بات کرتے ہوئے بے ربط ہوا وہ اکثر اس کی نفرت میں محبت کے بھی پہلو آئے میں نے تو اڑتے پرندوں سے سبق سیکھا ہے کام آئے تو فقط اپنے ہی بازو آئے یہ محبت اور سعی کی داستان کھولنے سے پہلے پاک افغان کرکٹ میچ کی بات کرنا ہو گی۔ یہ میچ کیا تھا اچھی خاصی ٹینشن تھی۔ آپ یقین مانیے کہ اس میچ نے آخر تک ہمیں سولی پر لٹکائے رکھا۔ بعض جگہ تو سانس رُک رک گئی کہ اگر ہارے تو داغ نہیں زخم لگے گا۔ ایک دھڑکا یہ بھی تھا کہ ہم ورلڈ کپ کے وارم اپ میچ میں افغانستان سے شکست کھا چکے تھے۔ یہ تو میں نے خود کہہ رکھا ہے کہ کوئی ہماری طرح ہار سکتا ہے نہ جیت سکتا ہے لیکن ایک اور ہماری ٹیم کی خصوصیت سامنے آئی کہ جیسی ٹیم ہمارے سامنے ہو ہم ویسا ہی کھیلتے ہیں۔ اب کے ہمارے جو لچھن سامنے آئے تو لوگوں نے سوچنا شروع کر دیا ہے کہ بنگلہ دیش کی ٹیم افغانستان کی ٹیم سے بدرجہا بہتر ہے۔ آپ مختصراً یہ سمجھ لیں کہ اللہ نے ہماری عزت رکھ لی بلکہ یہ عزت والی جیت بھی نہیں تھی۔ بعض اوقات تو ہار بھی باعث وقار ہوتی ہے! جیت اس کی ہے اگر ہار بھی جاتا ہے وہ مجھ کو معیار بنا لے مرے دشمن سے کہو میچ کے بعد اگرچہ لوگ دھوم دھڑکا کر رہے تھے لیکن سوشل میڈیا پر کچھ لوگ کھری کھری باتیں کر رہے تھے۔ ایک نے کہا کہ حفیظ اور سرفراز پر تاحیات پابندی لگا دینی چاہیے۔ آخر کرکٹ کے بست و کشاد میں ماہرین ان دونوں سے کیا نکالنا چاہتے ہیں، بہتر ہے انہیں ٹیم سے نکالیں۔ سرفراز کا حال تو سب سے پتلا ہے۔ ان کے بارے میںا کثریت کی رائے یہی ہے کہ ان کی تو ٹیم میں بھی جگہ نہیں چہ جائے کہ کپتان بنا دیا جائے۔ حفیظ بعض اوقات اچھا کھیل جاتا ہے۔ مگر ہمیشہ اتنا آسان آئوٹ ہوتا ہے کہ بچے ہنسنے لگتے ہیں۔ اس کی آئوٹ ہونے والی شاٹس غیر ملکی مبصر دکھا رہے تھے۔ پروفیسر کو شعیب ملک کے انجام سے عبرت حاصل کرنی چاہیے۔ یہ تو خیر گزری کہ عماد وسیم چل گیا اور چلا بھی میزائل کی طرح اور اس 49رنز کے عوض اور وہاب ریاض کی دلیرانہ بیٹنگ کے باعث پاکستان نے میچ جیت لیا۔ میرا خیال ہے کہ یہ ورلڈ کپ کا سب سے زیادہ سنسنی خیز میچ تھا اور اسے اتنا مشکل بنانے میں ہمارے کھلاڑیوں کا ہاتھ تھا۔ بائولرز نے تو اپنا کام دکھایا تھا شاہین آفریدی میزائل کا تجربہ بھی باردگر کامیاب رہا اور اس نے 4کھلاڑیوں کو آئوٹ کر کے کم عمر ترین 4وکٹیں لینے والے کا ورلڈ ریکارڈ بنایا۔ مجھے خیال آیا کہ ہم خود بھی اپنے کھلاڑیوں کو بانس پر چڑھا کر ان سے اپنی امیدیں وابستہ کر کے ان پر ایک ہار ڈال دیتے ہیں۔ یہی شاداب کے ساتھ ہوا کہ ہم سمجھ رہے تھے کہ ورلڈ کپ میں ٹیم کا شاداب پر ہی انحصار ہو گا۔ افغانستان کے خلاف اسے سکور بھی پڑ گیا۔ بہر حال اس نے دو وکٹیں بھی لیں۔ خاص بات جس کا خیال رکھنا ضروری ہے وہ پلاننگ اور حکمت عملی ہے۔ ہم دیکھ کر بھی کچھ نہیں سیکھتے۔ مثلاً پورے ٹورنامنٹ میں ٹیموں کو دیکھا گیا کہ وہ دوسرا رن لینے سے گریز کرتے تھے کہ ایک رن تو بعد میں ہاتھ آ سکتا ہے مگر رن آئوٹ کی واپسی نہیں۔ افغانستان کے خلاف سرفراز بھی ایسے ہی آئوٹ ہوا کہ دوسرا رن مشکل تھا۔ ویسے اس کا آئوٹ ہونا تو ہمارے کام آ گیا کہ بعد میں عماد وسیم نے ذمہ داری اٹھا لی۔ دوسرا شاداب بھی ایسے ہی رن آئوٹ ہوا۔ خاص طور پر حفیظ وہاں اونچی شارٹ اٹھاتا ہے جبکہ اس کی چنداں ضرورت نہیں ہوتی اور پھر آئوٹ ہو کر اپنا منہ لٹکا لیتا ہے۔ انہیں میاں داد کی ویڈیوز دکھانی چاہیے کہ وہ کیسے ایک ایک دو دو رنز تراشتا تھا۔ اب کرکٹ کے شائقین متفکر ہیں کہ بنگلہ دیش کے خلاف اگر یہی ٹیم اور یہی پرفارمنس رہی تو پھر ہم جیت چکے! بنگلہ دیش نے تو ویسٹ انڈیز کے 323جیسے بڑے ٹوٹل کو آٹھ نو اوور پہلے ہی پورا کر لیا تھا جبکہ ویسٹ انڈیز کے خلاف ہمارے ہاتھ پائوں پھول گئے تھے۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ بنگلہ دیش ہر میدان میں ہم سے آگے نکل چکا ہے۔ ہمارے لیے سوچنے کا مقام ہے۔ ماضی کے ورلڈ کپ میں ہم بنگلہ دیش سے اپنی ہی خیر سگالی کے تحت ہارے تھے اور انہیں ٹیسٹ کیپ لینے کے قابل بنایا تھا مگر حسینہ معین نے کہا تھا کہ انہوں نے جیت کر 71کا بدلہ چکایا ہے۔ ہمیں تو احسان کرنا بھی راس نہیں آتا۔ اب کے افغانی اپنی اصلیت پر آ گئے اور انہوں نے میچ ہارنے کے بعد پاکستانی سپورٹر کی پٹائی کر دی۔ ہماری محبتیں ہی شاید اسی طرح کی ہیں: میں محبت کو زندگی سمجھا اس محبت نے مار ڈالا مجھے آپ نفرت کی انتہا دیکھیں کہ افغانی کہہ رہے تھے کہ سارے میچ انہوں نے ہارے مگر پاکستان سے ہارنے انہیں رُلا دیا۔ یہ افغانی جو اپنی نفرت کا اظہار کرتے ہوئے بھارت کی بولی بولتے ہیں لاکھوں کے حساب سے پاک سرزمین پر پڑے ہیں۔ پاکستان خرچہ برداشت کر رہا ہے۔ یہی افغانی یہاں مارکیٹوں میں چھائے ہوئے ہیں۔ ہم ان سے نفرت نہیں کرتے۔ خود انضمام ان کے کھلاڑیوں کی تربیت کرتے رہے ہیں۔ وہ پاکستان کے کلبوں میں کھیلتے آ رہے ہیں۔ شاید افغانیوں کو زیادہ طیش اس لیے آیا کہ وہ جیتا ہوا میچ ہار گئے۔ ان کے رویوں پر حیران ہونے کی ضرورت نہیں کہ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ انہیں میچ دیکھنے کا سلیقہ سیکھنا چاہیے۔ اصل میں یہ وہ افغان نہیں جو پاکستان کی سرحدوں کی حفاظت کرتے تھے یہ ہندوستان کی تربیت میں ہیں وگرنہ پاکستان سے نفرت کرتے ہوئے انہیں شرم تو آئے۔ مگر آفرین تو ہمارے کھیل پر ہے کہ انہیں اپنے برابر کھڑا کر لیا۔ فی الحال تو پاکستان ٹاپ چار میں آ گیا ہے مگر انگلینڈ نے ابھی دو میچ کھیلنے ہیں اور یہ دن بھی آنا ہے کہ ہمیں بھارت کی جیت کے لیے دعا کرنا پڑ رہی ہے۔ افغانستان سے بھی ہم جس طرح جیتے ہیں سب کے سامنے ہے۔ ایک دفعہ تو انہوں نے ہمارا ’’تراہ‘‘ نکال دیا تھا۔ کھیل کو کھیل ہی رہنا چاہیے اس میں اتارچڑھائو پر آتے ہیں مگر دل کس کے کنٹرول میں ہوتا ہے۔ کبھی تیز تیز دھڑکنے لگتا ہے اور کبھی بیٹھنے اور ڈوبنے لگتا ہے۔ بہرحال سپورٹس مین سپرٹ تو ضروری ہے۔ اگر پیار محبت کا اضافہ ہو جائے تو کیا حرج ہے۔ پروین شاکر کا شعر یاد آ گیا: اس شرط پہ کھیلوں گی پیا پیار کی بازی جیتوں تو تجھے پائوں ہاروں تو پیا تیری