یادش بخیر،خان صاحب کے یوں تو بہت سے وعدے تھے! یہ بھی انہی کا کمال ہے کہ گزشتہ تین سال میں قوم ’’ترے وعدے پر جیے ہم‘‘ کی تصویر بنی رہی اور زندہ رہی۔ انہی میں ایک وعدہ ٹورازم کے فروغ کابھی تھا۔ یہ وعدہ جہاں نہال کرتا تھا وہیں ہم جیسوں کا خون خشک بھی کرتا تھا۔کیونکہ ہمارے ہاں اب تک کا تجربہ یہ ہے کہ جہاں عام لوگ تفریح کی غرض سے پہنچ جاتے ہیں وہاں قدرتی خوبصورتی ختم ہوجاتی ہے۔ بے دردی سے پہاڑ کاٹ کر ہوٹل بنائے جاتے ہیں، سبزے کو تباہ کیا جاتا ہے،گندگی پھیلائی جاتی ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ سیاحت سے متعلق کاروبارسے وابستہ لوگ اس سیاحتی فروغ کو ناجائز منافع خوری کا ذریعہ بنا لیتے ہیں، حالانکہ کسی علاقے میں ٹورازم کا بڑھنا خودبخود وہاں کی مارکیٹ کوبے تحاشا بڑھاوا دیتا ہے،ساتھ ساتھ مقامی افراد کو روزگار ملتا ہے، زمین کی قیمت بڑھتی ہے۔مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں اوپر سے نیچے تک یہ ذہن بن گیا ہے کہ مال کمانا ہر طریقے سے جائز ہے۔ یہ بات تو جیسے کاروباری اخلاقیات میں شامل ہوگئی ہے کہ کسٹمر کی مجبوری سے فائدہ اٹھانا عین حلال ہے۔ رمضان المبارک میں قیمتیں گھٹانے کی بجائے بڑھا دینا اسی اخلاقیات کا مظہر ہے۔یہ شرفِ انسانی کے خلاف اور گِدھ جیسی خاصیت ہے۔ کم و بیش یہی کچھ ہمارے سیاحتی علاقوں میں ہوتا ہے خصوصاًمری اور گلیات کا علاقہ جہاں سال بھر سیاحتی سرگرمیاں جاری رہتی ہیں اور گرمی سردی کی شدت کے دنوں میں تو یہ جگہیں کھچاکھچ بھر جاتی ہیں۔اسی لیے ہوٹل یہاں کی سب سے نمایاں صنعت ہے۔عموماً دیکھا گیا ہے کہ اس کاروبار سے وابستہ زیادہ تر لوگ تندہی سے گاہکوں کو پھانسنے کے بعد من مانے کرائے وصول کرتے ہیں جبکہ دعویٰ کی گئی سہولتیں بھی مہیا نہیں کی جاتیں۔صفائی اور کھانے کا ناقص معیار، پانی اور بجلی سے محرومی عام شکایات ہیں۔ چند ماہ پیشتر تو جو واقعہ پیش آیا اس نے ملک بھر کو یہاں کے کاروباری طبقے کی ذہنیت سے واقف کروا دیا۔ برفباری کے طوفان میں یہاں کئی گاڑیاں پھنس گئیں، اور دنیا نے دیکھا کہ گاڑیوں میں موجود سردی کی شدت سے بچنے کے خواہش مند ،یاکھانے کے لقمے اور پانی کے گھونٹ کو ترستے ہوئے لوگ ہوٹل مالکان کے انہی غیر انسانی رویوں کا شکار بنے۔ یہ اور بات کہ عام افراد نے جہاں بھی ممکن ہوا بے لوث مدد کی، کھانا اور پانی بھی پہنچایا اور وہاں سے نکلنا بھی ممکن کیا۔یہ نہ ہوتا تو شاید انسانیت پر سے اعتبار ہی اٹھ جاتا۔ بہرحال ، اچھی بات یہ ہوئی کہ یہ واقعہ ہماری انتظامیہ کو جگانے کا باعث بن گیا۔ کوئی دو ماہ پہلے ’’مری ٹورازم پولیس‘‘ کے نام سے راولپنڈی پولیس نے ایک فورس بنائی جس کا بنیادی کام مری کے علاقے میں سیاحوں کا استحصال روکنا ہے۔ہم نے اس بار اپنے وزٹ میں اس پولیس کو وہاں کارفرما دیکھا۔