رواں برس کے پہلے اڑھائی ماہ کے دوران لاہور میں 87 افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ہے۔ قتل ہونے والوں میں 30 خواتین شامل ہیں۔ پنجاب کے دارالحکومت میں امن و امان کی صورتحال انتہائی مخدوش نظر آتی ہے۔ حکومت نے زندہ دلان لاہور کو قبضہ گروپوں سے نجات دلانے کے لئے ایک سی سی پی او کا انتخاب کیا‘ اس نے تین ماہ کا وقت لے کر اقدامات شروع کئے۔ تمام تر اختیارات کے باعث وہ لاہوریوں کو قبضہ گروپوں سے نجات دلا سکے نہ ہی لاہور کے امن کو مثالی بنا سکے۔ جس کے باعث حکومت نے انہیں تبدیل کر کے نئے سی سی پی او تعینات کر دئیے لیکن اس کے بعد بھی قتل کے کیسز میں بے انتہا اضافہ دیکھنے میں آرہاہے۔ مارچ کے اکیس دنوں میں 21 افراد کو قتل کیا گیا جبکہ ڈکیتی کی وارداتیں بھی رکنے کا نام نہیں لے رہیں۔ شہریوں کو کروڑوں روپے کی نقدی‘ زیورات اور دیگر قیمتی چیزوں سے محروم کردیا گیا۔ ڈکیتی مزاحمت پر 7افراد قتل ہو چکے ہیں‘ اس سلسلے میں حکومت کو خواب غفلت سے بیدار ہونا ہوگا۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو متحرک کر کے ڈکیتوں اور قاتلوں کو فی الفور قانون کے شکنجے میں جکڑنا ہوگا۔ لاہور بھر میں سیف سٹی کیمرے نصب ہیں۔ پولیس ان کیمروں سے مدد لے کر ایسے گروہوں کے خلاف سخت اقدامات کرے تاکہ خلق خدا سکھ کا سانس لے سکے۔