گزشتہ روز وزیراعلیٰ سردار عثمان خان بزدار نے ڈیرہ غازی خان کا دورہ کیا اور اربوں روپے کے ترقیاتی منصوبوں کا سنگ بنیاد رکھا ، وسیب میں وزیراعلیٰ کے دورہ کو بہت اہمیت دی جا رہی ہے ۔ وزیر اعلیٰ نے ملتان میں بھی قیام کیا مگر اُن کا سرکاری دورہ ڈیرہ غازی خان کاتھا۔ ڈی جی خان کے سیاسی عمائدین کے علاوہ شاعروں ،ادیبوں اور دانشوروں نے ملاقات پر بتایا کہ پورے ڈی جی خان ڈویژن میں کوئی ادبی ادارہ نہیں ہے ۔ ثقافتی حوالے سے ڈی جی خان میں آرٹس کونسل موجود ہے مگر تقریبات کے لیے فنڈز کی ضرورت ہے ۔وزیر اعلیٰ سردار عثمان خان بزدار جہاں دیگر منصوبہ جات دے رہے ہیں اُن کو ادبی و ثقافتی اداروںکے قیام کی طرف بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ آج میں ایک کتاب کا ذکروں گا کہ قومیں کتاب سے بڑی ہوتی ہیں اور کتاب ایک آئینہ بھی ہوتی ہے جس میں وسیب کا عکس دیکھا جا سکتا ہے ۔اور اتفاق سے یہ کتاب وزیراعلیٰ کے ذاتی دوست کی تحریر کردہ ہے ۔ڈیرہ غازیخان کے معروف صحافی ملک سراج کی کتاب ’’میرا وسیب‘‘ میرے سامنے ہے، یہ کتاب مختلف مضامین پر مشتمل ہے، کتاب کا ہر مضمون پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے کہ اس میں پورے وسیب کا رنگ جھلکتا ہے، یہ کتاب نہ صرف عام قاری بلکہ ریسرچ سکالرز کیلئے بھی حوالے کا باعث ہے۔ اس کتاب کے حوالے سے جو معروضات پیش کر رہا ہوں وہ کتاب اور صاحب کتاب کے ساتھ ساتھ سرائیکی وسیب کی تاریخ کے حوالے سے ہیں۔ سب سے پہلے میں کتاب کے حوالے سے عرض کروں گا کہ اس میں سرائیکی وسیب کی دستکاریوں کا ذکر نہایت خوبصورت اور دلکش انداز میں کیا گیا ہے اور خواتین جو زیورات استعمال کرتی ہیں، یقینی طور پر وہ خطے کی ثقافت کا مظہر اور آئینہ دار ہیں۔ اس کتاب میں اردو بولنے والے ہمارے دوست رئیس عدیم کی خدمات کا تذکرہ پڑھ کر مجھے بہت خوشی ہوئی ہے کہ ان کی سرائیکی وسیب اور سرائیکی کتب کی اشاعت کیلئے بہت خدمات ہیں۔ سرائیکی زبان کے عظیم شاعر سئیں احمد خان طارق کے بارے میں تحریریں چشم قلب سے پڑھنے سے تعلق رکھتی ہیں، لیکن ان کے بارے میں عنوان مجھے اتنا اچھا نہیں لگا ’’ڈوہڑے کا پہلا اور آخری شاعر‘‘ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ لمحہ موجود تک ڈوہڑے کے بادشاہ ہیں، لیکن ہم ان کو آخری شاعر نہیں کہہ سکتے، کہ آنے والے اس وقت کے فیصلے کا اختیار آنے والے وقت کے افراد کے پاس رہنا چاہئے۔ ملک سراج نے سرائیکی لکھاری اکبر مخمور مغل، وسیب کے فنکار اللہ بچایا کمہار، حافظ محمد اقبال بھٹی، محسن نقوی، عمیر پہلوان، ڈاکٹر نجیب حیدر ملغانی، خورشید ناز، نور محمد ساحل اور دوسرے بہت سے افراد کے فن اور فکر کے بارے میں بہترین تحریریں شامل کی ہیں۔ اس کتاب میں مختلف عنوانات ‘جیسا کہ سندھ کی لہروں کا سرائیکی شاعری میں اظہار ، سرد موسم اور سرائیکی شاعروں کا رومانوی انداز، آیا جیٹھ تے چڑھی مستی، سرائیکی وسیب میں بچوں کی دلچسپ لوک نظمیں، سرائیکی وسیب کے بچوں کے منظوم سرائیکی قصے، سرائیکی وسیب میں شادی کی رسمیں، ونگار، بلوچی ڈش سجی، ڈی جی خان میں اعزاداری اور تعزیہ کی تاریخ اور سرائیکی اجرک سرائیکی وسیب کی شناخت کے حوالے سے بہترین تحریریں اور مضامین شامل ہیں۔ ملک سراج نے اپنی کتاب میں سرائیکی وسیب کے مری فورٹ منرو کا بھی ذکر کیا ہے‘ اس کے ساتھ مختلف تعلیمی اداروں کی تاریخ بیان کرکے ایک بار پھر ان اداروں کی اہمیت کو زندہ کر دیا ہے۔ جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا یہ کتاب ہر لحاظ سے ایک بہترین کتاب ہے اور یقینی طور پر ہم اسے حوالے کی کتاب کا نام دے سکتے ہیں، در حقیقت یہ وہ کام ہیں جو کہ یونیورسٹیوں کے ریسرچ سکالرز خصوصاً سرائیکی شعبہ جات سے منسلک افراد کو کرنے چاہئیں لیکن افسوس کہ انہوں نے صرف تنخواہ کو سب کچھ سمجھ لیا ہے اور وہ کام کی ضرورت اور اہمیت سے بالکل بے خبر ہیں۔ وہ لوگ عظیم ہوتے ہیں جو اپنی دھرتی، اپنی مٹی اور اپنے وسیب سے محبت کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کا ذکر بھی ثواب کے زمرے میں آتا ہے۔ یہ بھی مسلمہ حقیقت ہے کہ صحافی اور لکھاری بہت ہیں مگر اپنے وسیب کے بارے کوئی کوئی سوچتا ہے۔ یہ تاریخی حقیقت ہے کہ سرائیکی وسیب کو حملہ آوروں نے ہمیشہ برباد کرنے کی کوشش کی مگر وسیب کے غیور لوگوں نے ہمیشہ حملہ آوروں کا مقابلہ کیا ۔ دارا اول سے لیکر رنجیت سنگھ اور ما بعد انگریز سامراج تک ، ہر حملہ آور کو سرائیکی وسیب میں مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا ۔ حملہ آوروں میں سکندر اعظم کا نام مشہور اور نمایاں ہے، کہا جاتا ہے کہ سکندر اعظم نے پوری دنیا کو فتح کیا مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ سکندر اعظم کو ملتان میں ہزیمت اٹھانا پڑی، اسے ملتان کے خونی برج پر واقع جنگ میں ایک عظیم المرتبت ملتانی جرنیل کا تیر لگا جس سے وہ زخمی ہوا اور اپنے وطن جا کر وہ مر گیا۔ سکندر اعظم نے ملتان پہنچنے سے پہلے ڈیرہ غازیخان کے جن شہروں اور قلعہ جات کو برباد کیا ان میں قلعہ ہڑند، کھانڈوپرساد شہر (دلورائے ٹھیڑ) ، ٹھیڑی، ڈراویلہ، ٹھیڑ کنڈے والا، ٹھیڑ کوٹ ہیبت، ٹھیڑ کہیہ مکڑاہاد، ڈھیڑہ (وہوا) وغیرہ شامل ہیں۔ سکندر اعظم نے ڈیرہ غازیخان کے علاقے میں دو لاکھ کے لگ بھگ مردوں، عورتوں، بوڑھوں، جوانوں اور بچوں کو تہہ تیغ کیا۔(تاریخ ڈیرہ غازیخان مولف احسان چنگوانی) مہا بھارت کی جنگ اس علاقے میں لڑی گئی، ’’مہابھارت‘‘ تین لفظوں کا مرکب ہے اور یہ تینوں لفظ سرائیکی میں مہایعنی بڑی ‘بھایعنی آگ اور رت یعنی خون‘ مہا بھارت کی جنگ قریباً دو ہزار قبل مسیح بپاہوئی، یہ جنگ جو قلعہ دلورائے (نزد جام پور) لڑی گئی اس میں پہلی مرتبہ آگ کے گولوں کا استعمال ہوا۔ بھارت نے اب جواگنی میزائل تیار کیا ہے اس کی بنیادی تصور ’’مہا بھارت جنگ سے لیا گیا، اس جنگ میں سرائیکی شاہی خاندان کے 200 افراد، فوجی 25000اور 50 راجے مہاراجے بھی مارے گئے، آگ و خون کی اس بڑی جنگ میں مقامی لوگوں کی بہادری اور جرأت کی اپنی مثال آپ ہے۔ ملتان اور ڈیرہ غازیخان کے علاقوں میں مصر کے حکمران رامس اعظم کی آمد کا ذکر بھی موجود ہے۔ اس علاقے میں ایران کے حملوں کا ذکر بھی موجود ہے۔ مذکور ہے کہ 558ء قبل مسیح یہاں سرائیکی ’’ڈہے‘‘ خاندان کی حکومت تھی اور یہاں اس خاندان کی ملکہ تومی داس حکمران تھی۔ اس پر ایران کے بادشاہ سائرس کی فوجوں نے حملہ کر دیا مگر ڈاہے خاندان کی حکومت سے ایران فوجوں کو شکست دی۔ تاریخ ڈیرہ غازیخان میں قدیم مذاہب کے ذکر میں بتایا گیا کہ گوماتا کی بنیاد اس علاقے میں رکھی گئی، اور دنیا کی قدیم کتاب رگ وید سرائیکی علاقے میں لکھی گئی۔