اور بغیر شادی کے ساتھ رہنے کی آزادی دے دی ہے۔ وجہ یہ بتائی ہے کہ اس سے غیر ملکی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی ہو گی۔ ہمارے ساتھ اس کے تعلقات دو دو ہیں۔آتے ہی دھمکیاں دیں کہ پاکستان سیدھا ہو جائے وگرنہ وہ کروں گا کہ ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ پھر اچانک دوستی شروع کر دی۔ عمران خاں سمجھے کہ یہ میری وجہ سے ہے۔ کسی نے کہا کہ نہیں یہ افغان مسئلے پر معاملات کو لپیٹنے کے لئے پاکستان کا تعاون مانگنے کی حرکت ہے جو اسے تبد یل کر رہی ہے۔ پاکستان نے بھی کہنا شروع کیا کہ ہمیں اپنا ہائوس ان آڈر کرنا چاہیے۔ یہ تو خیر اس زمانے سے شروع ہو گیا تھا جب خواجہ آصف وزیر خارجہ تھے۔پاکستان بھی بدل رہا تھا۔ اصل تبدیلی مگر اس وقت آئی جب رزاق دائود نامی وزیر نے صاف کہا کہ سی پیک ایک سال کے لئے موخر کر دیا جائے۔ ٹرمپ بہت کایاں آدمی تھا۔اس نے عمران سے ملتے ہی کہا کہ میں کشمیر میں ثالثی کرائوں گا۔ جو باتیں بغیر مطالبے کے کہی جاتی ہیں‘ ان کے بارے میں سمجھ لیا جائے کہ اس میں کوئی عیاری ہے۔ ہماری قیادت سمجھی ٹرمپ کشمیر کا مسئلہ حل کرا رہے ہیں۔ عمران نے ٹرمپ سے امیدیں باندھ لیں کہ ایسے جیسے مودی سے باندھی تھیں کہ وہ جیت گیا تو کشمیر کا مسئلہ حل ہو جائے گا۔دونوں بہت عیار آدمی ہیں۔ امریکہ معاشرے میں گزشتہ صدی کے آخری عشرے میں بڑی تبدیلی آنے لگی تھی۔ پہلے تو دو کتابوں کے تذکرے ہوئے۔ تہذیبوں کے تصادم ور تاریخ کا خاتمہ۔ مجھے میرے ایک پاکستانی نژاداور امریکی ماہر عمرانیات نے بتایا کہ یہ لوگ امریکی دفتر خارجہ کے چکر کاٹتے رہے۔ مگر زیادہ پذیرائی نہ ملی۔ حتیٰ کہ 1996ء کے آخر میں پراجیکٹ فار نیو امریکن سنچری کا آغاز ہوا۔ ان کا کہنا تھا کہ آنے والی صدی امریکہ کی صدی ہے۔ انہوں نے اس کے لئے کچھ منصوبے طے کئے یہ لوگ نیو کنزرویٹو کہلائے۔نیو کون۔پہلے انہیں نیو ریگنائٹ کہا جاتا ہے۔ریگن اور تھیچر دونوں نے ایک نئے نظام معیشت کا آغاز کیا تھا۔ پھر یہ لوگ چھا گئے۔ ان لوگوں کے بارے میں کہا کرتا تھا کہ یہ بنیاد پرست ہیں‘ امپریلسٹ ہیں اور فاشسٹ بھی۔ مجھے یاد ہے کہ اس پر ایک امریکی سفارت کار نے مجھ سے پوچھا کہ امپریلسٹ تو ہوئے اور بنیاد پرست بھی درست ہے‘ مگر یہ فاشسٹ کیسے ہیں۔ عرض کیا کہ ان کا کہنا ہے کہ امریکی اقدار اور اصول دنیا میں اعلیٰ ترین ہیں ان کو نافذ کرنے کے لئے اگر طاقت بھی استعمال کرنا پڑے تو کرنا چاہیے۔ اور فاشزم کیا ہوتا ہے۔ آپ کو اپنی برتری کا زعم بھی ہے اور اسے طاقت کے ذریعے نافذ کرنے کا شوق بھی۔ ہٹلر اور کیا کہتا تھا۔۔ وقت نے ثابت کیا کہ امریکہ معاشرے کے اندر یہ خیال پروان چڑھتا گیا کسی کو پتا ہی نہ چلا کہ سفید فام نسل کی برتری کے نام پر اور ایسے ہی عقائد کی بنا پر وہ امریکہ کا صدر بن گیا۔ امریکی معاشرے کی داد دینا پڑتی ہے۔کہ اس نے اسے سہار لیا۔ میرا یقین اس بات پر اور پختہ ہو گیا کہ اگر آپ کے ملک کی مقتدرہ مضبوط ہو اور اس کی جڑیں مضبوط اصولوں پر استوار ہوں تو ایسا مشکل وقت بھی گزر جاتا ہے۔ کون سی ایسی بات ہے جو ٹرمپ نے نہ کہی ہو۔ تاہم اس بات کا اندازہ ہوا کہ پارٹی سسٹم کس طرح کام دکھاتا ہے۔ یہ ریپبلکن پارٹی کی اندر کی عصبیت تھی جس نے ٹرمپ کو دوبارہ قسمت آزمائی کا موقع دیا اس کے خلاف کوئی کارروائی کارگر نہ ہو سکی بلکہ پارٹی مزید تنگ نظر ہوتی گئی۔ لگتا تھا کہ اس تنگ نظری اور تعصب کے صدقے ٹرمپ دوبارہ میدان مار سکتا ہے۔ اس کا دوبارہ جیتنا گویا اس بات کا اعلان ہوتا کہ مودی کے ہندوستان اور ٹرمپ کے امریکہ میں کوئی فرق نہیں ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ دونوں طرف سے پورا زور لگایا گیا۔ یہ تک کہا گیا ٹرمپ کی جیت اس بات کا اعلان ہو گا کہ امریکی ریاست ناکام ہو گئی ہے۔ آج تک لوگوں کو اعتبار نہیں کہ ٹرمپ آسانی سے وائٹ ہائوس سے نکل جائے گا۔ ہمارے مشاہد حسین نے بڑا مزے کا نقشہ کھینچا ہے کہ ان کا ڈی جی آئی ایس آئی‘ اس کا جو بھی کام ہو گا‘ اسے کچھ کرنا پڑے گا۔آخر جائنٹ چیف کمیٹی کے چیئرمین اور تینوں مسلح افواج کے سربراہ چاروں اپنی چار ستارہ وردیاں پہن کر میڈل سجا کر وائٹ ہائوس جائیں گے‘ صدر ٹرمپ کو سلیوٹ کریں گے اور انہیں باہر کا راستہ دکھائیں گے۔ ہم بڑے زندہ دل لوگ ہیں۔ ٹرمپ کی ہر ہر حرکت کا مقابلہ اپنی صورت حال سے کرتے جاتے ہیں۔ خدا ہماری بھی مشکلیں آسان کرے اور دنیا کو بھی سکھ کا سانس نصیب ہو۔