وزیر اعظم اپنے پہلے سرکاری دورے پر امریکہ پہنچ رہے ہیں۔ صدرٹرمپ کی دعوت پر ہونے والے اس دورے کو بین الاقوامی خصوصاً امریکی اور پاکستانی دانشور بہت باریک بینی سے دیکھ رہے ہیں۔کس قسم کے موضوعات زیر بحث آئیں گے، کیا عمران خان اور ٹرمپ کے درمیان کوئی قدر مشترک ایسی ہو گی جو انکے سرکاری تعلق کو ایک ذاتی رشتے میں تبدیل کرنے میں مدد گار ہو۔ کچھ مبصرین کا خیال ہے کہ اگر دونوں راہنمائوں کے درمیان ذاتی تعلق بن جاتا ہے تو یہ اس دورے کی سب سے بڑی کامیابی ہوگی۔لیکن ایک بات اس سلسلے میں ضرور ذہن میں رکھنے کی ہے کہ یہ دورہ روایتی طریقے سے امریکی دفتر خارجہ کے ذریعے طے نہیں پایا ہے بلکہ براہ راست وائٹ ہائوس نے اسکا ڈول ڈالا ہے۔اس لئے یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ عمران خان اور ٹرمپ کے درمیان طے پانے والے معاملات پر جن اداروں نے عملدرآمد کرنا ہے یا انکو آگے بڑھانا ہے کیا وہ بھی اسی پیج پر ہونگے جن پر دونوں راہنما متفق ہونگے۔ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی تاریخ بہت نشیب و فراز کی حامل ہے جس میں نشیب بد قسمتی سے ہمارے حصہ میں رہا ہے یعنی تکلیف ہم نے اٹھائی ہے ۔ امریکہ بہادر نے ہمارے طفیل روس کو شکست دی اور اب اپنے سب سے بڑے دشمن اسامہ بن لادن اور اسکی القاعدہ کو ہماری بھرپور مدد سے تقریباً ختم کر ڈالا۔ اس تعلق کی پیچیدگی سمجھنے کے لئے ایک پیرا اپنے اسی سال مارچ میں لکھے کالم سے نقل کر رہا ہوں : نائن الیون کے بعد دنیا تبدیل بھلے نہ ہوئی ہو لیکن پاکستان تبدیل ہو گیا۔ ہم دہشت گردی کی جنگ میں فرنٹ لائن سٹیٹ کیا بنے کہ آگ و بارود میں لپٹ کے رہ گئے۔گزشتہ سترہ سال میں، عزم، ہمت، حوصلے ، صبر اور شجاعت کی پاکستان کی قوم نے ایک ایسی تاریخ رقم کی ہے کہ دنیا میں اسکی مثال نہیں ملتی۔ اگر پاکستان کی قوم اسکے سکیورٹی اداروںاور سب سے بڑھ کر فوج میں یہ طاقت اور استطاعت نہ ہوتی تو آج افغانستان امریکہ اور مغربی دنیا کے لئے ایک اور ویتنام بن چکا ہوتا۔ نہ کوئی امن مذاکرات ہو رہے ہوتے نہ امریکہ افغانستان سے باعزت نکلنے کی خواہش پوری کرنے کے قابل ہوتا۔ بلکہ صدر بش اور اوباما اپنا دوسری ٹرم کا انتخاب جیتنا تو دور کی بات امریکی تاریخ میں ولن کے طور پر جانے جا رہے ہوتے۔ ہم نے یہ جنگ انکے خلاف لڑی ہے جنہوں نے روس جیسی سپر پاور کو شکست دی تھی۔ جوہر قسم کے اسلحے سے لیس بھی تھے، تربیت یافتہ بھی تھے اور سب سے بڑھ کر گھر کے بھیدی اور یہاں پر انکے ہمدرد بھی تھے۔ ہم یہ جنگ تقریباً جیت چکے ہیں، ہم نفرتوں کو ختم کر رہے ہیں، محبتوں کا سلسلہ شروع کرنے کو ہیں جہاں سے جنرل ضیاء کے زمانے میں اسے توڑا گیا تھا۔ہم دہشت گردوں اور دہشت گردی کو پچھاڑ چکے ہیں۔اب اس نفرت کے زہر کو معاشرے سے نکالنے کا کام شروع کر چکے ہیں جو اس ساری خرابی کا باعث بنا۔