ایس پی کوہسار کے تحت اس فورس کے جوان سیاحوں کو سہولت فراہم کرنے کے لیے کئی مقامات پر کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ نظر رکھتے ہیں کہ ’’ایجنٹ مافیا‘‘ یہاں آنے والوں کو پریشان نہ کرے، خواتین کی ہراسگی کے واقعات پیش نہ آئیں اور راستوں کی معلومات پوچھنے والوں کومہیا کی جائیں۔ ٹریفک کے بہاؤ کو رواں رکھا جائے،کسی حادثے یا ایمرجنسی کی صورت میں ، جس کا سیاحوں کی کثیر تعداد کے باعث ہر وقت امکان رہتا ہے،فوری طور پہ ریسکیو کو بلایا جائے ، جبکہ ایک اپنی ہیلپ لائن بھی مہیا کی گئی ہے۔ ڈیڑھ سو نفری کی یہ فورس ریگولر پولیس میں سے نہیں بنائی گئی بلکہ بطور خاص بھرتی کی گئی ہے اور انہیں خصوصی تربیت دی گئی ہے جس میں برفانی حالات سے نبرد آزما ہونا بطور خاص شامل ہے۔اپنا کام انجام دینے کے لیے ان کوایک بڑی بس، چندموبائل کاروں سمیت بارہ بائیکس ،اور دو گھڑ سواروں سے لیس کیا گیا ہے۔مزید اچھی بات یہ کہ خواتین کے تحفظ کے لیے اس دستے میں بیس خواتین اہلکار بھی شامل ہیں۔یہ ایک پائلٹ پراجیکٹ ہے جس کو مزید سیاحتی علاقوں تک وسعت دینے کا بھی منصوبہ ہے۔ اس اچھے اقدام کو مزید فائدہ مند بنانے کے لیے بہتر ہو گا اگر ہوٹل مافیا کے ہاتھوں سیاحوں کا استحصال روکنے کے لیے ہوٹل کرایوں کی بھی کوئی متفقہ ریٹ لسٹ بنا کر اس کی پابندی کروائی جائے۔ دنیا بھر میں ہوٹلوں کی ریٹنگ ہوتی ہے جس کے مطابق وہ سہولتوں کے ایک طے شدہ معیار کے عوض کرایہ لیتے ہیں اور انہیں کچھ اصول و ضوابط کا پابند کیا جاتا ہے۔ اگرچہ لبرل اکانومی کے مذہب میں اشیا یا خدمات کی قیمتیں طے کرنا گناہِ عظیم ہے ہم نہ جانے کس لبرل اکانومی کا حصہ ہیں جس میں فائدہ صرف پیسے اور تعلقات والے کو ہوتا ہے۔عام آدمی بے چارا ہر صورتحال میں خسارے ہی میں رہتا ہے۔ اگر ہمارے اربابِ اختیار واقعی پاکستان میں ٹورازم کے فروغ میں سنجیدہ ہیں تو انہیں اس ضمن میں بڑی تفصیلی قانون سازی کرنی ہوگی جس کا محورومرکز عام آدمی ہو۔نیزتعمیرات کو محدود کیا جائے اور جنگلات اور جنگلی حیات کی حفاظت کی جائے۔ اس کے ساتھ یہ بھی اہم ہے کہ عام آدمی کوسیاحت کی تہذیب سکھانے کے لیے ہمارے متعلقہ اداروں کو محنت سے کام کرنا ہوگا۔اس کے لیے قومی جذبے کو بھی کام میں لایا جاسکتا ہے اور سِوِک سنس بیدار کرنے کے لیے میڈیا کے ذریعے تربیت کی جاسکتی ہے۔ ماحولیات کے تحفظ کے لیے چھوٹے چھوٹے مؤثر پیغام عام کیے جائیں، قومی شخصیات،دانشوروں،سوشل میڈیا انفلوئنسرز کے ذریعے مہمات تشکیل دی جائیں جن میں عام لوگ شامل ہوں۔گزشتہ کچھ سال سے گلیات ڈیویلپمنٹ اتھارٹی نے مکش پوری اور پائپ لائن پر ٹکٹ لگایا ہے جس سے ان دونوں مقامات پر صفائی برقرار رکھنا ممکن ہؤا ہے۔ اس بار کے وزٹ میں یہاں کی حالت دیکھ کر خوشی ہوئی۔ بہتر ہے کہ ٹورازم پولیس کو بھی اپنی حدود میں صفائی برقرار رکھنے کے اختیارات اور ضروری سہولتیں مہیا کی جائیں۔