وزیر اعظم عمران خان کا دورہ افغانستان اس لحاظ سے اہم سمجھا جا رہا ہے کہ صدر ٹرمپ کی وائٹ ہائوس سے رخصتی کے باعث افغانستان میں قیام امن کے منصوبے کو کسی ناگہانی رکاوٹ سے بچانے کے لئے دونوں ہمسایہ ممالک میں اتفاق رائے ضروری ہے۔ وزیر اعظم نے افغان صدر اشرف غنی سے ملاقات کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان افغانستان میں قیام امن کے لئے ہر ممکن کردار ادا کرے گا۔ انہوں نے افغان عوام کو خوشخبری دی کہ پاکستان اور افغانستان انفراسٹرکچر‘ توانائی اور ریل روڈ منصوبوں پر اتفاق کر چکے ہیں‘ وزیر اعظم نے افغان تنازع کے سیاسی حل پر ایک بار پھر زور دیتے ہوئے کہا کہ تنازع کا واحد حل مذاکرات ہیں اور امن عمل میں افغان عوام کے فیصلوں کا احترام کیا جائے گا۔ افغان صدر اشرف غنی کا کہنا تھا کہ پاکستان اور افغانستان کے مفادات مشترکہ ہیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان طے پایا کہ اپنی سرزمین دہشت گردی کے لئے استعمال نہیں ہونے دیں گے۔رواں برس ستمبر میں افغان رہنما عبداللہ عبداللہ پاکستان تشریف لائے‘اس دووران امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغانستان زلمے خلیل زاد بھی متعدد بار پاکستان کا دورہ کر چکے ہیں۔ اس وقت بھی جب عمران خان افغان صدر سے کابل میں ملاقات کر رہے تھے پاکستان میں امریکی ناظم الامور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے افغان امن عمل پر بات چیت کر رہی تھیں۔ گویا پاک افغان تعلقات اس قدر حساس اور پیچیدہ بن چکے ہیں کہ ذرا سی سفارتی سرگرمی ہونے پر کئی اطراف میں سرگرمیاں شروع ہو جاتی ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کا اگرچہ وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد یہ افغانستان کا پہلا دورہ ہے لیکن گزشتہ دو برسوں میں اْن کی افغان صدر کے ساتھ یہ تیسری ملاقات تھی۔ دونوں رہنماوں کے درمیان پہلی ملاقات گذشتہ برس مئی میں سعودی عرب میں ہونے والے او آئی سی اجلاس کے موقع پر سائیڈ لائن ہوئی تھی، جس کے ایک ماہ بعد ہی افغان صدر اشرف غنی نے پاکستان کا دورہ کیا تھا۔ان ملاقاتوں میںافغانستان میں قیام امن ،انٹرا افغان مذاکرات،پاک افغان سرحدی کشیدگی اور تجارتی تعلقات میں حائل رکاوٹیں دور کرنے پر بات ہوئی ۔ رواں برس فروری میں امریکہ اور طالبان کے درمیان دوحا امن معاہدے کے بعد اگرچہ جلد ہی بین الافغان مذاکرات شروع ہونے تھے لیکن کئی ماہ کی تاخیر کے بعد افغان حکومت اور طالبان مذاکراتی ٹیموں کے درمیان بین الافغان مذاکرات کے لیے دوحہ میں ملاقاتیں تو ہوئیں لیکن یہ مذاکرات طالبان قیدیوں کی رہائی مکمل نہ ہونے پر تعطل کا شکار رہے۔ افغان حکومت اور عوام چاہتے ہیں کہ جنگ بندی ہو تاہم طالبان بضد ہیں کہ جنگ بندی پر بین الافغان مذاکرات میں ہی بحث ہو گی۔ دوحہ میں اگرچہ دونوں مذاکراتی ٹیموں کے درمیان دو ماہ سے ملاقاتیں بھی ہو تی رہی ہیں لیکن ادھر کابل اور دیگر شہروں میں افغان حکومت اور فوج کے خلاف طالبان کے حملوں میں شدید تیزی دیکھنے میں آئی جو حال ہی میں کم ہوئی ۔ دوحامذاکرات میں وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا تھا کہ اگر پاکستان کی کوششیں نہ ہوتیں تو یہ معاہدہ نہ ہوتا۔ پاکستان کے اسی اثر و رسوخ کو دیکھتے ہوئے افغان حکام چاہتے ہیں کہ پاکستان بین الافغانی مذکرات میں بھی اپنا مثبت کردار ادا کریں اور طالبان جلد سے جلد جنگ بندی کا اعلان کر دیں۔ پاکستان میں افغانستان کے سابق سفیر اور افغان صدر کے پاکستان کے لیے خصوصی نمائندے عمر داؤد زئی نے اپنے دورہ پاکستان میں کہا تھا کہ پاکستانی حکام نے غیر رسمی ملاقاتوں میں اْنھیں یہ باور کرایا ہے کہ رواں سال کے آخر تک طالبان جنگ بندی پر راضی ہو جائیں گے۔ وزیراعظم عمران خان کا پہلے ہی دن سے یہ موقف ہے کہ افغانستان کا مسئلہ جنگ سے نہیں بات چیت سے حل ہو گا۔ افغان امور کے ماہرین کے مطابق وزیراعظم عمران خان کا دورہ افغانستان نہ صرف دونوں ملکوں کے درمیان مثبت پیش رفت کا باعث بن سکتا ہے بلکہ دوحا میں جاری افغان حکومت اور طالبان کے درمیان باضابطہ مذاکرات کے لیے بھی راہ ہموار کرسکتا ہے۔مبصرین کا کہنا ہے کہ اس دورے سے مثبت نتیجہ نبرآمد ہو گا کیونکہ عمران خان ایک عرصے سے یہ کہتے آرہے ہیں کہ یہ معاملہ بات چیت کے ذریعے ہی طے ہو گا۔ اب جب امریکی افواج افغانستان سے نکل رہی ہیں اور نئی امریکی قیادت کے بعد خطے میں اگر کوئی تبدیلی آتی ہے تو بھی وزیراعظم عمران خان کا دورہ کابل دونوں ملکوں کے درمیان آئندہ کے لائحہ عمل کے لیے مثبت ثابت ہو سکتا ہے۔پاکستان کا موقف بڑا واضح ہے کہ افغان تنازع کو چالیس سال سے جنگ کے ذریعے طے کرنے کی کوشش کرنے والی سپر طاقتوں کو منہ کی کھانا پڑی ہے۔ پاکستان نے جنگ کی بجائے مذاکرات کو قیام امن کا واحد ذریعہ بتایا تو خطے میں مخالف قوتوں کی ریشہ دوانیوں کے باوجود امریکہ کو یہ موقف تسلیم کرنا پڑا۔ پاکستان کی کوششوں سے افغان طالبان پہلے امریکہ اور پھر بین الافغان مذاکرات کے لئے آمادہ ہوئے۔ یقینا صدر اشرف غنی کو اس بات کا احساس ہے کہ پاکستان کوشش نہ کرتا تو بین الافغان مذاکرات ناممکن ہوتے۔ پاکستان کو افغان حکومتوں سے یہ شکایت رہی ہے کہ وہ بھارت اور دیگر پاکستان مخالف قوتوں کے ہاتھوں میں کھیلتی آئی ہیں۔دونوں ملکوں کے درمیان غلط فہمیوں کا خاتمہ مشترکہ سیاسی‘ معاشی اور تجارتی مفادات کے حصول کا ذریعہ ثابت ہو سکتا ہے جس کے لئے اعلیٰ سیاسی و عسکری قیادت کی ملاقاتیں سود مند ثابت ہو سکتی ہیں۔