لاہور کے علاقے عسکری ٹین میں ایک نوجوان شبیر حسین پتنگ کی ڈور سے شہ رگ کٹ جانے سے جاں بحق اور سبزہ زار کا رہائشی سمیع اللہ شدید زخمی ہو گیا۔ سپریم کورٹ نے پتنگ بازی کے باعث بڑھتی ہلاکتوں کی وجہ سے 2006ء میں پتنگ اڑانے پتنگ سازی اور اس کے متعلقہ سامان کی تیاری اور فروخت پر پابندی لگا دی تھی اس کے باوجود بھی 2006ء سے 2019ء تک ہر سال شہ رگ پر ڈور پھرنے سے 18سے 20افراد جاں بحق ہو رہے ہیں۔ سابق وزیر اعلیٰ نے ڈور سے ہلاکتوں کی صورت میں متعلقہ ایس ایچ او کو معطل کرنے اور اس کے خلاف کارروائی کرنے کا کہا تھا تو ایک برس میں 1381افراد کو پتنگ بازی اور پتنگ سازی کے الزام میں گرفتار کیا گیا لیکن قاتل ڈور سے ہلاکتوں کا سلسلہ نہ تھم سکا لیکن جب دو ڈی ایس پیز اور 17ایس ایچ اوز کو بھی نوکری سے ہاتھ دھونا پڑاتو ڈور کے حادثات میں نمایاں کمی ہوئی۔ بدقسمتی سے نئی حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد پولیس کی طرف سے تساہل پسندی اور غفلت کا مظاہرہ شروع ہو گیا ہے جس کی وجہ سے اب ایک بار پھر ڈور سے ہلاکتوں میں اضافہ ہو گیا ہے۔ بہتر ہو گا کہ حکومت پتنگ بازی کے ساتھ پتنگ بنانے والوں اور اس سے متعلقہ سامان کی تیاری اور فروخت روکنے کے لئے موثر اقدامات کرے اور حادثات کی صورت میں متعلقہ تھانے کی باز پرس کو یقینی بنائے تاکہ قیمتی جانوں کو قاتل ڈور کی اذیت ناک ہلاکت سے محفوظ رکھا جا سکے۔