چیف جسٹس آف پاکستان آصف سعید کھوسہ جو چند ہفتوں میں اپنی مدت پوری کر کے ریٹائر ہونے والے ہیں‘ جاتے جاتے وزیراعظم عمران خان کو ایک کڑی مشکل میں ڈال گئے ہیں ۔آرمی چیف کی مدت ملازمت جو 29 نومبر کو ختم ہو گئی تھی میں حکومتی نوٹیفکیشن کے تحت چھ ماہ کی توسیع کے حوالے سے بال اب پارلیمنٹ کے کورٹ میں ہے ۔ویسے تو معاملہ سیدھا سادا لگتا ہے اور حکومت کے قانونی مشیر آرمی ایکٹ میں ترمیم کے ذریعے یہ کام کرنا چاہتے ہیں تاکہ آرمی چیف کی مدت ملازمت اور شرائط کا تعین ہو سکے لیکن بعض قانونی ماہرین کا خیال ہے آئین کے آرٹیکل243 اور255 جن کے تحت آرمی چیف کی مدت ملازمت کا تعین کیا جانا ہے ‘میں ترمیم کے لیے دونوں ایوانوں میں دو تہائی اکثریت درکار ہو گی ۔ایوان زیریں یعنی قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کی حکومت کو حلیفوں کو ساتھ ملا کر معمولی اکثریت حاصل ہے جبکہ سینیٹ میں ایسا نہیں ہے۔دونوں معاملات میں حکومت کو اپوزیشن کا تعاون درکار ہو گا لیکن عمران خان تو سمجھتے ہیں کہ اپوزیشن سے ہاتھ ملانا ان کی توہین ہے ۔اس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ خود ان کے قریبی مشیروں کے ذہنوںمیں یہ بات جاگزیں ہے کہ ان کے سپورٹرز یہی چاہتے ہیں کہ اپوزیشن کے ساتھ تال میل رکھنے کے بجائے ان چوروں اور ڈاکوؤں کو جیلوں میں رکھا جائے۔ اسی بنا پر ان کے حکومتی آرڈیننس جو فی الحال اپوزیشن کی انڈرسٹینڈنگ کے بعد طاق نسیان میں رکھ دیئے گئے ہیں میں سے کچھ کا تعلق نیب کے قیدیوں کو جیل میں سی کلاس دینا اور دیگر مراعات سے محروم رکھنا ہے۔ ہمارے نظام قانون جس کے تحت انڈر ٹرائل ملزم ،مجرم نہیں ہوتا کو مدنظر رکھتے ہوئے بیوروکریسی نے نیب قوانین میں تبدیلی کیلئے اپنی تجاویز دے دی ہیں جن میں وفاقی سیکرٹریز پر مشتمل چھ رکنی سکروٹنی کمیٹی بنائی گئی ہے ۔وفاقی سیکرٹریز کمیٹی نے اس سلسلے میں جو تجاویز پیش کی ہیں ان میں کہا گیا ہے کہ کرپشن کیسز کا اطلاق 50کروڑ روپے سے زیادہ پر کیا جائے،پراسیکیوٹر جنرل نیب کی تعیناتی میں صدرِ مملکت اور چیئرمین نیب کا کردار ختم کرکے اس کا اختیار وفاقی حکومت کو دیا جائے، سرکاری افسروں کو طلب کرنے سے متعلق نیب کا اختیار ختم کیا جائے، نیب کی تحویل میں افسروں کو 90روز کے بجائے 14روز رکھا جائے۔ نیب کا کوئی افسر ریفرنس دائر ہونے تک تحقیقات سے متعلق بیان نہ دے،نیب سکروٹنی کمیٹی کی منظوری کے بغیر بیورو کریٹس کے خلاف کارروائی نہیں کرے گا۔ دوسری طرف یہ رٹ کہ’’ میں این آر او نہیںدوں گا ‘‘جاری وساری ہے، انہی قباحتوں کی بنا پر اب حلیفوں کے چاؤ چونچلے اٹھانے کا فیصلہ کیا گیا ہے لیکن اس حکومت کے سیاسی بزر جمہروں کی سمجھ میں کیوں نہیں آتا کہ چھوٹی چھوٹی پارٹیوں پر مشتمل حواری کسی shylock سے کم نہیں ہوتے اور حکومت کوکمزور دیکھ کر اپنے Pound of fleshڈھٹائی سے مانگتے ہیں۔انہی رابطوں کے پہلے مرحلے کے طور پر شاہ محمود قریشی نے کراچی میںاپنی حلیف جماعتوں ایم کیو ایم اور جی ڈی اے سے بات چیت کی ہے لیکن ان سے ماضی میں کئے گئے وعدے پورے نہیں کئے گئے ۔سندھی سیاسی حلیفوں کا مسئلہ یہ ہے کہ صوبے میں اپوزیشن میں ہونے کی وجہ سے پیپلزپارٹی کی حکومت سے کچھ نہیں مل سکتا اور تحریک انصاف ایشیائی معشوق کی طرح وعدے کرکے عملی طور پر کچھ نہیں کرتی ۔