وزارت اطلاعات میں تبدیلی کا ہر طرف سے خیر مقدم ہو رہا ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات شبلی فراز نے حلف اُٹھانے کے بعد کہا ہے کہ میں میڈیا اور حکومت کے درمیان پل کا کردار ادا کروں گا۔ وزیر اطلاعات اور معاون خصوصی برائے اطلاعات احسن سلیم باجوہ نے وزیر اعظم عمران خان سے بھی ملاقات کی ہے اور اُن سے نئی ہدایات حاصل کی ہیں۔ چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی اور وفاقی وزراء مخدوم شاہ محمود قریشی، زرتاج گل و دیگر نے شبلی فراز اور عاصم باجوہ کو وزیر اعظم کی بہترین چوائس قرار دیا ہے۔ اے پی این ایس کی طرف سے بھی وزارت اطلاعات میں تبدیلی کا خیر مقدم کیا گیا ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ نئے وزیر اطلاعات اور معاون خصوصی حکومت کے ذمہ میڈیا کے واجبات کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ کورونا لاک ڈائون کیلئے بھی خصوصی پیکیج لا رہے ہیں۔ تمام وزارتیں اپنی جگہ پر اہمیت کی حامل ہیں مگر وزارت اطلاعات کی اہمیت دیگر سے اس بناء پر زیادہ ہے کہ اس وزارت کی ذمہ داریوں میں اپنی کارکردگی کے ساتھ ساتھ دیگر وزارتوں کارکردگی کا دفاع بھی شامل ہے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ شخص کامیاب وزیر ہوتا ہے جو بولنے والوں کا منہ بند کر سکے اور تنقید کرنے والوں کو تنقید کا نشانہ بنا دے۔ ہمارے موجودہ وزیر اطلاعات شبلی فراز کا تعارف یہ ہے کہ وہ ایک بڑے شاعر کے بیٹے ہیں شرافت انہیں ورثے میں ملی ہے۔ میرٹ پر کام کرتے ہیں، غریبوں سے ہمدردی رکھتے ہیں۔ بلا ضرورت نہیں بولتے اسی طرح جنرل عاصم سلیم باجوہ کا تعلق ملک کے بہت بڑے معتبرادارے پاک آرمی سے رہا ہے۔ وہ ڈی جی آئی ایس پی آر رہے ہیں۔ اُن کی ٹریننگ پہلے تولو بعد میں بولو والی ہے۔ اس کے علاوہ اُن کے اپنے گھرانے کا پس منظر بھی ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ اُن کے دور میں انصاف ہو گا۔ نئی تبدیلی حکومت اور میڈیا کے درمیان محاذ آرائی کے خاتمے کا پیش ہونی چاہئے کہ اس سے ملک و قوم کا نقصان ہو رہا ہے۔ محاذ آرائی کرانے والوں کا بھی کھوج لگانا چاہئے کہ بعض مفاد پرستوں کی ذاتی اغراض نے مسئلے کو بہت گھمبیر بنا دیا ہے۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ موجودہ حکومت کے آنے کے بعد پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا میں معاشی بدحالی کا خوفناک بحران آیا ہے اور ایک اندازے کے مطابق اداروں میں چھانٹیوں اور برطرفیوں کے نتیجے میں ہزاروں عامل صحافی بیروزگار ہو چکے ہیں، پرنٹ و الیکٹرونک میڈیاکے اشتہارات کی بندش اور صوبائی اور وفاقی حکومت کے ذمے اربوں روپے کے واجبات کی عدم ادائیگی نے مسئلے کو گھمبیر بنا دیا ہے۔ موجودہ حکومت کو برسراقتدار لانے میں میڈیا نے اہم کردار ادا کیا (ن) لیگ کی طرف سے میڈیا پر الزام لگا کہ اس کا میڈیا ٹرائل ہو رہا ہے، الزام درست یا غلط، قطع نظر اس کے، حکومت کی تبدیلی عوام کو ریلیف کی صورت میں ملنی چاہئے، اس کے برعکس تکلیف کی صورت میں تبدیلی کا آنا نیک شگون نہیں ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ عمران خان جب برسراقتدار نہ تھے تو وہ میڈیا کی آزادی کے ساتھ ساتھ اصلاحات کی بات کرتے اور بجا طور یہ کہتے کہ اختیارات کو نچلی سطح تک آنا چاہئے۔ اس بناء پر ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ کے تمام ریجنل آفسز کو ملنے چاہئے تھے اور پی آئی ڈی ملتان اور فیصل آباد میں بھی شعبہ اشتہار قائم ہونا چاہئے تھا۔ مگر ایک سازش کے تحت پی آئی ڈی کراچی، لاہور اور پشاور سے بھی اشتہارات چھین لیے گئے جو کہ عمران خان کی سوچ اور ویژن کے بھی برعکس ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات شبلی فراز اور جنرل عاصم سلیم باجوہ کو میڈیا سے متعلق حکومت کو اپنی پالیسی کا جائزہ لینا چاہئے کسی جگہ کوئی خامی ہے تو بہتری کے لئے اقدامات ہونے چاہئیں۔ حکومت اپنے رولز کے مطابق اشتہارات میڈیا کو دیتی ہے۔ اشتہارات کے نرخ سے متعلقہ تمام امورحکومت کے اپنے اختیار میں ہیں میڈیا لسٹ بھی حکومت کی اپنی تیار کردہ ہے، اشتہارات کی تقسیم 25فیصد ریجنل اور 75فیصد نیشنل یہ بھی حکومت کا اپنا مقرر کردہ ہے، اشتہار کے بدلے ادائیگی یہ حکومت کا احسان نہیں یہ ایک ایسا طریقہ کار ہے جو پوری دنیا میں رائج ہے۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ بنیادی جمہوریت میں جو کردار دیہی علاقوں میں یونین کونسل اور شہری علاقوں میں بلدیات کا ہوتا ہے، صحافت میں وہی کردار ریجنل نیوز پیپر کا ہوتا ہے، کیا یونین کونسل کی اسمبلی کو اس بنیاد پر ختم کر دیا جائے کہ یہ قومی اسمبلی کے مقابلے میں بہت چھوٹی ہے؟ یا یہ کہ غریب طبقے کو مار دیا جائے کہ یہ خزانے پر بوجھ ہیں، اس طرح کی سوچ کو کیا نام دیا جائے گا؟ کوئی بھی حکومت ہو وہ غربت کے خاتمے اور مسائل کے حل کیلئے اقدامات کرتی ہے، موجودہ حکومت میں شامل وزراء کے اقدامات کسی اور کے خلاف نہیں عمران خان اور ان کی تحریک انصاف کے خلاف خوفناک سازش ہے۔ وزارت اطلاعات میں نوازشریف لابی بھی موجود ہے اور کچھ نا اہل و نادان افسر اپنی نوکریاں پکی کرنے کیلئے سازشیں کرتے ہیں۔ جن کا کھوج لگانا ضروری ہے۔ میڈیا سے وابستہ افراد کا یہ کہنا غلط نہیں کہ میڈیا کو بالواسطہ طور پر جتنا موجودہ دور میں برباد کیا گیا ہے اتنا ظلم تو ضیاء الحق دَور میںبھی نہیں ہوا تھا، عمران خان کو فرصت ملے تو ان عیالدار صحافیوں سے پوچھیں جو ملازمتوں سے فارغ ہو کر گھر بیٹھے ہیں۔ایک فلسفی کا قول ہے کہ جسمانی قتل سے بھی بڑا جرم کسی انسان کا معاشی قتل ہے۔ موجودہ حکومت جو کہ ایک کروڑ ملازمتیں دینے کے دعوے پر برسراقتدار آئی ہے اُن کو صحافیوں کی بیروزگاری کے مسئلے پر بھی غور کرنا چاہئے۔ میری وزیر اطلاعات شبلی فراز اور وزیر اعظم کے معاون خصوصی جنرل عاصم سلیم باجوہ سے درخواست ہے کہ دوسرے معاملات کے ساتھ ساتھ پی ٹی وی ملتان کو مکمل سنٹر کا درجہ دیں اور پی آئی ڈی بہاولپور آفس کے قیام کی منظوری دیں کہ یہ مسئلہ ہائیکورٹ کے واضح حکم کے باوجود سالہاسال سے لٹکا آرہا ہے۔