گزشتہ روز پاکستان میں یوم استحصال کشمیرجوش و خروش سے منایا گیا ۔ اس موقع پر پاکستان کا نیا نقشہ جاری کیا گیا ۔ جس میں مقبوضہ کشمیر ، سیاچن ، سرکریک ، جونا گڑھ ، مناوادر کو بھی پاکستان کا حصہ واضح طور پر ظاہر کیا گیا اور فاٹا کو خیبرپختونخواہ کا حصہ مانا گیا ہے ۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ نیا نقشہ اقوام متحدہ میں پیش کیا جائے گا ۔ پاکستان کے تمام سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں نے نئے نقشے کی تائید کی ہے ، وزیرخارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی کی زیر صدارت ہونے والے آل پارٹیز اجلاس میں کہا گیا ہے کہ بھارت کشمیری عوام پر ظلم و بربریت کے پہاڑ توڑ رہا ہے۔ عالمی برادری کو آگے آنا چاہئے اور کشمیر کاز کی حمایت کرنی چاہئے ۔ مقبوضہ کشمیرکو پاکستان کے نقشے میں شامل کرنا موجودہ حکومت کا کریڈیٹ یا ڈس کریڈیٹ ؟ اس سوال کے علاوہ ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے کہ مقبوضہ کشمیر پاکستان کا حصہ ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ہم آج تک اسے کشمیر نہیں مقبوضہ کشمیر کہتے ہیں ، لیکن پاکستان کے نقشے میں تاخیر سے شامل کرنے کے ذمہ دار کون ہیں ؟ ایک بات یہ بھی ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے ساتھ ساتھ آزاد کشمیر بھی ہے تو آگے کے لئے لفظ آزاد کا کیا سٹیٹس ہوگا؟ ان تمام پہلوؤں پر یقینا غور کی ضرورت ہے۔ نئے سیاسی نقشے کے اجراء کے موقع پر اپنے بیان میں وزیرخارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ نیا نقشہ پاکستان کا نقشہ ہے، پاکستان نے اپنی جغرافیائی حدود کا تعین کر دیا ہے ، نیا نقشہ پاکستان کی ترجمانی کرتا ہے ، یہ وہ خواب ہے جو قائد اعظم نے دیکھا تھا ۔ نئے نقشے میں سیاچن کو پاکستان کا علاقہ دکھایا گیا ہے ۔ یہ کل بھی ہمارا تھا اور آج بھی ہمارا ہے ۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا ۔ اس لئے پاکستان کشمیریوں کی مسلسل حمایت کرتا آ رہا ہے ، گزشتہ روز بڑے شہروں تو کیا قصبوں اور دیہاتوں میں بھی یوم استحصال کشمیر منایا گیا اور کشمیریوں پر انڈیا کی جانب سے ڈھائے جانے والے مظالم کو اجاگر کرنے کیلئے بینرز ، آویزاں کئے گئے ، چھوٹے بڑے شہروں میں احتجاجی ریلیاں نکالی گئیں ۔ ہندوستانی وزیراعظم نریندر مودی کے کشمیر کے حوالے سے فیصلے کے تحت پیدا ہونیوالی صورتحال نے مسئلے کو گھمبیر بنا دیا ہے ۔ اس سے پہلے یہ کہاوت بن چکی ہے کہ کبھی نہ حل ہونے والا جو بھی مسئلہ ہو تو اس کے بارے میں کہہ دیا جاتا ہے کہ یہ مسئلہ کشمیر ہے ۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ کشمیر کشمیریوں کا ہے ‘ نسل کشی کی بجائے کشمیریوں کو ان کا وطن ملنا چاہئے ۔ ہندوستان کے حکمران دن رات کشمیر کے مسئلے کو بگاڑنے میں مصروف ہیں ۔ دوسری طرف احتجاج کا سلسلہ بھی جاری ہے ۔ احتجاجیوں پر ظلم تشدد کے ساتھ ساتھ ان کو قتل بھی کیا جا رہا ہے ۔ جبکہ پاکستان چاہتا ہے کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے عین مطابق مسئلہ کشمیر حل ہو ۔ آج پاکستان کے ساتھ ساتھ ہر کشمیری کی زبان پر یہ سوال ہے کہ کشمیر کا مسئلہ کب حل ہوگا ؟ کشمیریوں کی تین نسلیں اسی آس میں ختم ہو گئیں کہ کشمیر آزاد ہو اور ہم اپنی آنکھوں سے آزادی کی نعمت کو دیکھیں مگر کشمیرکا مسئلہ روز بروز بگڑتا جا رہا ہے‘ جس پر عالمی برادری کو فوری توجہ کی ضرورت ہے کہ خدانخواستہ کشمیر کے مسئلے پر دو ایٹمی ملکوں کے درمیان جنگ ہوئی تو یہ پوری دنیا کیلئے مہلک ہوگی ۔ کچھ حلقوں کی طرف سے یہ بھی کہا جا رہاہے کہ کشمیر کے مسئلے کا توڑ یہ ہے کہ سکھوں کی حمایت حاصل کی جائے ‘ حالانکہ یہ حماقت اور نادانی ہوگی کہ کشمیر کے سکھ حکمران کے غلط فیصلے کا عذاب کشمیری مسلمان جھیل رہے ہیں تو مسلمان ایک سوراخ سے دو بار نہیں ڈسا جاتا جبکہ سکھوں نے تو مسلمانوں کو 1818ء اور تقسیم کے وقت 1947ء میں مشرقی پنجاب اور تیسرا بدلہ مسلمانوں کی اکثریت کو نظر انداز کرتے ہوئے بھارت سے الحاق کی صورت میں کیا ۔ اس مسئلے پر حکومت کے ساتھ ساتھ پاک فوج کو بھی غلط مشورہ دینے والوں سے آگاہ رہنے کی ضرورت ہے ۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ جس طرح پنجاب پر سکھوں نے ناجائز قبضہ کیا ، اسی طرح کشمیر پر بھی رنجیت سنگھ نے غاصبانہ قبضہ کیا اور سکھ زبردستی کشمیر کے حکمران بن بیٹھے ، حالانکہ کشمیر میں اکثریت مسلمانوں کی تھی ، اس کے باوجود کشمیر کے مہاراجہ گلاب سنگھ نے ناجائز طور پر بھارت سے الحاق کا فیصلہ کیا ، اس دن سے لیکر آج تک کشمیری مسلمان سراپا احتجاج ہیں ، جانوں کے نذرانے پیش کر رہے ہیں اور قربانیاں دے رہے ہیں ۔ ایک سکھ مہاراجے کے بد نیتی اور مسلم دشمنی پر مبنی فیصلے نے پورے کشمیر کو مقتل گاہ بنایا ہوا ہے ۔ بارِ دیگر کہوں گا کہ ان سے ہوشیار رہنے اور رنجیت سنگھ کے تمام قبضہ جات کو واگزار کرنے کی ضرورت ہے ۔ کشمیر حل طلب مسئلہ ہے ، اقوام متحدہ نے کشمیر کو تصفیہ طلب مسئلہ قرار دیا ہے مگر بھارت ہمیشہ لیت و لعل سے کام لے رہا ہے، کشمیر کے ساتھ پانی کا مسئلہ جڑا ہوا ہے ، بھارت کی ہندو قیادت پانی کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی آ رہی ہے ، پہلے ہی چالاکی اور مکاری کے ساتھ پاکستان کے تین دریا لے لئے گئے ، حالانکہ دریا فطرت کا حصہ ہیں ، جیسا کہ ہوا، سورج کی روشنی نا قابل فروخت ہیں ، اسی طرح فطرت کے غماز دریاؤں کا سودا بھی انسانی جرم ہے ۔ پانی کا نام زندگی ہے اور زندگی کا نام پانی ہے ۔ عالمی برادری کو کشمیر اور پانی کا مسئلہ حل کرانا چاہئے کہ اس پر پاکستانیوں کو سخت تشویش ہے ۔ بارِ دیگر کہوں گا کہ آج پوری دنیا کہہ رہی ہے کہ کشمیریوں کو حق خود ارادیت ملنا چاہئے ، کشمیری مسلمان قربانیوں کی نئی تاریخ رقم کر رہے ہیں اور مودی کے ظالمانہ فیصلوں کے خلاف سراپا احتجاج ہیں ، مودی کے انسانیت سوز مظالم نے عالم امن کو شدید خطرات سے دوچار کر دیا ہے ، پاکستان بجا طور پر مظلوموں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کئے ہوئے ہے ۔ عالمی برادری کشمیری مسلمانوں کو ان کا حق دلائے کہ وہ کسی بھی صورت بھارت کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے ، اس کا سب سے بڑا ثبوت ان کی آزادی کے لئے جدوجہد ہے ۔