وزیر اعظم عمران خان 19دسمبر سے شروع ہونے والی سہ ملکی کوالالمپور سمٹ سے قبل سعودی عرب پہنچے اور مشترکہ مفادات کی ذیل میں آنے والے اہم تزویراتی‘ معاشی و سیاسی امور پر ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے تبادلہ خیال کیا۔ وزیر اعظم نے سعودی ولی عہد کا کشمیر کے معاملے پر حمایت اور ترقیاتی و سیاحتی منصوبوں میں دلچسپی ظاہر کرنے پر شکریہ ادا کیا۔ ملاقات میں توانائی‘ سکیورٹی‘ دفاع اور عوامی سطح پر رابطے بڑھانے پر اتفاق کیا گیا۔ اس دورے کے حوالے سے بعض حلقے شکوک و شبہات پیدا کرنے کی کوشش میں رہے۔ ان شکوک کو مشرق وسطیٰ کی علاقائی صورت حال کے تناظر میں ابھارا جا رہا ہے۔ بہرحال وزیر اعظم کو رخصت کرنے کے لئے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کا بنفس نفیس ایئر پورٹ تشریف لانا ظاہر کرتا ہے کہ مختلف معاملات پر مشاورت کا سلسلہ مثبت رہا ہے۔ مشرق وسطیٰ میں بنیادی طور پر تین بڑے مسائل ہیں جن میں سعودی عرب کا کردار اہم ہے۔ پہلا معاملہ تیل کی پیداوار اس سطح پر برقرار رکھنا جس سے عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں ہموار رہیں۔ دوسرا معاملہ خطے میں امریکہ کے اتحادی کے طور پر کردار ہے۔ سعودی عرب اور ایران کے مابین تعلقات میں کشیدگی تیسرا مسئلہ ہے تاہم اس مسئلے کی کوکھ سے کئی نئے تنازعات پیدا ہو چکے ہیں۔ ایران کی ایک مسلکی شناخت سے بالکل ویسی شناخت جیسی سعودی عرب کی ہے۔ دونوں تیل کی منڈیوں میں ایک دوسرے کے حریف ہیں۔ ان کے اختلافات بڑھتے رہیں اس میں عالمی طاقتوں کا مفاد ہے۔ حالیہ برس وزیر اعظم عمران خان نے دونوں برادر ممالک کی قیادت سے باہم اختلافات ختم کرنے کے سلسلے میں بات کی۔ ایران اور سعودی عرب کی طرف سے مثبت اشارے ملنے پر پاکستان نے مصالحت کاری کی کوششیں شروع کیں۔ ان کوششوں کا سردست کوئی بڑا نتیجہ ظاہر نہیں ہوا مگر سعودیہ میں آرام کو کمپنی کی تنصیبات پر میزائل حملے کے بعد معاملہ جس طرح تحمل سے طے کر لیا گیا یہ معمولی بات نہ تھی۔ پاکستان‘ ترکی اور ملائشیا مسلم دنیا کے وہ لیڈر ہیں جو جدید دفاعی‘ معاشی اور سماجی تصورات کے متعلق واضح نکتہ نظر رکھتے ہیں۔ تینوں ممالک سمجھتے ہیں کہ مسلم دنیا کے مسائل کی بڑی وجہ آپس کی نااتفاقی اور تعصبات ہیں۔ اسلامو فوبیا‘ معاشی ترقی‘ دفاعی ٹیکنالوجی‘ زراعت و صنعت میں جدت کاری اور شہریوں کی بہبود کے حوالے سے یکساں سوچ نے ان ممالک کو ایک ایسا نیا پلیٹ فارم تشکیل دینے کی طرف مائل کیا جہاں تینوں ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر آگے بڑھ سکیں۔ اسی کی دہائی میں آر سی ڈی کی تنظیم تھی جس میں پاکستان‘ ایران اور ترکی شراکت دار تھے۔ حالیہ برس وزیر اعظم عمران خان نے جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کیا تو اس سے پاکستان کی ریاستی اور بین الاقوامی ترجیحات سے متعلق ابہام ختم ہو گیا۔ اس اجلاس کے بعد تینوں ممالک کے سربراہان نے باہمی تعاون کو فروغ دینے کے لئے نئی تنظیم قائم کرنے کا اعلان کیا۔ اس کا آغاز امت مسلمہ کے مسائل اجاگر کرنے اور پسماندگی دور کرنے کے لئے ایک انگریزی ٹی وی چینل قائم کرنے کے فیصلے سے ہوا۔19دسمبر سے 21دسمبر تک ملائشیا کے شہر کوالالمپور میں تینوں ممالک کے سربراہ ایک بار پھر مل کر عالمی اور علاقائی معاملات کے ساتھ ساتھ عالم اسلام کے مسائل کو حل کرنے کی ممکنہ تدابیر پر غور کریں گے۔ غالباً یہی وہ نکتہ ہے جس پر سعودی عرب یا خلیج میں اس کی اتحادی عرب ریاستوں میں سے کسی کو اعتراض کا موقع ملا۔ مسلمان ریاستوں کی عرب لیگ ہو یا او آئی سی ان تنظیموں نے فلسطین اور کشمیر کی آزادی کے لئے متاثر کن کردار ادا نہیں کیا۔ دونوں تنظیمیں اپنے منشور کی ان شقوں پر عمل نہیں کر رہیں جن کا تعلق مسلمان معاشروں کو داخلی و خارجی سطح پر مضبوط بنانا ہے۔ 5اگست کو بھارتی حکومت نے جس طرح عالمی قوانین کا مذاق اڑاتے ہوئے کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کا خاتمہ کیا اس پر مسلم ممالک کی جانب سے اگر مضبوط اظہار مذمت آتا تو بھارت کو یہ جرات نہ ہوتی کہ وہ 130دن سے مسلسل کرفیو نافذ کر کے کشمیریوں کو گھروں میں قید کئے ہوئے ہے۔ دوسری طرف ترکی اور ملائشیا نے کھل کر بھارت کی مذمت کی۔ بھارتی حکومت نے ملائشیا اور ترکی کے ساتھ اربوں ڈالر کے معاہدے روکنے کا اعلان کیا مگر دونوں ممالک کی بہادر قیادت نے واشگاف الفاظ میں کہا کہ وہ تجارتی فوائد کی خاطر کشمیریوں کی حمایت سے دستبردار نہیں ہو سکتے۔ بین الاقوامی سطح پر تعلقات میں سرد و گرم کے تجربات نئی راہیں متعین کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ پاکستان اس امر سے آگاہ ہے کہ کچھ بین الاقوامی قوتیں مشرق وسطیٰ میں تازہ سرحد بندیاں کر کے 16نئی ریاستیں قائم کرنے کے منصوبے پر کام کر رہی ہیں۔ جن ممالک کے ٹکڑے کئے جا سکتے ہیں ان میں ایران‘ عراق‘ شام‘ یمن اور خود سعودی عرب بھی شامل ہے۔ ایسا ہونے کی صورت میں مسلمان مزید کمزور ہوں گے اور اسرائیل ان کے مقابلے میں مزید طاقتور ہو جائے گا۔ عالم اسلام کی مشکلات بڑھیں گی۔ پاکستان ‘ ترکی اور ملائشیا نے حفاظتی تدابیر کے تحت پہلے ہی اقدامات شروع کر دیے ہیں۔ سعودی عرب اور مشرق وسطیٰ کے دیگر مسلم ممالک کو بھی اس صورت حال کا ادراک کرکے حکمت عملی وضع کر لینی چاہیے۔ وزیر اعظم کے دورہ سعودی عرب میں ممکن ہے مشرق وسطیٰ کے متعلق عالمی ارادوں پر تبادلہ خیال ہوا ہو۔ عالم اسلام کے مسائل کا مسلسل بڑھتے رہنا اور باہمی اختلافات کی شدت میں اضافہ حوصلہ افزا نہیں۔ پرانے جھگڑوں کا خاتمہ مسلمان ممالک کو ایک دوسرے کے قریب لا سکتا ہے۔ اس قربت کے نتیجے میں نئے تجارتی‘ معاشی اور سیاسی فوائد خود بخود ملنے لگیں گے۔ کوالالمپور سمٹ سے قبل سعودی حکام سے وزیر اعظم کی ملاقات سہ ملکی اتحاد سے متعلق غلط فہمیوں کے خاتمہ کا موجب ہو سکے گی۔