ہم نے بہت کچھ سن لیا، ڈو مور سے لے کر، ناکام ریاست کے طعنے، ہماری بہادر اور پیشہ ور افواج کے خلاف ہرزہ سرائی، پاکستان کو توڑنے کی مختلف سازشیںہم دیکھ چکے ہیں۔لیکن اب بس، بہت سن لیا بہت برداشت کر لیا۔ اب دنیا کو ہماری بات سننی ہے۔سچی بات۔ وزیر اعظم کو یہی سچی بات کرنی ہے کہ ہم نے آپکی بہت کاسہ لیسی کی ہے اسکے نتیجے میں ہمیں کیا ملا ۔اگر افغانستان میں امن عمل کامیاب کرنا ہے تو یہ صرف امریکی فوجوں کی واپسی تک محدود نہیں ہونا چاہئے بلکہ ایک دیرپا امن کے قیام کے لئے تمام سٹیک ہولڈرز کو ملکر ایک طویل عرصے تک کام کرنا ہو گا اسکے لئے فریم ورک بنانے کی ضرورت ہو گی۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ امریکہ کا طرز عمل کام نکلنے کے بعد ایک ایسے مکار شخص کا ہو جاتا ہے جو آپ کی مدد کا اقرار توکجا آپ کو پہچاننے سے انکار کر دیتا ہے۔اب بھی اگر اسکی محبت ہمارے لئے جاگی ہے تو اسکی وجہ سر دست افغان امن عمل ہے جس کے لئے اسکو پاکستان کی ضرورت ہے۔اس دورے کی دعوت ٹرمپ کی عمران خان سے محبت نہیں ہے نہ ہی پاکستان کے حوالے سے انکی سوچ میں کوئی بڑی تبدیلی ہے۔ امریکی صدور کا مسئلہ یہ رہا ہے کہ وہ جاتے جاتے اپنے کھاتے میں کوئی بڑا بین الاقوامی کارنامہ لکھوانے کے چکر میں ہوتے ہیں بعد میں بھلے اس کارنامے کو آنے والا صدر مکمل ناکامی قرار دیکر ساری ذمہ داری سے چھٹکارا حاصل کر لے جو اسکے پیشرو نے امریکی ریاست کے ایماء پر کی ہوتی ہے۔ اسکی حالیہ مثال ایران امریکہ معاہدہ ہے۔ صدر اوباما کو بہت جلدی تھی، کئی با شعور ماہرین نے اسکو بار بار متنبہ کیا کہ یہ معاہدہ ضرور ہونا چاہئے لیکن اسکو عجلت میں نہ کریں ۔ مگر اوباما نے کسی کی نہ سنی اور اس معاہدے پر چار یورپی ممالک کی ضمانت کے ساتھ دستخط کر دئیے۔صدر ٹرمپ نے تو جیسے طے کر لیا ہے کہ اپنے پیشرو کے کسی اقدام کو برقرار نہیں رہنے دینا وہ ایک ایک کر کے انکے امیگریشن، صحت اور دوسرے شعبوں میں اصلاحات کے پیچھے لٹھ لیکر پڑ گئے۔ آخر کار انہوں نے ایران امریکہ معاہدہ بھی ختم کر دیا۔ صدر ٹرمپ شام کی لڑائی ہو یا امریکہ سے فوجوں کی واپسی ، کسی نہ کسی طور اسکے خاتمے اور فوجوں کی واپسی کا سہرہ اپنے سر باندھنا چاہتے ہیں ۔ حالانکہ شام کے معاملے میں انہیں اعلان کر کے منہ کی کھانی پڑی کیونکہ وہاں کی ملٹری اسٹیبلشمنٹ بھی بہت تگڑی ہے انہوں نے ٹرمپ کی خواہش کے مطابق اس پر عملدرآمد نہیں ہونے دیا۔ البتہ افغانستان سے فوجوں کی واپسی اور امن عمل کو امریکی ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی بھرپور حمایت حاصل ہے اس لئے یہ بیل منڈھے چڑھ جائے گی۔پاکستان کیلئے سب سے اہم یہ ہے کہ امریکہ اور اسکے حواری اس بات کی نہ صرف یقین دہانی کرائیں بلکہ عملی اقدامات بھی کریں کہ انکی فوجیں نکلنے کے بعد وہ وہاں کوئی شرارت نہیں کرینگے۔ورنہ یہ عمل امریکی فوجوں کی پر امن واپسی کے لئے تو کارگر ہو گا لیکن ہم وہیں کے وہیں کھڑے اور امریکہ کو بد دعائیں دے رہے ہونگے۔