سوچا تھا،اس بار اس معاملے کا تذکرہ نہ کیا جائے ،تو اچھا ہے۔ اگرچہ عورت مارچ کے دوران ایسے مناظر دیکھنے میں آئے جنہیں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ ماضی میں ایسا ہوتا آیا ہے کہ جب کوئی منہ پھٹ بے باک ہونے کی کوشش کرتا تھا، تو میں بھی ایک آدھ بار نہایت شائستہ انداز میں جو ادب و تہذیب نے سکھا رکھا ہے‘ ایسی بات دوٹوک انداز میں کہہ جاتا تھا۔ ایسے میں بڑے بڑوں کا پسینہ چھوٹتے دیکھا ہے۔ اس بار لگ یہ رہا تھا کہ اشتعال انگیز بینر اس لئے بنائے جاتے ہیں، تاکہ معاشرے میں فساد پیدا ہو۔ یقین جانیے کچھ ایسی باتیں ہیں، جو بیان بھی نہیں ہو سکتیں۔دوسرے شہروں کی مجھے خبر نہیں مگر لاہور میں تو پریس کلب کے سامنے یہ سب کچھ ہوا۔ اس میں جھوٹ کی آمیزش نہیں ہو سکتی۔ زیر جامہ لباس ہی نہیں،اس سے بھی آگے زیر جامہ غیر لباس کی بھی تصویریں دیکھ کر لکھا گیا کہ اس پر 17فیصد ایکسائز ڈیوٹی ختم کی جائے۔ بیباک ہونا ہے تو ابھی ہو لیتا ہوں، مگر فی الحال اتنا کہتا ہوں حیا کرو‘ شرم کرو اور بھی بعض نعرے ایسے ہیں، جو ناقابل یقین ہیں۔ اس پورے معذرت خواہانہ رویے کے باوجود میں اس پر کیوں لکھ رہا ہوں۔ اس کی وجہ ہمارے سپر سٹار وسیم اکرم کی آسٹریلوی نژاد اہلیہ کا بیان ہے جو انہوں نے اس بات پر دیا کہ ایک لڑکی کو اظہار محبت کے جرم میں یونیورسٹی سے کیوں نکالا گیا۔ مجھے معلوم ہے کلچر کے فرق کی وجہ سے وہ یہ بات نہیں سمجھ سکتیں، تاہم اتنی سی بات کہنے کا حق تو مجھے بھی ہے کہ لڑکی کے نکالے جانے پر تو اعتراض ہے، مگر اس کے ساتھ جو لڑکا نکالا گیا، اس سے آپ کو کیوں کوئی ہمدردی نہیں ہے،اتنی سی بات سمجھنے کی ہے کہ بعض باتیں جنسی تعصبات سے ماورا ہو کر بھی سمجھی جاتی ہیں۔ میں نے عرض کیا کہ فی الحال میں زیادہ بے باکی نہیں دکھانا چاہتا، وگرنہ یقین دلاتا ہوں کہ پسینے چھوٹ جائیں گے۔ اب مجھے بتائیے کہ ان نعروں سے کہاں عورت کے حقوق کا پرچار ہوتا ہے۔ یہ کوئی اور ایجنڈہ نہیں ہے۔ میں نے اس کی ویڈیو دیکھی ہیں۔ اللہ بھی سن لے۔آزادی رسول بھی سن لے۔آزادی اقبال بھی سن لے۔آزادی اولیاء بھی سن لیں۔آزادی عمران بھی سن لے۔آزادی باپ بھی سن لے۔آزادی ماما بھی سن لے۔آزادی چاچا بھی سن لے۔آزادی مجھے بتائیے ان نعروں کا ایجنڈہ کیا ہو سکتا ہے۔اللہ ‘رسول ‘ اولیاء ‘اقبال‘ ماں‘ باپ سب کے خلاف اہم بغاوت ہے یا کیا ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے یہ خاندانی نظام کو تباہ کرنے کے لئے ہے۔ مگر یہ تو اس سے بھی زیادہ تہذیبی اقدار کو ملیا میٹ کرنے کی تدبیریں ہیں۔ میں مذہب کی بات نہیں کرتا۔مگر تہذیب و ثقافت کے خلاف سازش اور فیملی سٹرکچر کی بربادی کی تدبیریں معاشرے کی ٹوٹ پھوٹ کی خواہش کے علاوہ اور کیا ہے۔ حقوق نسواں کی تاریخ نئی نہیں ہے۔ اس کے مگر کئی روپ ہیں۔ مغرب کو چھوڑیے،ہمارے ہاں بہت بحثیں رہی ہیں۔اقبال نے آسمانوں کی سیر کرتے ہوئے جس دوشیزہ کو دیکھا تھا، اس نے نبوت کا دعویٰ کر رکھا تھا۔ اس کی تفصیل لکھ چکا ہوں۔ قرۃ العین طاہرہ کے حوالے سے اقبال نے کیا خوبصورت اور معنی خیز بحث کی ہے۔سرسید سے لے کر ممتاز علی اور اقبال سے لے کر آج تک کے ہم کن کن مباحث سے گزرے ہیں‘ میں گاہے گاہے ان کا تذکرہ کر چکا ہوں۔