پی ٹی آئی کے لیے ایک مشکل یہ بھی ہے کہ کراچی یا سندھ کی ترقیاتی سکیموں کے لیے جو پیسے دینے ہیں جن میں خاص طور پر126 ارب کا کراچی پیکیج قابل ذکر ہے ،اس سے پیپلزپارٹی کی حکومت کو بھی فائد ہ پہنچے گا ۔جہاں تک چودھری برادران کا تعلق ہے ان سے کئے گئے تحریری معاہدوں کی بھی دھجیاں اڑائی گئی ہیں۔بعض اور طے شدہ شرائط کے علاوہ مونس الہٰی کو وفاقی وزیر بنانے کا وعدہ ہنوز پورا نہیں ہوا۔ جہاں تک اپوزیشن کا تعلق ہے اس سے مل بیٹھنے کے لیے حکمرانوں کو ناک نیچی کرنا پڑے گی ۔ معاملہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا ہو ،الیکشن کمیشن کی تشکیل یا نیب کے قوانین میں بعض بنیادی ترامیم کا، یہ کچھ لو کچھ دو کے فارمولے کے تحت ہی ہو سکتا ہے جسے وزیراعظم ماضی میں حقارت سے ٹھکراتے رہے کہ میں اپوزیشن کے ساتھ نہیں بیٹھوں گا ۔جہاں انہوں نے بہت یوٹرن لئے ہیں لیکن وہ اس معاملے میں استقامت کے ساتھ قائم ہیں ۔ کافی عرصہ بعد خان صا حب نے ہفتہ کو لاہور میںپریس کانفرنس کی جسے خاصا مایوس کن کہا جا سکتا ہے ۔پریس کانفرنس کا مقصد لاہور سمیت ملک میں سموگ پھیلنے سے تھا ،اس معاملے میں انہوں نے اچھے فیصلوں کا اعلان کیا بالخصوص اچھی کوالٹی کا یورپی معیار کا پٹرول منگوانا ، الیکٹرک گاڑیوں کی مینو فیکچرنگ اور درآمد اور ریفائنریوں میں بہتر ریفائنڈ تیل پیداکرنے کی صلاحیت پیدا کرنا شامل تھے لیکن یہ ایسی دور رس چیزیں ہیں جن کے لیے خاصا سرمایہ اور منصوبہ بندی درکار ہو گی اور اگر اس پر عمل ہو بھی جائے تو ایسی کنورژن پر کئی برس لگیں گے، فی الحال تو ایسی تجاویز جہاں پی ٹی آئی حکومت سے پشاور بی آر ٹی کی تکمیل نہیں ہو سکی اور مانگ میں کمی کی وجہ سے گاڑیوں سمیت بڑے پیمانے کی صنعتیں جمود کا شکار ہیں ،قابل عمل بھی نہیں ہیں۔ وزیراعظم کی سوچ اورمعروضی حالات سے لگتا ہے کہ وہ زمینی حقائق سے کچھ کٹے ہوئے تھے ۔ اسی پریس کانفرنس میں انھوں نے برملا طور پر اپنے وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی پیٹھ ٹھونکتے ہوئے کہا کہ وہ خاموشی سے بڑا کام کر رہے ہیں لیکن کسی کو پتہ نہیں چلتا لیکن ساتھ ہی انھوں نے وسیع پیمانے پر پنجاب کی بیوروکریسی میں تبدیلیوں کا عندیہ دے دیا ۔پنجاب میں گورننس ٹھیک کرنے کے لیے انہوں نے ایک نئے آئی جی پولیس شعیب دستگیر کا تقرر کر دیا گویا کہ پی ٹی آئی کی 15ماہ کی حکومت میں پانچویں مرتبہ آئی جی تبدیل کیا گیا یعنی اوسطاً ہر تین ماہ بعد ایک نیا آئی جی۔ اسی طرح تیسری مرتبہ چیف سیکرٹری تبدیل کیا گیا ہے، علاوہ ازیں دیگر شعبوں میں بھی اعلیٰ افسروں کی تقرریاں کی گئی ہیں ۔شاید خان صاحب کے کان بھرے جاتے ہیں کہ یہاں بیوروکریسی میں شہبازشریف کے آلہ کار چھپے ہوئے ہیں جو انہی کے ایجنڈے پر کام کرتے ہیں ۔ شہبازشریف نے پنجاب میں دس سال تک حکمرانی کی ہے ،ان سے پہلے پنجاب میں پرویزالٰہی کا طوطی بولتا تھا لہٰذا اعلیٰ بیوروکریسی کا کسی نہ کسی سطح پر اس وقت کے حکمرانوں سے تال میل فطری تھا ۔بیوروکریٹ تو ریاست کا ملازم ہوتا ہے نہ کہ کسی شخصیت کا اور اچھے برے کی تمیز بھی لیڈر شپ کی نشانی ہے۔اسی بنا پر جو ٹیم لائی گئی ہے ان میں اکثر کا تعلق بھی شہبازشریف کی سابق ٹیم سے ہے۔ یہاں یہ سوال پید اہوتا ہے کہ اگر خان صاحب کے ’’وسیم اکرم پلس ‘‘ اتنا بہترین کام کر رہے ہیں جو محض پبلسٹی نہ ہونے کی بنا پر لوگوں کی نظروں سے اوجھل رہتا ہے تو پھر اتنی اکھاڑ پچھاڑ چہ معنی دارد ؟۔ظاہر ہے کہ عثمان بزدار ان کی مجبوری بن چکے ہیں کیونکہ بزدار کو چودھری برادران کی آشیر باد بھی حاصل ہے اور ان کے یارغار جمیل گجر کے حوالے سے کلہ بھی مضبوط ہے۔ دوسری طرف خان صاحب نے اپنی لیگل ٹیم کو بھی شاباش دی ہے کہ انھوں نے بڑے دھڑلے سے سپریم کورٹ میں آرمی چیف کا کیس لڑا لیکن عمومی طور پر قانونی ماہرین کا خیال یہ تھا کہ اس کے الٹ ہو گا ۔وزیر قانون فروغ نسیم سے صرف اس لیے استعفیٰ لیا گیا کہ وہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ جو اپنی ایکسٹینشن کے معاملے میں فریق تھے کا کیس لڑ سکیں، بعدازاں بڑی دھوم سے دوبارہ وزارت کا حلف اٹھوایا گیا ۔اٹارنی جنرل کیپٹن (ر) انور منصور نے تو سپریم کورٹ میں اتنے گل کھلائے ہیں کہ عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سہ رکنی بینچ کو ان کی کئی بار سرزنش کرنا پڑی، انہوں نے ایسی ایسی بونگیاں ماریں یعنی ’کوئی بھی آرمی چیف بن سکتا ہے‘۔جب بینچ نے جنرل اشفاق پرویز کیانی کی بطور آرمی چیف ایکسٹینشن کا نوٹیفکیشن مانگا تو موصوف نے انہیں جسٹس کیانی بنا دیا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ انہیں بار بار ناقص نوٹیفکیشن لانے پر چیف جسٹس کو جھلا کرکہنا پڑا کہ ایسا ناقص نوٹیفکیشن تو اسسٹنٹ کمشنر کا بھی تیار نہیں کیا جاتا، آپ نے آرمی چیف جیسے منصب کو کیوں پنگ پانگ کا بال بنا دیا ہے ۔ سب سے بڑھ کر خان صاحب آ ج کل اپنی معاشی ٹیم کو شاباش دیئے جا رہے ہیں، ان کا فرمانا ہے کہ ملک معاشی بحران سے نکل آیا ہے ۔بین الاقوامی رینکنگ ادارے موڈیزکی طرف سے کریڈٹ رینکنگ کو منفی سے مستحکم کرنے سے ان کے اس بیانیے کو مزید تقویت ملے گی۔مثال کے طور پرکرنٹ اکاؤنٹ خسارہ اب سرپلس ہو گیا اور برآمدات میں اضافہ ہوا ہے حالانکہ برآمدات میں چالیس فیصد ڈی ویلیوایشن کے باوجود اتنا اضافہ نہیں ہو سکا جس شرح پر 2013 ء میں تھا۔ جہاں تک کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ جو درآمد اور برآمد کے درمیان تفاوت کی مد میں محض ایک ماہ کے لیے صرف اس لیے بہتر ہوا ہے کہ ملک میں صنعتی شعبے کے انحطاط اور گرتی ہوئی مانگ کی بنا پر درآمدات خاصی گر گئی ہیں ۔جہاں تک ملک کو گھن کی طرح کھانے والے گردشی قرضوں کا تعلق ہے وہ جوں کے توں ہیں ۔پی آئی اے جس پر فضائیہ کے ایک ریٹائرڈ افسر کو بطور ایم ڈی تعینات کر کے بڑے چرچے کئے گئے کہ قومی ائر لائن کو ٹھیک کر دیا گیا ہے‘ اب یہ منکشف ہوا ہے کہ پی آئی اے کا بھاری بھرکم خسارہ جوں کا توں ہے۔ چند ماہ پہلے مشیر تجارت رزاق داؤد نے میرے پروگرام ’ہو کیا رہا ہے‘میں انکشاف کیا کہ سٹیل ملز کی نجکاری کا فارمولہ وضع کر لیا گیا ہے، سٹیل ملز کا سفید ہاتھی جو بند پڑا ہے اپنی زمینیں بیچ کر ملازمین کے واجبات اور تنخواہیں ادا کرنا چاہتا ہے ۔یہاں پر بنیادی سوال پیدا ہوتا ہے کہ مبارک سلامت اور اپوزیشن کو مافیا کہنے کے اس ماحول میں ساون کے اندھوں کو ہرا ہی نظر آ رہا ہے لیکن بندہ مزدور کے اوقات تلخ سے تلخ تر ہوتے جا رہے ہیں۔