لاہور ( خرم عباس )قاتل ڈورسے ہلاکتوں کے بعد لاہور پولیس نے مقامی پتنگ فروشوں کو اپنے شکنجے میں جکڑ تو لیا لیکن سپلائی لائن کو روکنے میں ناکام ہو گئی ۔ لاہور پولیس پتنگ بازی کو روکنے کے لیے متحرک ہو نا شروع ہوئی تو دوسری جانب پتنگ سازوں نے اپنا ساراکاروبا ر آن لائن شروع کر دیا ۔ پتنگ وڈور فروشوں نے لاہورمیں سازوسامان کے لیے دوگنا قیمت پر سپلائی شروع کر دی ۔ذرائع کے مطابق پتنگ اور ڈور تیار کرنے کا کاروبار صوبہ خیبر پختونخوا کے کئی اضلاع میں ہو رہا ہے ۔ پتنگ تیارکرنے کے لیے ہری پور اور پشاور کے گردونواح کے علاقوں میں کئی کارخانے بن چکے ہیں ۔ ذرائع کے مطابق چرخیاں نجی کورئیر کمپنی کے ذریعے ہی سپلائی کر دی جاتی ہیں جبکہ پتنگیں اور گڈے بیگ میں بند کرکے کارگو کے ذریعے نیازی اڈے اور لاری اڈے پہنچا دیئے جاتے ہیں ۔ذرائع کے مطابق 3800 روپے والی چرخی کی لاہور تک پہنچ سمیت صارف سے 6000 ہزار روپے لیے جاتے ہیں جبکہ ایک تاوے کا گڈا موقع سے 40 روپے تک ملتا ہے اگر سپلائی لاہور تک دی جائے تو صارف سے 70 روپے لیے جاتے ہیں ۔ اس گھنائونے کاروبار کو پولیس سے بچانے کے لیے مافیا نے واٹس ایپ ، فیس بک اور انسٹاگرام کا استعمال بھی شروع کر دیا ، مافیا شہر میں پوش اور متوسط علاقوں کے نوجوانوں سے واٹس ایپ میں رابطہ کرکے پتنگیں اور ڈوریں سپلائی کو ممکن بناتاہے ۔ ذرائع کے مطابق کارخانوں میں کام کرنے والے کاریگر و مزدو طبقہ زیادہ تر لاہور سے ہجرت کرکے ہری پور اور پشاور کے اضلاع میں منتقل ہو چکے ہیں ۔ پولیس نے رواں سال کے دوران پتنگ بازی اور پتنگ فروشی پر 8879 مقدمات درج کرکے 8939 ملزمان کو گرفتار کیااور کریک ڈائون کے دوران 96 ہزار869 پتنگوں جبکہ9 ہزار945 چرخیوں کو قبضے میں لیا،اس حوالے سے مقامی پولیس آفیسر سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے نام نہ ظاہر کرنے پر بتایا کہ پولیس پتنگ بازوں اور پتنگ فروشوں کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے ملزمان کو گرفتار کرتی ہے لیکن عدالتیں اگلے روز ہی ضمانتیں دے دیتی ہے جبکہ پولیس قبضے میں لیا ہوا سازوسامان بھی تلف نہیں کرتی جس کی وجہ سے پتنگ بازی کو روکنا مشکل ہو چکا ہے ۔ ذرائع کے مطابق پتنگ بازی کو روکنے کے لیے پولیس کو ڈرون کیمروں کی ٹیکنالوجی بھی دی گئی لیکن پولیس ڈرون کیمروں کے استعمال کا ابتک مؤثر استعمال نہیں کر سکی ۔ پولیس روایتی طریقہ استعمال کرتے ہوئے تھانہ نفری سے چاراہلکاروں کو ٹاسک دیکر گشت میں مصروف کر دیتی ہے ۔