خواتین کو اللہ نے بیشتر صفات سے مالا مال کیا ہے۔ دنیا کی اس مخلوق میں ایک خوبی یہ ہے کہ اگر دھونس دباؤ کے بغیر انہیں اپنی صلاحیت دکھانے کا موقعہ دیا جائے تو یہ گھر کو جنت اور معاشرے کو گل وگلزار بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتی ہے۔عورت کتابیں پڑھنے اور ڈگریاں لینے کے بغیر ہی تجربے سے اقتصادی ماہر بن جاتی ہے۔ بجٹ میں رہ کر خریدو فروخت یا بچت کرنا کوئی اس سے سیکھے۔ لیکن زمانہ گواہ ہے کہ اس کی صلاحیتوں کو نکھارنے کی بجائے بکھیرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ اس خوبی سے سرشار ٹھیکیدار ہر ایک مذہب میں موجود رہے ہیں۔جو خواتین گھر چلانے میں ماہر ہوتی ہیں وہ اپنے ملک، قوم اور دفتر کو چلانے میں ناکام کیسے ہوسکتی ہیں؟ پھر جب ملک و قوم کسی آفت میں گھرا ہوا ہو تو اس کی سوجھ بوجھ، منصوبہ بندی اور حکمت عملی مردوں کو پچھاڑ دیتی ہے۔ کورونا وائرس سے اس وقت پوری دنیا جوجھ رہی ہے مگر یقین کیجیے کہ جن ملکوں میں عورتیں سربراہ ہیں وہاں نہ صرف اس پر قابو پایا گیا ہے یا اموات کی شرح نفی کے برابر ہے بلکہ اب یہ دوسرے ترقی یافتہ ملکوں کو امداد اور ادویات بھیج رہی ہیں۔ اس کا ذکر آپ میڈیا چینلز پر ذیادہ محسوس نہیں کریں گے۔ ظاہر ہے نصف آبادی کو اتنی اہمیت کیا دینا جب دنیا کو بیشتر مرد حکمرانوں کے اندرونی مسائل، جنگی جنون اور انتشار پیدا کرنے کی کارروائیوں سے فرصت ہی نہیں ملتی۔جرمنی کی چانسلر اینگلا مرکل نے وائرس کے ٹیسٹ کرنے کی ایسی زبردست مہم چلائی کہ ان کے پڑوسی حکمران اب بھی ان کی نقل اتارنے میں شرم محسوس کر رہے ہیں حالانکہ ان پڑوسی ممالک میں عورت کے مساوی حقوق و حیثیت پر دن رات میڈیا چیختا رہتا ہے۔ مگر مجال ہے کہ مرکل کی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر کورونا وائرس کے ٹیسٹ کروانے کی مہم شروع کر کے اس بات کا اعتراف کریں گے کہ وہ ایک عورت کی کارکردگی سے محظوظ ہوئے ہیں۔ خدا کا خوف کریں مرد حکمران اتنے فراخ دل نہیں ہوتے۔ مرد چاہے مغرب کا ہے یا مشرق کا، عرب کا ہے یا عجم کا، عورت کے بارے میں بیشتر کی سوچ میں اتنا زیادہ فرق نہیں ہوتا ہے۔ اس سوچ میں غریب اور امیر ملکوں میں تفاوت بھی نہیں ہوتی۔ حضرت آدم علیہ السلام کو جنت سے نکلنے کی سزا کیوں ملی؟ یہ معاملہ تو ازل سے ہی حضرت حوا کے کھاتے میں ڈال دیا گیا ہے۔ہاں شکر ادا کریں کہ مشرق کی عورت ابھی استحصال کے ان مراحل سے نہیں گزری ہے جن سے ترقی یافتہ مغرب کی عورت آج کل گزر رہی ہے۔ وہ اب گھر سے بھی محروم ہوتی جا رہی ہے۔ مشرقی عورت کی بھی کئی داستانیں ہیں جن پر بات کرنا منع ہے۔ یہ ایک بڑا اہم موضوع ہے اس پر تفصیل سے بات کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ جو سامنے دکھتا ہے وہ ہمیشہ وہ نہیں ہوتا۔ پس پردہ جو ہوتا ہے وہ بعض اوقات دکھانے کے لائق بھی نہیں ہوتا۔ جیسے معروف مصنف اوسکر وائلڈ کہتے ہیں 'دور سے گھاس سر سبز و شاداب دکھتی ہے مگر جب قریب جا کر آس پر بیٹھ جاتے ہیں۔ نیوزی لینڈ کی جیسنڈا آرڈرین نے اپنی حکمت عملی سے نہ صرف اپنے لوگوں کو کورونا کے عذاب سے بچایا بلکہ دوسرے ملکوں کو اس سے بچاؤ کے طریقے بتا دیے۔ پھراس سانحے پر بھی نظر ڈالیں جب ایک ’دہشت گرد‘ نے مسجد میں مسلمانوں کو چند برس پہلے عبادت کے دوران تشدد کا نشانہ بنایا۔ بردباری اور جرت مندی کا مظاہرہ کر کے اس خاتون حکمران نے نہ صرف مسلمانوں کو احساس تحفظ کی یقین دہانی کروائی بلکہ ان جمہوری ممالک کا دعوی کرنے والے مرد حکمرانوں کو بے نقاب کیا کہ جو معصوم بچوں اور شہریوں پر بربریت کر کے انہیں ہی دہشت گرد قرار دیتے ہیں۔تائیوان، آیس لینڈ، فن لینڈ، ناروے یا ڈنمارک کا کیا ذکر کریں جہاں کی خواتین حکمرانوں نے اپنے معاشرے پر ایسی خوبصورت چھاپ ڈالی ہے کہ وہ گھر گرہستی کے ساتھ ساتھ ملک و قوم کی تقدیریں بدل رہی ہیں۔چند روز پہلے پاکستانی ریلوے کی سیدہ مرضیہ زہرا کی وہ خبر پڑھی کہ مرد ملازمین حضرات نے ان کے اعلیٰ عہدے پر فائز ہونے پر اس قدر اعتراض جتایا کہ چند گھنٹوں کے بعد تقرری کے آڈر کو واپس لینا پڑا۔ ظاہر ہے کہ قومی میڈیا نے اس کا زیادہ نوٹس نہیں لیا اور لیتے بھی کیسے...ایک عورت کی پروموشن یا ڈیموشن کو اتنی اہمیت کیا دینا۔ پاکستان میں تو اس وقت بھی فتوے جاری ہوئے تھے جب بینظیر بھٹو ملک کی سربراہ مقرر ہوئی تھیں۔مجھے مرضیہ کی خبر سن کر بینظیر بھٹو کی وہ بات یاد آئی جب میں پچانوے میں ان سے ایک انٹرویو کے لیے اسلام آباد دفتر پہنچی۔ اس وقت ان کی دیگر جماعتوں کے سربراہان کے ساتھ میٹنگ ہو رہی تھی۔ انٹرویو کے دوران میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کی میٹنگ میں سارے مرد سیاست دان تھے کیا یہ سب واقعی آپ کو دل سے حکمران مانتے ہیں؟ بینظیر کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ آئی اور کھڑکی کی طرف دیکھ کر کہنی لگیں: ’وقت ایک بے رحم چیز ہے جو انسان سے سب کچھ کرواتا ہے۔ مجھے اس بات سے خوف نہیں کہ کیا ملک کے سیاست دان مجھے حکمران تصور کرتے ہیں یا نہیں مجھے خوف اس وقت ہوتا ہے جب میٹنگ میں بیٹھ کر ان کے چہروں کو پڑھنے کی کوشش کرتی ہوں۔ کچھ چہروں پر تعصب اور تذلیل کا عنصر دیکھ کر اپنی لمبی عمر کی دعا کرتی ہوں۔ میں اکثر سوچتی رہتی ہوں کہ مردوں کو عورتوں سے اتنا خوف کیوں ہے اور یہ خوف گھر کے مردوں سے شروع ہوتا ہے۔‘ یہ کہتے کہتے انہوں نے بازو پر لگی تعویز کی پٹی کو دیکھا اور بے اختیار ہنسنے لگیں۔میں اس بات پر یقین نہیں رکھتی ہوں کہ عورت کی بہادری، دانش مندی یا بردباری جیسی صلاحیتوں کو مسترد کرنے کا تعلق مذہب سے ہے جیسا کہ مغربی ملکوں میں اس کا پروپیگینڈا کیا جاتا رہا ہے۔ یہ مسئلہ دراصل ان مردوں کی سوچ سے جڑا ہوا ہے جو عورت کو چاردیواری کی قیدی تصور کرتے ہیں اور جائز حقوق کے ان کے مطالبے کو بے راہ روی تعبیر کرتے ہیں۔ مرد، مغرب میں ہوں یا مشرق میں، عرب یا عجم میں، کاش اس دور کا بخوبی مطالعہ کرتے جب عورتیں تجارت سے لے کر قبیلوں کی رہنمائی اور جنگوں کے دوران اپنے کاروانوں کی سیاسی قیادت سنبھالا کرتی تھیں۔ مگر کیا کریں ہمارے بیشتر نام نہاد مذہبی رہنما یہ سب نہیں پڑھاتے۔اللہ تعالیٰ نے جس مخلوق کو اپنے رحم میں بچہ رکھنے کی صلاحیت دی ہے، اس کی پرورش کا ہنر سکھایا ہے، گھر کو خوش گوار بنانے کا حوصلہ دیا ہے تو کیا وہ دفتر، معاشرے یا ملک کو چلانے کی اہلیت نہیں رکھتی ہوگی؟ اور پھر عورتوں سے اتنا خوف کیوں؟ ذرا آپ اپنے ہی گھر کی عورتوں کی صفات گن لیجیے۔ اگر آپ نے گھر کی عورت کی بے پناہ صلاحیتوں کا اعتراف نہ کیا تو میں اس موضوع کو دوبارہ کبھی نہیں چھیڑوں گی۔ ٭٭٭٭٭