حکومت پنجاب کی طرف سے ’’ہفتہ شانِ رحمۃ للعالمین‘‘ کے سلسلے کی سب سے نمائندہ تقریب بین المذاہب ’’عالمی مشائخ و علمأ کنونشن‘‘تھا،جس میں معتبر سجادہ گان، معروف علمأ،اکابر مشائخ،معاصر اسلامی دنیا کے مقتدر سکالرز اورمذاہب ِ عالم کے قائدین شریک ہوئے، جن میں بطورِ خاص آرچ بشپ سبسٹین فرانسس شاہ بشپ آف لاہور، گوردوارہ پربندھک کمیٹی کے مرکزی قائد سردار بشن سنگھ اور ہندولیڈر ڈاکٹر منور چاند شامل تھے:اگر کوئی غیر مسلم ہے اور پھر بھی میرے آقاؐ کی تعظیم اور آپ ؐ سے عقیدت و ارادت کا ناطہ اور پیرایہ رکھتا ہے،تو اس کا اچھا لگنا ایک فطری امر ہے۔مذاہب اورادیانِ عالم کے ان قائدین کی باتوں کے دوران مجھے دِ لُّورام کوثری یاد آئے،جوکہ ہندو شاعر تھا، نبی اکرم ؐکی محبت اُس کے قلب و نظر میں جاگزیں ہوگئی،پھر وہ حضورؐ کی نعتیں کہنے لگا۔نعت کِہنا اور نعت پڑھنا،بلکہ ادب و احترام اور عقیدت و ارادت کے دائرے اور کیفیت میں رہ کرنعت سننا…یہ تو بڑے کرم کی بات ہے۔ بعض اوقات کلمہ پڑھ کر بھی عشق و محبتِ رسول کی حلاوت نصیب نہیں ہوتی اور بعض اوقات۔غیر مسلم، جیسے کنور مہندر سِنگھ بیدی پُکار اُٹھا… ہم کسی دین سے ہوں،قائلِ کردار تو ہیں ہم ثناخوانِ شہ حیدر کرار تو ہیں نام لیوا ہیں محمدؐ کے،پرستار تو ہیں یعنی مجبور پئے احمد مختار تو ہیں عشق ہوجائے کسی سے کوئی چارہ تو نہیں صرف مُسلم کا محمدؐ پہ اجارہ تو نہیں خودبخود اُن کے تصّور سے سنور جاتا ہے ہم نے خود اپنے مقدر کو سنوارا تو نہیں محتسب حشر میں مانگے تیرے بندوں سے حساب تجھ کو محبوبِ خدا ﷺ یہ بھی گوارا تو نہیں کنور مِہندر سِنگھ بیدی سحرؔ شستہ لب و لہجہ کے شاعر، انڈیا کی سول سروس کے ممبر اور دہلی کے ڈپٹی کمشنر بھی رہے،نوے کی دہائی کے ابتدأ میں فوت ہوئے،لاہور میں آ تے تو پکّی ٹھٹھی سمن آباد میں قتیل شفائی کے مہمان بنتے،اسی طرح چوہدری دِ لُّورام کوثری ضلع حصار کے قصبہ نانڈری، قوم’’بشنوئی‘‘بمطابق :پوہ1939ء بکرمی،پیدا ہوئے،اپنے قبیلے کے اوّلین فرد تھے،جو لکھنے پڑھنے کی طرف راغب ہوئے، فارسی اور اُردو کے ساتھ انگریزی میں بھی اچھی دسترس کے حامل تھے،زمانہ طالب علمی ہی میں شاعری سے شغف ہوا، اور پھر مقدر نے یاوری کی،ساری زندگی حضور ﷺ کی نعتیں لکھتے رہے۔جس کا اظہار ازخود کرتے ہیں : بتائوں کوثری کیا شغل اپنا میں ہوں ہر دم ثناخوانِ محمدؐ اور پھر مزید کہتے ہیں: مجھے نعت نے شادمانی میں رکھا کہ مصروف شیریں بیانی میں رکھا جو ذرہ اُڑا شَہ کی گردِ قدم کا زمانے نے تاجِ کیانی میں رکھا انہوں نے’’رحمۃٌ لِّلعا لمین‘‘کے معنی شاید اسی طرح سمجھے اور خوب سمجھے: ’’رحمۃٌ لِّلعا لمین‘‘ کے حشر میں معنٰی کھلے خلق ساری شافعِ روزِ جزا کے ساتھ ہے دِ لُّورام کا حُسنِ خیال دیکھیے کہ وہ کہتا ہے کہ میرے ممدوح محمد مصطفی ﷺ کی’’شانِ رحمتـ‘‘ کے اصل مناظر اور مظاہر تو روزِ محشر میں دیکھنے والے ہونگے،کہ جب نوعِ بشر ی ہر دروازے سے مایوس ہو کر نبی رحمت کے درِ ا قدس پہ حاضر ہوگی۔امام بخاری اور مسلم نے اپنی صحیحین میں حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت کی ہے جس کے مطابق:جب لوگ میدانِ حشر میں جمع ہونگے،تو سورج ان کے سروں کے بالکل نزدیک ہوگا،لوگ ناقابل برداشت غم و اندوہ میں مبتلا ہونگے،طویل انتظار کے بعد،ان کو یار ائے صبر نہ رہے گا،بعد از مشاورت،وہ کسی ایسی ہستی کے پاس جانے کے خواہاں ہونگے،جوخداوندِ ذوالجلال کی بارگاہ میں ان کے لیے شفاعت کرے،چنانچہ وہ سب ابو الانبیا ٔحضرت آدمؓ کی خدمت میں حاضر ہونگے اور عرض گزار ہونگے :’’آپ آدم ہیں،ساری نسلِ انسانی کے باپ، اللہ کے دستِ قدرت سے تخلیق یافتہ، مسجودِ ملائک جن کو تمام ا شیاء کے نام سکھائے گئے۔