صلاح الدین تاریک کوٹھری کے ننگے فرش پر پڑا تھا۔ مگر یہ صلاح الدین نہیں تھا! یہ اس کا جسم تھا! صلاح الدین روح کی شکل میں جسم سے نکلا۔ پولیس کی تنگ و تار کوٹھری کے چھت کو چیرتا‘ فضا سے سیدھا اوپر کو گیا۔ اوپر عجیب منظر تھا۔ جس صلاح الدین کو دنیا والے پاگل گردانتے تھے اور جس صلاح الدین کو پولیس بے یار و مددگار سمجھ کر وہ سلوک بدرجۂ اتم کرتی رہی تھی جو بے یارومددگار ملزموں کے ساتھ پاکستان پولیس بالعموم اورپنجاب پولیس بالخصوص کرتی ہے‘ اس صلاح الدین کے استقبال کے لئے ستارے دو رویہ کھڑے تھے۔ کہکشائیں پھول نچھاور کر رہی تھیں اور فرشتے ‘ وی آئی پی پروٹوکول دے رہے تھے۔ صلاح الدین انسان تھا! فرات کے کنارے مرنے والا کتا نہ تھا۔ نہ وزیر اعظم کا رتبہ‘ میرے منہ میں خاک‘ امیر المومنین عمر فاروق جیسا ہے! اگر کتے کی ذمہ داری سے عمر فاروقؓ جیسا بطلِ جلیل بری الذمہ نہیں ہو سکتا تو ایک انسان کی اندھی‘ بے رحم‘ موت سے وزیر اعظم عمران خان کو کون لاتعلق قرار دے گا؟ فرشتے صلاح الدین کو پروٹوکول دے رہے تھے۔ بھاگ دوڑ ہو رہی تھی۔ اس افراتفری میں‘ بار بار ‘ فرشتے ایک نام لے رہے تھے۔ وہ نام ناصردرانی تھا!ایک فرشتے نے دوسرے سے پوچھا۔ ’’یہ ناصردرانی کہاں سے آ گیا؟ اس کا صلاح الدین کی موت سے کیا تعلق ہے؟ اسی کا تو تعلق ہے‘‘ فرشتے نے جواب دیا۔ ’’اسی کا تو تعلق ہے۔ جن پراسرار حالات میں صلاح الدین کی موت پولیس کی تحویل میں واقع ہوئی ہے‘ ان پراسرار حالات کا تعلق براہ راست ناصر درانی سے ہے!‘‘ صلاح الدین اس وقت فرشتوں کی تحویل میں ہے۔ فرشتے ایف آئی آر کاٹ چکے ہیں۔ ایف آئی آر میں دو نام درج ہو چکے ہیں۔ ایک حکومت کے سربراہ عمران خان نیازی کا۔ دوسرے پنجاب پولیس کے سربراہ کا، جسے ہم دنیا والے آئی جی پنجاب کہتے ہیں۔ دلچسپ بات عالم بالا میں یہ ہوئی کہ جب ایف آئی آر میں آئی جی پنجاب کا نام لکھا جا رہا تھا تو دوسرے فرشتے نے اعتراض کیا کہ آئی جی کا تو بیان اخبار میں چھپ چکا ہے۔ آئی جی نے تو اس واقعہ پر خود برہمی کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ حوالات کا مطلب ملزمان کی محفوظ تحویل ہے! ایف آئی آر درج کرنے والا فرشتہ ہنسا اور دوسرے فرشتے کو کہا۔ ہر آئی جی یہی کہتا ہے اور کوئی پولیس والے ملزموں کو ہتھکڑی نہیں لگواتا۔ یہ پولیس اگر عرفان صدیقی جیسے عمر رسیدہ صحافی کو ہتھکڑی لگا سکتی ہے تو قتل کے ملزموں کو ہتھکڑی کیوں نہیں لگاتی؟ جیل میں کیوں نہیں ڈالتی؟ یہ مذاق اس ملک میں جس کا نام پاکستان ہے ایک طویل عرصہ سے چل رہا ہے کہ عام آدمی ملزم ہے تو ہتھکڑی لگائو اور ملزم پولیس والا ہے تو صرف مقدمہ قائم کرو! اسی لئے تو ایف آئی آر میں وزیر اعظم کے ساتھ آئی جی کا نام لکھا جا رہا ہے!‘‘ یہ کیسی حکومت ہے جو اربوں کھربوں کے ڈاکے ڈالنے والوں کو جیل میں اے سی فراہم کرتی ہے‘ ان کی حفاظت پر کروڑوں روپے خرچ کر رہی ہے مگر ایک عام پاکستانی جیل میں مرجاتا ہے اور جن کی تحویل میں مرتا ہے انہیں ہتھکڑی تک نہیں لگتی! اور کسے معلوم ہے کہ زرداری اور نواز شریف کس جرم میں سزا کاٹ رہے ہیں! اوپر جہاں اصل ایف آئی آر کٹتی ہے‘ اصل جرم بھی وہیں درج ہوتے ہیں! کیا خبر نواز شریف اس حاملہ عورت کی موت کی سزا بھگت رہے ہوں جو یاسر عرفات کی آمد پر فورٹریس سٹیڈیم کے پاس‘ گھنٹوں رُکی ہوئی ٹریفک میں بچہ جن کر مر گئی تھی۔ کیا خبرزرداری صاحب کے عہد اقتدار میں کتنے بے گناہ مرے؟ سنا ہے وردی کو کھال قرار دینے والے کمانڈو کو کوئی پراسرار بیماری لاحق ہے! کیا خبر اس مظلوم مشتاق رضوی کی بیوہ کی آہ کمانڈو کو لگ گئی۔ جسے اس لئے سزا دی گئی کہ اس نے اپنے سفیر کے خلاف وزارت خارجہ کو جائز شکایت کی تھی۔سفیر جرنیل تھااور انڈونیشیا میں تعینات تھا۔ وہ کمانڈو صدر کا دوست تھا۔ شکایت جائز تھی۔ سفارت خانے کی عمارت غلط طریقے سے بیچی جا رہی تھی۔ مشتاق رضوی اسی سفارتخانے میں تعینات تھا۔ اس نے معاملہ طشت ازبام کر دیا۔ مشتاق رضوی سے کرسی، منصب، دفتر سب کچھ کمانڈو صدر نے چھین لیا۔ ایک دن ہارٹ اٹیک ہوا۔ رضوی چل بسا۔ مگر کون کہہ سکتا ہے کہ کمانڈو جو اپنے وطن کی دھرتی پر پائوں تک نہیں رکھ سکتا‘ مشتاق رضوی کے خون کا خراج دے رہاہے!! خدا کے بندو! خدا کے لئے بات سمجھو! صلاح الدین پاگل تھا یا چور تھا‘ جو کچھ بھی تھا انسان تھا۔ ہائے رومی کہاں یاد آ گیا: گفت کسی خواجہ سنائی بمرد مرگ چنین خواجہ نہ کاریست خرد کاہ نبود او بہ بادی پرید آب نبود او کہ بہ سرما فسرد شانہ نبود او کہ بہ موئی شکست دانہ نبود او کہ زمینش فشرد کسی نے بتایا ہے کہ سنائی مر گیا۔ ایسے شخص کی موت معمولی واقعہ نہیں! وہ کوئی تنکا تھوڑی تھا کہ ہوا اڑا لے گئی‘ نہ پانی تھا کہ سردی میں جم گیا۔ خدا کے بندو وہ کنگھی تو نہیں تھا کہ بالوں میں کرنے سے ٹوٹ گئی۔ نہ ہی دانہ تھا جسے زمین دبا لے! صلاح الدین انسان تھا۔ پاکستانی تھا! پاکستانی ریاست اس کی موت کی ذمہ دار ہے!