اسلام آباد ہائیکورٹ نے العزیزیہ ریفرنس میں مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست مسترد کرتے ہوئے ان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے ہیں۔عدالتی احکامات کے بعد میاں نواز شریف ایک مفرور کے طور پر بیرون ملک غیر قانونی قیام رکھے ہوئے ہیں‘ دو ہفتے قبل اسلام آباد ہائی کورٹ نے نواز شریف کو ہدایت کی تھی کہ وہ سرنڈر کر کے 10ستمبر کو عدالت کے روبرو پیش ہوں۔ نواز شریف کے وکلاء کا کہنا تھا کہ ان کے موکل شدید بیمار ہیں اور سفر نہیں کر سکتے۔اس پر عدالت نے نکتہ اٹھایا کہ نواز شریف جب سے بیرون ملک گئے ہیں آج تک وہ کسی ہسپتال میں داخل ہوئے نہ ان کا کوئی آپریشن ہوا۔ نواز شریف کی گرفتاری کا حکم دیتے ہوئے عدالت عالیہ نے کہا کہ نواز شریف کی ضمانت غیر موثر ہو چکی ہے‘ انہوں نے عدالتی حکم کے باوجود خود کو سرنڈر نہیں کیا‘ یہ انتہائی سنجیدہ معاملہ ہے جس کی وجہ سے پورے نظام انصاف پر سوال کھڑا ہو جائے گا۔ 2016 ء میں پاناما پیپرز میں انکشاف ہوا تھا کہ پاکستانی وزیراعظم نواز شریف اور ان کے بچوں کی آف شور کمپنیاں ہیں اور لندن کے مہنگے ترین علاقے مے فیئر میں فلیٹس بھی ہیں جس کے بارے میں قیاس آرائیاں کی گئیں کہ یہ اثاثے مبینہ طور پر منی لانڈرنگ کے ذریعے بنائے گئے۔جس کے بعد معاملے کی تحقیقات شروع ہوئی تو نیب نے نواز شریف اور ان کے بچوں کے خلاف تین ریفرنسز دائر کیے جن میں ایون فیلڈ ریفرنس، فلیگ شپ انویسٹمنٹ اور العزیزیہ اسٹیل ملز شامل ہیں۔ شریف خاندان کی جانب سے دلائل میں کہا گیا کہ العزیزیہ سٹیل مل لگانے کے لیے کچھ سرمایہ سعودی حکومت سے لیا گیا تھا۔البتہ نیب کے وکلا کا کہنا ہے کہ شریف خاندان کے دعوے کسی بھی دستاویزی ثبوت سے محروم ہیں اور یہ علم نہیں کہ اس مل کے لیے رقم کہاں سے آئی۔ ان کا دعوی ہے کہ شریف خاندان نے پاکستان سے غیر قانونی طور پر رقم حاصل کر کے اس مل کے لیے سرمایہ لگایا۔نواز شریف کے صاحبزادے حسین نواز کا کہنا تھا کہ انھیں اپنے دادا سے پچاس لاکھ ڈالر سے زیادہ رقم دی گئی تھی جس کی مدد سے انھوں نے العزیزیہ سٹیل ملز قائم کی۔ ان کے مطابق اس مل کے لیے زیادہ تر سرمایہ قطر کے شاہی خاندان کی جانب سے میاں محمد شریف کی درخواست پر دیا گیا تھا۔اس ریفرنس کی تفتیش کرنے کے لیے قائم ہونے والی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم کے مطابق العزیزیہ سٹیل ملز کے اصل مالک نواز شریف خود ہیں۔نیب حکام کا نواز شریف کے خلاف دعویٰ ہے کہ انھوں نے حسین نواز کی کمپنیوں سے بڑا منافع حاصل کیا ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اصل مالک وہ ہیں، نہ کہ ان کے بیٹے۔العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس سعودی عرب میں 2001 ء میں جلاوطنی کے دوران نواز شریف کے صاحبزادے حسین نواز نے قائم کی جس کے بعد 2005ء میں ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ کمپنی قائم کی گئی۔ جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ نواز شریف نے ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ کمپنی سے بطور گفٹ 97 فیصد فوائد حاصل کیے۔محمد نواز شریف کو احتساب عدالت نے العزیزیہ ریفرنس میں سات سال قید، دس سال کے لیے کسی بھی عوامی عہدے پر فائز ہونے پر پابندی، ان کے نام تمام جائیداد ضبط کرنے کا فیصلہ دیا اور ساتھ ساتھ تقریباً پونے چار ارب روپے کا جرمانہ عائد کیا ہے۔ان کے خلاف دوسرے ریفرنس فلیگ شپ انویسٹمنٹ میں نواز شریف کو باعزت بری قرار دیا گیا ۔عدالت نے جب نواز شریف کو ضمانت پر رہائی دی تھی تو فیصلے میں لکھا تھا کہ ان کی ضمانت میں توسیع کے اختیارات پنجاب حکومت کے پاس ہوں گے۔نواز شریف کے وکلا نے پنجاب حکومت سے جب توسیع کے لیے درخواست کی تو حکومت کے بنائے گئے میڈیکل بورڈ نے ان کی میڈیکل رپورٹس پر غور کرنے کے بعد ضمانت منسوخی کی سفارش کی جس کے بعد پنجاب حکومت نے ضمانت میں مزید توسیع کی درخواست مسترد کر دی۔خیال رہے کہ نواز شریف کی لندن میں واک کرتے اور ریستوران میں کافی پینے والی تصاویر جب سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں تو حکومت نے نواز شریف کی وطن واپسی کے لیے کوششیں تیز کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ انھیں بیرون ملک جانے کی اجازت دینا ایک غلطی تھی۔نواز شریف سیاستدان ہیں‘ ان کے خاندان کے دیگر سیاستدان بھی اپنی نیک نامی کے لئے نواز شریف کی ساکھ پر انحصار کرتے ہیں۔ شریف خاندان جنرل پرویز مشرف سے 10سالہ معاہدہ کرنے کے بعد جدہ چلا گیا۔ شریف خاندان اس معاہدے کی تردید کرتا رہا اور آخر کار برادر ملک کے سفیر نے اس کی کاپیاں پیش کر دیں۔نواز شریف‘ ان کی دختر اور بیٹوں نے اپنی جائیداد اور اثاثوں کے متعلق غلط بیانی کی۔ احتساب عدالت نے ان کو سزا سنائی تو اس سزا سے بچنے کے طریقے ڈھونڈے گئے۔ قانونی طور پر نواز شریف ایک ثابت شدہ مجرم اورمفرور ہیں۔ عدالت کی طرف سے انہیں پیچیدہ اور سنگین امراض کے علاج کے لئے بیرون ملک جانے کی اجازت دی گئی۔ ان پر یہ فرض ہے کہ انہوں نے جس طرح بیماری میں عدالت سے رجوع کر کے ایک منفرد رعایت حاصل کی اسی طرح عدالت کے احکامات پر سرتسلیم خم کرتے ہوئے خود کو قانون کے حوالے کر دیں۔ اس سے ان کی سیاسی ساکھ کسی حد تک بچ سکتی ہے۔مسلم لیگ ن گزشتہ ہفتے اپنے قائد کو وطن واپس نہ آنے کا مشورہ دے چکی ہے۔ نواز شریف کے بعض رفقا بھی یہی چاہتے ہیں کہ وہ واپس نہ آئیں‘ ممکن ہے ان کی جماعت کے کچھ لوگوں کو ان کی غیر موجودگی کا سیاسی فائدہ ہو لیکن ایسے مشورے مان کر نواز شریف اپنی سیاسی اور قانونی مشکلات میں اضافہ کریں گے۔ عدالت انہیں قانون کا مفرور‘وعدہ شکن اور مجرم قرار دے چکی ہے‘ ان کی گرفتاری کا حکم دیا جا چکا ہے۔ وزیر بار بار این آر او نہ دینے کا اعلان کر رہے ہیں۔ یہ صورت حال ایف اے ٹی ایف قانون کی منظوری کے بعد نواز شریف اور ان کے خاندان کے لئے مزید تشویشناک ہو سکتی ہے۔