اے ہمارے پدرِ بزرگوار! از راہِ عنائیت،ہمارے لیے بارگاہِ رب العزت میں شفاعت کیجئے،تاکہ اس تکلیف دہ امر سے ہمیں رہائی نصیب ہو۔آپ دیکھ رہے ہیں۔۔۔کہ ہم کس کرب و غم میں مبتلا ہیں؟حضرت آدم فرمائیں گے،میرا رب آج بہت غضبناک ہے،پہلے ایسا ہوا،اور نہ آج کے بعد وہ کبھی اتنا غضبناک ہوگا۔۔۔مجھے تو آج اپنی فکر ہے،شفاعت کی درخواست لے کر آج کسی اور کے پاس جائو۔پھر ساری مخلوق حضرت نوح علیہ السلام کے پاس حاضر ہو کر عرض گزار ہوگی،وہ بھی ایسا ہی جواب دیں گے۔اور فرمائیں گے اللہ تعالیٰ نے مجھے ایک دُعا مانگنے کا حق دیا تھا،جس کو منظورفرمایا جانا تھا، میں نے اپنا یہ حق استعمال کر لیا اور اپنی قوم کی بربادی کی دُعا مانگی۔اب میںلب کشائی کی جرأت نہیں کرسکتا، کسی اور کے پاس جائو،پھر ساری مخلوق حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس جائے گی،وہ بھی وہی جواب دیں گے۔پھر حضرت موسٰی علیہ السلام کی خدمت میں حاضرہوکر بصدادب عرض گزار ہونگے۔آپؑ کی معذرت کے بعد دنیا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی خدمت میں جائے گی،آپ مخلوق کو ایک ایسے دروازے کا پتہ بتائیں گے۔جہاں سے سا ئل کبھی محروم نہیں لوٹا۔آپ کہیں گے محمد عربی کی بارگاہِ بے کس پناہ میں حاضر ہو کر یہ فریاد کرو،حضورﷺ نے فرمایا ساری مخلوق دَر دَر کی ٹھوکر یں کھانے اور ہر دروازہ سے مایوس ہونے کے بعد میرے پاس آکر فریاد کر ے گی،تو میں انہیں جواب دونگااَنَالَھَا،اَنَالَھَا۔ہاں مجھے یہ حق پہنچتا ہے کہ میں اپنے رب کی بارگاہ میں شفاعت کروں،یعنی اب تمہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔رحمت ِ عالمین ﷺ فرماتے ہیں کہ میں وہاں سے چل کر،عرشِ الہٰی کے پاس حاضر ہوں گا اور اپنے رب سے شفاعت کرنے کی اجازت طلب کروں گا۔ اور مجھے اجازت مرحمت ہوگی۔اور میں اپنے رب کی ایسی ثنا و ستائش اور ایسے محامدو محاسن بیان کروں گا کہ اس طرح حمد وثنا پہلے بیان نہیں ہوئی ہوگی۔اور میں دیر تک سجدہ ریز رہوں گا۔اور پھر اللہ تعالیٰ کی طر ف سے ندا آئیگی : اے میرے محبوب!اپنا سرِ مبارک سجدہ سے اُٹھائو اور مانگو، جو تم مانگو گے میں عطا کروں گا۔ آپ ﷺ شفاعت کریں، جس کی آپﷺ شفاعت کریں گے،اس کے بارے میں،آپ ﷺ کی شفاعت قبول ہوگی۔ دِ لُّورام کوثرــؔی مزید کہتا ہے کہ: لے کے دِلُّوؔرام کو حضرت گئے جنّت میں جب غُل ہوا،ہندو بھی محبوبِ خدا کے ساتھ ہے دِ لُّورام کہتا ہے کہ آپ ﷺکی شانِ کریمی۔۔۔ کہ مجھ جیسا سیا ہ کار بھی آپ ﷺ کے قدموں سے لِپٹ کر جنّت میں چلا جائے گا۔دِ لُّورام کے جنّت میں جانے کے دعوے سے شور بر پا ہوگیا کہ جنت تو حضور ﷺ کے دیوانوں کے لیے ہے ۔ایک ہندو،بغیر کلمہ پڑھے کیسے جنّت میں چلا جائے گا ۔ لیکن حضور ﷺ کی محبت کا فیض دِ لُّورام کوعطا ہوا، چنانچہ سال1929ئ،عمر کے آخری حصّے میں دِلُّورام دائرہ اسلام میں داخل ہو کر،کوثر علی کوثری ہو گئے،اس نے سیّد حبیب مدیرِ’’سیاست‘‘لاہور کو،حیدر آباد دکن سے ایک خط لکھ کر،اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کیا،اور لکھا،میں دنیا کے تمام ادیان اور مذاہب کا خوب اچھی طرح مطالعہ کرنے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ خدا کا آخری اور سچّا مذہب اسلام ہے ۔