کیا خبر صلاح الدین کی وجہ سے فرشتے اس حکومت کا تختہ الٹ دیں! ؎ فقیر خاک نشیں اور اس کی جنبش لب پھر اس کے بعد ہوئی سلطنت تباہ مری کسی کے کہنے پر ‘ مزاروں کے چوکٹھوں کو بوسہ دینے والے وزیر اعظم کو کیا خبر کہ کس ناحق خون پر اقتدار کے قریے کو زمین سے اوپر اٹھا کر اوندھے منہ نیچے گرا دیا جائے؟ ؎ بس اب اسے کوئی غیب کا ہاتھ انڈیل دے گا کہ صبر کی انتہا سے بستی چھلک رہی ہے جب بھی کوئی بے گناہ صلاح الدین پنجاب پولیس کی تحویل میں مرے گا۔ فرشتے آسمانوں پر ناصر درانی کا نام لیں گے! یہ نام وزیر اعظم عمران خان کی جان دنیا میں چھوڑنے والا ہے نہ قیامت کے دن!! یہ ستمبر 2018ء کا پہلا ہفتہ تھا جب وزیر اعظم عمران خان نے قوم کو بتایا کہ ناصر درانی‘ پنجاب پولیس کو اسی طرح سدھاریں گے جس طرح انہوں نے ظفریابی کے ساتھ کے پی کے پولیس کو تبدیل کیا ہے۔ اسی ہفتے وزیر اعظم نے ٹوئٹر پر قوم کو دوبارہ اعتماد میں لیا کہ ناصر درانی پنجاب پولیس کی اصلاح کریں گے! ستمبر کی سترہ تاریخ تھی۔ جب ناصر درانی نے پولیس ریفارم کمیشن پنجاب کا چارج لیا۔ ٹھیک بائیس دن بعد‘ اکتوبر کو ناصر درانی نے استعفیٰ دے دیا اور خاموشی سے گھر چلے گئے! وہ دن اور آج کا دن‘ وزیر اعظم نے قوم کو نہیں بتایا کہ کیا ہوا؟ اگر آپ نے منقار زیر پر ہی رہنا تھا‘ اگر آپ نے سٹیٹس کو کے سامنے ہار ہی ماننا تھی‘ اگر استحصالی قوتوں کے سامنے پولیس کی تبدیلی آپ کے بس کی بات نہیں تو بڑا بول بولنے کی کیا ضرورت تھی؟ ٹوئٹر پرشوق آزمائی کا مشورہ کس طبیبِ حاذق نے دیا تھا!! جو جانتا ہے وہ جانتا ہے جو نہیں جانتا وہ جان لے کہ پنجاب پولیس کے ضمن میں تحریک انصاف کی حکومت اپنے وعدوں سے مکمل انحراف کر چکی ہے! اس کا کوئی ارادہ نہیں کہ پولیس کے طرز عمل کو بدلے! ایسا ہوتا تو ناصر درانی کے استعفیٰ کے بعد وزیر اعظم چپ نہ سادھ لیتے! صلاح الدین مرتے رہیں گے۔ زرداریوں، نواز شریفوں، مریم صفدروں اور حمزہ شہبازوں کی خدمتیں‘ چاپلوسیاں جیلوں میں جاری رہیں گی۔ آئی جی برہمی کا اظہار کرتے رہیں گے۔ پولیس کی تحویل میں قتل کی تفتیش خود پولیس والوں کو دی جاتی رہے گی! پولیس والوں کو ہتھکڑی کبھی نہیں لگے گی! بے کس، بے بس ملزموں کی چیخیں عقوبت خانوں کی چھتوں کو چیر کر آسمانوں تک جاتی رہیں گی! پھر ایک دن آسمانوں سے صلاح الدینوں کی چیخوں کا جواب آئے گا! ہشیار! خبردار! وزیر اعظم صاحب ! اپنا جواب تیار رکھیے!