سب دامن پْر ہوسکتے ہیں۔ سارے ساغر بھر سکتے ہیں لیکن جب آدمی خود ہی اپنے راستے میں کھڑا ہو جائے۔جب اپنی ذاتِ گرامی سے فرصت ہی نہ ہو۔اچھے بھلے لوگ بھی جب گرداب سے بچنے کی کوشش نہ کریں گرہ بھنور کی کھلے تو کیونکر ، بھنور ہے تقدیر کا بہانہ کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے۔سپریم کورٹ کے فیصلے نے راستہ کھول دیاہے۔نسیم بیگ مرحوم کی اللہ مغفرت کرے اقوام متحدہ کے ادارے یونیسف میں پاکستان کے نمائندہ تھے۔عمر بھر رہے۔تحریک پاکستان کے کارکن تھے۔ عبدالستار خان نیازی کے رفیق ، ہمدم اور ہم نفس ،حمید نظامی کے ساتھی ، ان نوجوانوں میں سے ایک ،جن کے ایثارنے پنجاب میں مسلم لیگ کی کامیابی کو یقینی بنایا۔سبکدوش ہوئے تو تنہا تھے۔اہلیہ وفات پا گئیں ، اولاد تھی نہیں۔شام ہوتی تو لوگ کھنچے چلے آتے۔جنرل حمید گل ‘ڈاکٹر شعیب سڈل ،سابق وزیر خارجہ عبدالستار،کالم نگار جاوید چودھری اور اس نا چیز سمیت بہت سے۔ شہر میں موجود ہوتے تو ایس ایم ظفر اور مجید نظامی مرحوم بھی۔ طبیعت میں نفاست بہت ، میزبانی کے تقاضوں کا خوب ادراک ،غروبِ آفتاب کے بعد محفل جمتی تو دس گیارہ بجے تک جمی رہتی۔خود کم بولتے ، دوسروں کی زیادہ سنتے۔ پھر دیکھئے اندازِ گل افشانی ِگفتار رکھ دے کوئی پیمانہ ء صہبا مرے آگے پیمانہ و صہبا نہیں میز پہ سینڈویچ دھرے ہوتے ، پکوڑے اور جلیبیاں۔ سیاست سمیت ہر طرح کے متنوع موضوعات پر گفتگو جاری رہتی۔خیال و فکر کی وادی میں مجلس کبھی بھٹکتی تو ایک آدھ جملے سے راہ پر وہ لانے کی کوشش کرتے۔ایک دن بحث بہت الجھ گئی ، حال وہ ہوا جو آج کل سپہ سالار کی توسیع پر ہے۔ ایک جملہ کہا: ہمارے تجزیوں میں اور تو سبھی کچھ ہوتا ہے ، سارے عوامل اور سارے کردار مگر وہ بے پایاں ہستی ہی نہیں ، جس نے ہمیں پیدا کیا اور ہماری تقدیریں رقم کیں۔ سب دانا اس پر سنبھلے اور ڈھپ پہ آ گئے۔ عصرِ رواں کے عارف نے کہا تھا : ساری خرابی تجزیے کی ہوتی ہے۔ہر انحراف بنیادی طور پر ذہنی اور علمی۔ایک دن کسی بے چین کو قرآن کریم کی یہ آیت یاد دلائی : تم انسانوں کو صبر کیسے آئے ، تم جانتے جو نہیں۔ بائیس کروڑ آدمیوں کی یہ پوری قوم ہفتہ بھر ویرانوں میں بھٹکتی رہی ، کسی کو وہ بات نہ سوجھی جو اللہ کی کتاب میں لکھی ہے : جب تم الجھ جائو تو اہل علم کے پاس جائو ، راسخون فی العلم سے رجوع کرو، اخبار نویسوں ، دانشوروں اور سیاست دانوں کے پاس نہیں ، اہل ِ ذکر کے ہاں۔پروردگار کے نواح میں۔اس لئے کہ مومن اللہ کے نور سے دیکھتا ہے۔ ہمسایہ جبریلِ امیں بندۂ خاکی ہے اس کا نشیمن نہ بخارا نہ بدخشاں پوری انسانی تاریخ کے تناظر میں وہ سوچتا ہے۔ تعصبات سے آزاد ،اپنے مفادات سے بے نیاز ، اپنی ذات سے بلند، اپنے زمانے کے فیشن اور مرعوبیت سے پاک۔ماضی کو کھنگالتا ہے ، اس کا فہم رکھتا ہے۔سب نہیں تو اپنے عصر میں اٹھنے والے اکثر اہم موضوعات پر اس نے غور کیا ہوتا ہے۔ ا س بات پر وہ قادر ہوجاتا ہے کہ جنگلوں اور بیابانوں میں منزل کا تعین کر سکے ، مشعل فروزاں کر دے۔ ظلمت ِشب میں لے کے نکلوں گا میں اپنے درماندہ کارواں کو شہہ نشاںہو گی آہ میری ، نفس مرا شعلہ بار ہو گا 1930 ء میں مسلم لیگ کی قیادت مخمصے کا شکار تھی۔یوں لگتا تھا تحریک خلافت کی ناکامی اور طوفان کی طرح امڈتی کانگریس کے دبائو میں مہاتماگاندھی کے ساتھ مفاہمت کی طرف مائل ہے۔