اسلام آباد (خبر نگار،نیوز ایجنسیاں،92 نیوز رپورٹ )وزارت قانون نے اسلام آباد ہائیکورٹ کی سفارش پر احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کو کام سے روک دیا۔وفاقی وزیرقانون وانصاف فروغ نسیم نے العزیزیہ ریفرنس میںدوبارہ ٹرائل کے تاثر کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے ویڈیو سکینڈل سے نواز شریف کے خلاف اصل کیس پر کوئی اثر نہیں پڑتا،اسلام آباد ہائیکورٹ کے رجسٹرار کا خط ملا ہے جس میں جج ارشد ملک کو سبکدوش کرنے اور اور اپنے پیرنٹ ڈیپارٹمنٹ لاہور ہائی کورٹ کو رپورٹ کرنے کی سفارش کی گئی ہے ،خط کے ساتھ متعلقہ جج کی پریس ریلیز اور بیان حلفی بھی منسلک ہے ،معاملے کی انکوائری کی ضرورت ہے ، فوری طور پر جج ارشد ملک کو کام سے روک دیا گیا ہے اور انھیں لا ڈویژن رپورٹ کرنے کی ہدایت کی گئی ہے ۔ گزشتہ روز وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیرقانون نے کہا حکومت قانون اور انصاف کے ساتھ کھڑی ہے لیکن کسی کو اس بات کی اجازت نہیں دی جائے گی کہ عدلیہ پر دباؤ ڈالے اور اسے بدنام کرے ، بیان حلفی میں بہت سارے الزامات عائد کئے گئے ہیں جن میں جج کو ڈرانے دھمکانے اور رشوت کی پیشکش کا معاملہ بھی ہے ،اگر الزامات ثابت ہوئے تو متعلقہ افراد کو نیب آرڈننس کے تحت دس سال سزا ہوسکتی ہے ۔احتساب عدالت کے جج کا بیان حلفی العزیزیہ کیس میں سزا کے خلاف نواز شریف کی اپیل کا حصہ بنادیا گیا ہے اس لئے اب معاملہ عدالت میں ہے اور جب تک اسلام آباد ہائی کورٹ اس شاخسانے کا کوئی فیصلہ نہیں کرتی اور جج کی سزا وجزا کا فیصلہ نہیں ہوتا حکومت یا نیب اس معاملے میں مزید کوئی کارروائی نہیں کرسکتی تاہم دیکھنا پڑے گا کہ کیا فیصلہ دباؤ میں دیا گیا کہ نہیں۔ بیان حلفی کی رو سے جج صاحب نے فیصلہ میرٹ پر اورکسی سیاہ سفید کو دیکھے بغیر کیا، جج نے اپنی دانست میں ایک کیس میں بری، دوسرے میں سزا سنائی۔حکومت قانون اور انصاف کے ساتھ کھڑی ہے ،کسی کو رعایت دے رہے ہیں نہ ہی زیادتی کررہے ہیں ، کسی کو دباؤ اور ٹمپر کرنے کی اجازت نہیں دیں گے ، اگر ثابت ہوا کہ جج کو دھمکیاں دی گئیں تو سیکشن 31 موجود ہے ، کارروائی کرنا نیب کا صوابدیدی اختیار ہے ۔صباح نیوز کے مطابق انہوں نے کہا یہ کیس اس حکومت نے تو نہیں بنایا اور نہ ہی اس کی تحقیقات اس حکومت نے کیں، نواز شریف کے کیس میں اگر اتنا دباؤتھا تو پھر تو انہیں دونوں کیسز میں سزا ہوجاتی لیکن جج نے انہیں ایک کیس میں بری کردیا جبکہ ایک میں سزا سنائی تاہم جج کی وڈیو کے حوا لے سے کارروائی ہوگی اس کیس کا فیصلہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے کرنا ہے ، اس دوران کوئی سزا بڑھائی یا کم نہیں کی جاسکتی، یہ قانونی معاملہ ہے اور اسے اسی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کیا احتساب عدالت کے جج نے فیصلہ کسی دبا ؤمیں دیا۔معاون خصوصی شہزاد اکبر نے کہا جج کو کام سے روکنے سے ان کے فیصلوں پر کوئی اثر نہیں پڑتا ۔جب تک منی ٹریل نہیں ہے نواز شریف کی بخشش نہیں ہوسکتی،ویڈیو کے ذریعے عدالتوں پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی جارہی ہے ،انکوائری ہونی چاہیے سارے سکینڈل کے پیچھے کون ہے ،جو لوگ اس کے پیچھے ہیں نیب آرڈیننس سیکشن اکتیس اور تعزیرات پاکستان کا ان پر بھی اطلاق ہوتا ہے ۔