ہمارے ادب میں جب اس کا رواج ہوا تو وہ نام نہاد سول سوسائٹی کی پیدا کردہ تحریک تھی۔ اس تحریک کی ایک نامور چمپیئن سے میں نے عرض کیا کہ کب نثائی تنقید کا ہمارے ہاں کیا رواج ہوا۔ وہ اس پر ایک کتاب لکھ چکی ہیں۔ کہنے لگیں نوے کے عشرے کے آغاز میں۔ جی وہی زمانہ ہے جب سردجنگ کے خاتمے کے بعد مغرب نے ہمارے سارے معاشرے کو گود لے لیا تھا۔میں نے ان محترم خاتون سے عرض کیا‘ اس سے بارہ تیرہ سال پہلے میرا یہی ایک مضمون آپ چھاپ چکی ہیں۔ جس میں اس خاکسار نے سلیم احمد ہی کے ایک فقرے پر بنیادی سوال اٹھایا تھا۔سلیم احمد نے لکھا تھا ،عورت کی طرح شاعری بھی پورا آدمی مانگتی ہے۔اس پر میں نے سوال اٹھایا تھا کہ اگر شاعر خود عورت ہو تو وہ کیا مانگے گی۔ حضور والا‘ ہم ان بحثوں سے بہت گزرے ہیں۔ میرا یہ پختہ یقین ہے کہ کسی معاشرے کا مزاج اس مساوات سے بنتا ہے، جو اس معاشرے میں عورت اور مرد کے درمیان قائم ہو جاتا ہے۔ مغرب کی عورت کو لمبی لڑائی لڑنا پڑی، تو اس کی وجوہ ہیں۔ہمارے ہاں دور جاہلیت میں بہت کچھ تھا‘اسلام کا انقلاب جن اہم اقدامات کا داعی بن کر آیا،ان میں ایک عورت کو اس کے حقوق دلانا تھا۔تفصیل میں نہیں جانا چاہتا۔ اتنا عرض کر دوں ہمارے ہاں کبھی یہ تصور نہیں رہا ،جو مغرب میں تھا کہ جانوروں کی طرح عورت کی بھی روح نہیں ہوتی۔ مغرب کی عورت اپنی روح کی جنگ لڑ رہی تھی اور اس نے خوب لڑی۔ وہاں تو عورت کو کبھی جائیداد میں مالکانہ حقوق نہ تھے۔اس کی شادی ہو جاتی تو اس کا سب کچھ اس کے شوہر کا ہو جاتا۔ یہ مغرب ہی میں ہوا کہ عورتوں نے اپنی تخلیقات مردوں کے نام سے لکھیں۔اس کی تقلید میں ہمارے ہاں بھی ابتدا میں ایسا ہوا۔مگر ہمارے ہاں تو جلد ہی قرۃ العین حیدر‘ عصمت چغتائی‘ ممتاز شاہین‘ خدیجہ مستور‘ واجدہ تبسم پیدا ہو گئیں۔ بلکہ حجاب امتیاز علی تو عورتوں کے حقوق کی ترجمان رہی۔ہمارے بچپن میں آزادی نسواں کا بہت تذکرہ تھا۔کوئی امریکہ سے تحریک اٹھتی۔کوئی فرانس سے ان کے پیچھے ایک کہانی ہوتی۔ جب سنگل وومن کے معاملات طے ہو جاتے ،تو اس کے ساتھ تحریک بھی مر جاتی۔ تاہم ان میں بعض میں فکری جان تھی جسے simone de beauvoir کے سیکنڈ سیکس آج بھی اہم بائبل گنی جاتی ہے۔ یہ ایک فلسفیانہ بحث تھی ان نام نہاد این جی اوز نے اسے کیا سے کیا بنا ڈالا۔ان فیشن ایبل تحریکوں کے علاوہ ایک عمومی بحث چلتی رہی۔ امریکہ کے دلدادہ اسے وومن لب(آزادی نسواں۔وومن لبریشن) کا نام دیتے تھے‘ جواب میں اشتراکی دوست اس کی نفی کرتے تھے‘وہ چین سے نئی اصطلاح بھی لائے تھے۔ معاشی انجام بدلنے کے ساتھ یہ سب باتیں سامنے آئیں۔ مغرب کی عورت کو ووٹ کا حق ملے بھی ابھی کوئی سوسال ہوئے ہیں۔ہم یقینا حقوق نسواں کے قابل ہیں‘ ایسی آزادی نسواں تو پہلے یہ بتا دو آپ اس کی کون سی شکل کے قائل ہیں۔ اتنا تو بتا دو ۔جو آپ سڑکوں پر دکھا رہی ہیں‘اس پر غور کرو۔ ایک بار جب ضیاء الحق کے زمانے میں حدود آرڈی ننس نافذ ہوا تو بعض لڑکیاں باہر نکل آئیں، جو زور دے کر کہہ رہی تھیں۔ہم زنا آرڈیننس کو تسلیم نہیں کریں گے۔ میں نے کہا صرف اتنا بتا دو کہ ا س کام پر تجھے کس ’’مرد‘‘ نے ڈالا ہے۔ یہ سوال میں اب نہیں پوچھوں گا۔ میں نے کہیں لکھ رکھا ہے کہ عورت بننا اتنا مشکل ہے کہ میں نے بڑی بڑی عورتوں کو مرد بنتے دیکھا ہے۔