گھپ اندھیرے میں کسی سحر کا کوئی سراغ نہ تھا۔ ایسے میں اقبال اپنے گھر سے نکلے، لاہور ریلوے اسٹیشن سے گاڑی میں سوار ہوئے اور الہ آباد جا پہنچے۔اپنا وہ مشہور خطبہ دیاجو تاریخی سنگ میل ثابت ہوا۔مسلم لیگ کی مرکزی قیادت تو کیا الہ آباد میں پارٹی کے صدر اور سیکریٹری بھی وہاں نہیں تھے۔ادق انگریزی میں لکھے گئے اس خطبے میں اس مفہوم کا جملہ آپ نے کہا :میں تمہارا لیڈر نہیں لیکن اگر تم میری بات غور سے سنو گے تو آج میں تمہارا راستہ منور کردوں گا۔پھر انہوں نے برصغیر میں دو مسلم ریاستوں کا تصور پیش کیا۔ایک شمال مشرق یعنی آج کا پاکستان اور دوسرا بنگال کی مسلم اکثریت کا وطن۔ ڈاکٹر نذیر نیازی نے اقبال کے آخری برسوں کے احوال لکھے ہیں۔اس بات کا مفکر کو پوری طرح یقین تھاکہ پاکستان بن کے رہے گا ،حالانکہ قراداد ِ پاکستان منظور ہونے میں کئی برس باقی تھے۔ پوری پختگی سے اس رائے پر وہ قائم تھے کہ تمام مسلمانوں کو مسلم لیگ کے پلیٹ فارم پہ یکجا ہو جانا چاہئے۔کسی زمانے میں وہ مشہور رباعی انہوں نے لکھی تھی زدیوبندِ حسین احمد ایں چہ بوالعجبی است سرود برسر مبنر کہ ملت از وطن است بمصطفیٰ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست اگر با اونہ رسیدی تمام بو الہبی است دیو بند کے ( حضرت مولانا ) حسین احمد نے کیسی عجیب بات کہی کہ قوم وطن سے بنتی ہے۔مصطفی ؐ کا طریق یہ ہے کہ دین ہمہ گیر ہے۔ اگر یہ نہ ہو تو باقی ابوالہب۔ اقبال میں انکسار بہت تھا ، مروت بہت۔یہ رباعی اپنے کلام سے انہوں نے حذف کردی تھی مگر کیا حذف ہوئی کہ ایک ایک طالب علم کو یاد ہے۔موشگافیاں کرنے والے ہمیشہ موشگافیاں کرتے رہیں گے۔ہمیشہ ہر ایک سے روٹھے رہنے والے عاشق بٹالوی نے اقبال کے آخری دو برسوں کی جو تصویر بنائی ، ادھوری ہے۔انہوں نے ثابت کرنے کی کوشش کی کہ اقبال قائداعظم سے نا خوش تھے۔ جی ہاں پنجاب مسلم لیگ پر ان میں اختلاف تھا مگر اختلاف ہی ، انائوں کا تصادم نہیں۔ڈاکٹر نذیر نیازی کی گواہی معتبر ہے کہ وہ محمد علی جناح ہی کو واحد لیڈر سمجھتے تھے۔ رہا دیانت داری سے اختلاف ‘تو سرکارؐ کا فرمان یہ ہے کہ میری امت میں اختلاف باعثِ رحمت ہے۔ زندگی کو پرودگار نے بے کراں تنوع اور دائمی کشمکش میں پیدا کیا اور ہمیشہ ایسی ہی رہے گی۔ کتابوں کے کچھ کیڑے ، زمانے کے فیشن پر چلنے والے دانشوروں میں سے کچھ ، اقبال کو کم بتاتے ہیں ، کچھ قائد اعظم کو ، اگر وہ کم تھے توپورا کون ہے۔ قومیں بحرانوں سے گزرتی ہیں ، جنگوں سے ، حتی کہ عالمگیر جنگوں سے۔ زلزلے ہیں ‘بجلیاں ہیں ، قحط ہیں ، آلام ہیں کیسی کیسی دخترانِ مادرِ ایام ہیں اس نا چیز کا خیال تو یہ ہے کہ کوئی بڑا بحران نہیں ،فی نفسہ کوئی بڑا بحران نہیں۔ انائوں کا تصادم ہے۔وزیر اعظم کو اقتدار کا تسلسل چاہئے ، سپہ سالار کو توسیع ، اپوزیشن کو کچھ رعایتیں درکار ہیں۔ عدالت نے یہ بتایا ہے کہ اس کے دائرہ کار میں قدم نہ رکھا جائے۔ان میں کس کی کون سی تمنا ہے جو پوری نہیں ہو سکتی۔ سب دامن پْر ہوسکتے ہیں۔ سارے ساغر بھر سکتے ہیں لیکن جب آدمی خود ہی اپنے راستے میں کھڑا ہو جائے۔جب اپنی ذاتِ گرامی سے فرصت ہی نہ ہو۔اچھے بھلے لوگ بھی جب گرداب سے بچنے کی کوشش نہ کریں گرہ بھنور کی کھلے تو کیونکر ، بھنور ہے تقدیر کا بہانہ