بیان حلفی کے بعد تمام باتیں عوام کے سامنے رکھنا ضروری تھا، بیان حلفی صرف پاناما کیس کے مافیا کی طرف اشارہ کرتا ہے ، بیان حلفی میں کہا گیا کہ جج صاحب کی تقرری کرائی گئی، جج ارشد ملک کو 10 کروڑ کی پیشکش ہوئی، یہ کیس جج محمدبشیر کی عدالت میں تھا لیکن مرضی کا فیصلہ حاصل کرنے کے لئے کیس جج ارشد ملک کی عدالت میں منتقل کرایا گیا، جج کے بیان حلفی میں کہا گیا ہے کہ انھیں ملتان میں بنی ایک ویڈیو دکھائی گئی اورمرضی کا فیصلہ نہ دینے پراسے لیک کرنے کی دھمکی دی گئی، جج کو کہا گیا وہ استعفیٰ دیں اور کہیں کہ فیصلہ دباؤ میں دیا۔ سارے سکینڈل کا آغاز جج ارشد ملک کی تقرری سے ہوتا ہے ،اگر ثابت ہوجائے تو جس نے بحیثیت وزیر اعظم ارشد ملک کی تقرری کی منظوری دی ان کے خلاف بھی کارروائی ہوگی۔ جج ارشد ملک بھی اس معاملے میں شکایت کنندہ بن سکتا ہے ،سازش کرنے والوں کے خلاف نیب آرڈننس اور سائبر ایکٹ کے تحت کارروائی کا جائزہ لیا جارہا ہے ۔قبل ازیں اسلام آباد ہائی کورٹ نے مبینہ ویڈیو سامنے آنے کے بعد جج ارشد ملک کو عہدے سے ہٹانے کا فیصلہ کیا۔ رجسٹرار اسلام آباد ہائی کورٹ کے مطابق قائمقام چیف جسٹس عامر فاروق نے وزارت قانون کو خط لکھا کہ فاضل جج کی خدمات واپس لے کر نئے جج کی تعیناتی جلد کی جائے ۔ رجسٹرار اسلام آباد ہائی کورٹ کے مطابق جج کی تقرری اور ہٹانے کیلئے چیف جسٹس ہائیکورٹ کی مشاورت ضروری ہے ،جج ارشد ملک کو ڈیپوٹیشن پر احتساب عدالت میں جج لگایا گیا تھا اور ان کی خدمات واپس پنجاب کے حوالے کی جائیں گی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے رجسٹرار ارشاد کیانی نے قائمقام چیف جسٹس ہائی کورٹ جسٹس عامر فاروق سے ملاقات کی جس میں جج ارشد ملک کے خط اور بیان حلفی کے حوالے سے چیف جسٹس کو آگاہ کیا۔ اسلام آباد (خبرنگار،مانیٹرنگ ڈیسک)چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی مبینہ ویڈیو کی انکوائری کیلئے دائر آئینی درخواست سولہ جولائی کو سماعت کیلئے مقرر کردی۔چیف جسٹس کی سربراہی میں جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس عمر عطا بندیال پر مشتمل تین رکنی بینچ منگل کو شہری اشتیاق احمد مرزا کی طرف سے دائر آئینی درخواست پر ابتدائی سماعت کرے گا۔پٹیشن میں استدعا کی گئی ہے کہ عدالت لیک شدہ ویڈیو کی انکوائری کا حکم دے جبکہ عدلیہ کے وقار کو برقرار رکھنے کیلئے ملوث افراد کیخلاف توہین عدالت کی کارروائی بھی کی جائے ۔انکوائری سے عدلیہ کے وقار،عزت اور آزادی پر اٹھائے گئے سوالات کا جواب مل جائے گا،عدالت ہر صورت اس معاملے کی انکوائری کرائے ۔آئینی درخواست ایڈووکیٹ چوہدری منیر صادق کے ذریعے دائر کی گئی جس میں وفاقی حکومت،اپوزیشن لیڈر شہباز شریف، مسلم لیگ ن کی نائب صدرمریم صفدر ،سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی، راجہ ظفر الحق، ویڈیو کے مرکزی کردار ناصر بٹ اور پیمرا کو فریق بناکر موقف اپنایا گیا کہ6 جولائی کو مریم صفدر اور دیگرنے پریس کانفرنس میں احتساب عدالت کے جج ارشد ملک اور ناصر بٹ کے درمیان بات چیت کی ویڈیو چلائی،ویڈیو سے یہ تاثر ملتا ہے کہ عدلیہ آزادی سے کام نہیں کرتی اور بلیک میل ہوتی ہے ،پریس کانفرنس کا ریکارڈ پیمرا سے طلب کیا جائے ،پریس کانفرنس میں جوالزامات عدلیہ پر لگائے گئے ان کی انکوائری ہونا ضروری ہے ۔ جج ارشد ملک اپنی پریس ریلیز میں مریم نواز کے لگائے گئے الزامات کو ماننے سے انکار کرچکے ہیں۔ جج نے پریس ریلیز میں جو رشوت کی آفر کرنے کی بات کی وہ سنجیدہ نوعیت کی ہے جبکہ مریم نواز نے جو الزامات پریس کانفرنس کے دوران لگائے ہیں وہ توہین عدالت ہے ،وفاقی حکومت کو ہدایت کی جائے کہ عدلیہ کی آزادی کے لئے اقدامات کرے ۔