وزیر اعظم شہباز شریف نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت سمیت تمام ہمسایہ ممالک سے پرامن تعلقات چاہتے ہیں، خطے میں مستحکم امن کیلئے مسئلہ کشمیر کا حل ضروری ہے، مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے غیرقانونی اور یکطرفہ اقدامات سے امن عمل متاثر ہوا، مقبوضہ کشمیر میں آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں ماورائے عدالت قتل عام کیا جارہا ہے، بھارت مقبوضہ کشمیر میں پانچ اگست 2019ء کے غیرقانونی اقدامات واپس لے، بھارت کو سمجھنا ہوگا دونوں ممالک ایٹمی قوت ہیں جنگ آپشن نہیں ، ہم پڑوسی ہیں ہمیں فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم امن کے ساتھ رہیں یا جنگ کر کے رہیں۔ پاکستان اور بھارت کے مابین مسئلہ کشمیر جنگ ،کشیدگی اور تنازعہ کی بنیادی وجہ رہا ہے ،جب تک یہ مسئلہ حل نہیں ہوتا تب تک دونوں ملکوں کے درمیان امن قائم ہو سکتا ہے نہ تعلقات میں بہتری کی کوئی امید ہے ۔اس وقت دونوں ملک ایٹمی قوت کے حامل ہیں ،کسی ایک فریق کی چھوٹی سی غلطی بھی جنگ کا سبب بن سکتی ہے ،ویسے بھی دونوں ملکوں کو 20ویں صدی کے معاملات سے توجہ ہٹا کر 21ویں صدی کے مسائل پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔اس وقت دونوں ملکوں کو غذائی قلت اور بڑھتی آبادی کا سامنا ہے ،وسائل چند لوگوں کے کنٹرول میں ہیں ،اگر اس جانب توجہ نہ دی گئی تو پھر جنگیں لڑنے کیلئے زمین ہی باقی نہیں بچے گی، دونوں ایٹمی قوتوں کے پاس جنگ کوئی آپشن نہیں صرف پرامن مذاکرات ہی مسئلے کا حل ہے ۔نہ صرف اقوام متحدہ بلکہ خطے کے تمام ممالک اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ جنوبی ایشیا میں امن مقبوضہ کشمیر کے مسئلہ کے حل سے مشروط ہے، جب تک کشمیریوں کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حق رائے دہی نہیں دی جاتی تب تک اس خطے میں امن کا قیام ایک خواب ہی رہے گا ۔اس وقت وادی کشمیر دنیا کی سب سے بڑی فوجی چھاونی میں تبدیل ہو چکی ہے جبکہ مسلم اکثریت والے علاقے کو بھی ہندو اکثریت میں بدلنے کیلئے غیرقانونی تبدیلیاں کی جا رہی ہیں، 3 جون 1947ء کو تقسیم ہند کے منصوبے کے مطابق مسلم اکثریت کے علاقے پاکستان اور ہندو اکثریت کے علاقے بھارت میں شامل ہونا تھے لیکن ریاستوں کے بارے میں ایسا کوئی منصوبہ نہیں تھا کہ وہ مذہب کی بنیاد پر تقسیم ہوں گی۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ ہندوستان کے گیارہ صوبے تو براہ راست برطانوی اختیار میں تھے لیکن 562 ریاستیں اندرونی طور پر خودمختار تھیں جنھیں یہ اختیار دیا گیا تھا کہ وہ چاہیں تو آزاد رہیں یا پاکستان اور بھارت میں سے کسی ایک میں ضم ہو جائیں۔قیام پاکستان کے بعد درجن بھر ریاستیں ، پاکستان میں شامل ہوئی تھیں لیکن 70فیصد مسلم اکثریتی آبادی کی ریاست کشمیر کے ہندو مہاراجہ ہری سنگھ نے حیل و حجت سے کام لیا۔اس نے کشمیری عوام کی رائے کے بر عکس 95فیصد مسلم آبادی کے علاقے کو بھارت کے کنٹرول میں دے دیا تھا ۔ حالانکہ24 اکتوبر 1947ء کو آزاد کشمیر حکومت کا قیام عمل میں آ گیاتھا، جس کے صرف دو دن بعد 26 اکتوبر 1947ء کو مہاراجہ کشمیر نے ریاست کشمیر کا الحاق بھارت کے ساتھ کر دیا تھا۔معاہدے کے اگلے ہی روز بھارت نے اپنی فوج ، وادی میں اتار دی تھی۔قائد اعظم ؒنے کشمیر کے بھارت کے ساتھ الحاق اور بھارتی فوجی مداخلت کو مسترد کرتے ہوئے قائم مقام آرمی چیف جنرل گریسی کو فوری فوجی کاروائی کا حکم دے دیا تھالیکن اس کے انکار کے بعد بھارت کو وہاں پر اپنے پائوں جمانے کا موقع ملا تھا ۔اس کے بعد بھی پاکستان نے زبردست مزاحمت کی تھی لیکن یکم جنوری 1948ء کو بھارتی وزیراعظم نہرو ، مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ میں لے گئے تھے۔ انھیں توقع تھی کہ اقوام عالم ، بھارت اور کشمیر کے الحاق کی قانونی حیثیت کو تسلیم کرے گا اور پاکستان کو جارح قرار دے گا۔مگر ایسا نہ ہوا بلکہ 21 اپریل 1948ء کو کشمیر پر ایک قرارداد منظور ہوئی، جس میں کہا گیا کہ پاکستان اور بھارت اپنی اپنی فوجوں یا مسلح گروپوں کو کشمیر سے نکالیں تو وہاں استصواب رائے ہوسکتا ہے۔ یہ کامیابی البتہ ضرور ہوئی تھی کہ یکم جنوری 1949ء کو کشمیر میں جنگ بندی ہو گئی تھی۔26 جنوری 1950ء کو منظور ہونے والے بھارتی آئین میں کشمیر کی خصوصی حیثیت تھی جس کے آرٹیکل 370 میں یہ کہا گیا تھا یہ آرٹیکل واضح کرتا ہے کہ ریاست کو ہندوستانی پارلیمنٹ کے قوانین کے اطلاق میں متفق ہونا چاہیے، سوائے ان کے جو مواصلات، دفاع اور خارجہ امور سے متعلق ہوں۔ مرکزی حکومت ریاست کے نظم و نسق کے کسی دوسرے شعبے میں مداخلت کرنے کے اپنے اختیار کا استعمال نہیں کر سکتی۔مگر بھارت نے اس قانون کو بھی اپنی منشا کے مطابق تبدیل کر لیا ہے ۔ جنوری 1951ء میں دولت مشترکہ کے سالانہ اجلاس میں بھی کشمیر کے مسئلہ پر برطانیہ نے یہ تجویز پیش کی تھی کہ کشمیر میں پاک بھارت مشترکہ فوج کی نگرانی میں استصواب رائے کروایا جائے۔ پاکستان نے اس تجویز کو مان لیا تھا لیکن بھارت نے رد کردیا تھا۔جس کے بعد اس حساس موضوع پر پاکستان اور بھارت کے مابین کئی جنگیں ہوئیں لیکن ابھی تک مسئلہ جوں کا توں ہی ہے۔اب وزیراعظم پاکستان نے ایک بار پھر بھارت کو مسئلہ کشمیر پر مذاکرات کی پیش کش کی ہے ،جس کے بعد بھارت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ آگے بڑھے ۔