وزیر اعلی پنجاب سردار عثمان بزدار کا پنجاب اسمبلی کے بجٹ اجلاس کے اختتامی سیشن سے کلیدی خطاب ماضی کی حکومت کی غلط پالیسیوں کے باعث صوبے میں 1300ارب روپے کا تھرو فارورڈاور 4 ہزار نامکمل ترقیاتی منصوبے ورثے میں ملے۔ 56ا رب روپے کے چیک خزانے میں کیش کور نہ ہونے کی وجہ سے بائونس ہوئے ۔وزیراعلیٰ کا یہ کہنا کسی حد تک درست ہے کہ مسائل اُن کو ورثے میں ملے اور یہ نئی بات نہیں ہر موقع پر ایسے ہوتا آیا ہے کہ نئی حکومت کے لیے آنے والا وقت پھولوں کی سیج نہیں ہوتا مگر اب تین سال گزر گئے ہیں ۔اب اگر مسائل حل نہیں ہوتے اور لوگوں کو ریلیف کی بجائے تکلیف ملتی ہے اور مشکلات میں اضافہ ہوتا ہے تو اس بات کو کوئی بھی تسلیم نہیں کرے گا کہ یہ سب کیا دھرا سابقہ حکومت کا ہے ۔وزیراعلیٰ کا خطاب اس لحاظ سے بھی اہمیت کا حامل ہے کہ انہوں نے بہت سے مسائل کا ذکر کیا اور نئے منصوبہ جات بھی سامنے آئے جن میں وویمن یونیورسٹی پنڈ ی، کوہسار یونیورسٹی پنڈی ،بابا گرونانک یونیورسٹی ننکانہ صاحب،ایمرسن کالج یونیورسٹی ملتان،یونیورسٹی آف چکوال اور میانوالی یونیورسٹی شامل ہے۔اس موقع پر عرض کروں گا کہ دیگر پانچ علاقوں کو مکمل یونیورسٹیاں ملیں اور ملتان ایمرسن کالج کو یونیورسٹی بنایا گیا،جس کے باعث 4500روپے والے غریب طالب علم کو 45000بھرنے پڑ گئے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ کالج کو کالج رہنے دیا جائے اور یونیورسٹی الگ سے بنائی جائے ۔ وزیر اعلیٰ نے اپنے بجٹ خطاب میں 9نئی یونیورسٹیوں کے قیام کا بھی اعلان کیا،ان میں کوہ سلیمان یونیورسٹی راجن پور ، بابا فرید یونیورسٹی پاکپتن،یونیورسٹی آف تھل یونیورسٹی حافظ آباد،یونیورسٹی آف اٹک،یونیورسٹی آف گوجرانوالہ، یونیورسٹی آف لیہ،یونیورسٹی آف تونسہ اور یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ایمرجننگ ٹیکنالوجی سیالکوٹ شامل ہیں ۔نئی یونیورسٹیو ں کا قیام بلا شبہ اہم قدم ہے یہ وہ کام ہے جو سابقہ حکمران نہ کر سکے ۔ اس موقع پر میں یہ بھی تجویز دوں گا کہ نئی یونیورسٹیاں جس علاقے میں قائم ہو رہی ہیں،وہاں کی زبان کو لازمی تعلیم کاحصہ بنایاجائے کہ کسی بھی یونیورسٹی کے قیام کا مقصد وہاں کے زبان و ادب کا فروغ اور وہاں کے آثار پر تحقیق ہوتا ہے۔اور یہ بھی عرض کروں کہ وزیر اعلیٰ نے اپنی تقریر میں کوہ سلمان یونیورسٹی کا ذکر کیا جبکہ اس سے قبل اس کا نام یونیورسٹی آف راجن پور انائونس ہو چکا ہے۔راجن پور ضلع بھی ہے اور اس شہر کے بانی سید راجن شاہ بہت اچھے انسان تھے اور تاریخی طور پر یہ بھی حقیقت ہے کہ راجن پور میں بزدار برادری کو اکاموڈیٹ کرنے میں سب سے زیادہ ہاتھ راجن شاہ کا تھا ۔ آج سرائیکی لیجینڈ عاشق بزدار سمیت جتنے بھی بزدار ضلع راجن پور میں ہیں یہ سب ان کی مرہونِ منت ہیں تو عثمان خان بزدار کو احسان کا بدلہ احسان کے ساتھ دینا چاہیے۔ وزیر اعلیٰ کی تقریر کے بہت سے حوالے ہیں،وزیر اعلیٰ نے اپنے خطاب میں یہ بھی کہاکہ وسیب کے لیے 35فیصد بجٹ الگ مختص کر دیا گیا ہے اور صوبائی ملازمتوں میں بھی 32فیصد کوٹہ الگ مختص کیا گیا ہے جو کہ بکھر اور میانوالی کی شمولیت کے بعد 35فیصد ہو جائے گا ۔ایک بات یہ بھی عرض کروں گا کہ وزیر اعلیٰ نے یہ تو کہہ دیا کہ ملتان اور بہاولپور میں سول سیکرٹریٹ قائم کیے جا رہے ہیں اور ان کی تعمیر کے لیے فنڈ بھی مختص کر دئیے گئے ہیں مگر وسیب کی رائے یہ ہے کہ ملتان اور بہاولپور کے درمیان تفریق پیدا کی جا رہی ہے ۔وسیب کے لوگ سول سیکرٹریٹ نہیں صوبے کا مطالبہ کرتے آ رہے ہیں اور تحریک انصاف کے منشور میں بھی سول سیکرٹریٹ نہیں صوبے کی بات درج ہے ۔ وزیر اعلیٰ نے اپنی بجٹ تقریر میں خود تسلیم کیا کہ سول سیکرٹریٹ کے لیے رولز آف بزنس ابھی تیار نہیں ہوئے قانون سازی کا عمل ابھی باقی ہے ۔ کتنی ستم ظریفی ہے کہ وسیب کے لوگوں سے صوبے کے نام پر ووٹ لے کر مرکز اور صوبے میں حکومت بنا لی گئی مگر صوبے کا نام تک نہیں لیا جا رہا اور سول سیکرٹریٹ کے نام سے تین سال سے ٹرخایا جا رہاہے اور سول سیکرٹریٹ کے بھی نہ رولز آف بزنس بن سکے نہ دفاتر حاصل ہو سکے اور نہ بیوروکریسی کو اختیار منتقل ہوئے۔یہ مذاق نہیں تو کیا ہے؟ جیسا کہ میں نے پہلے کہا وزیر اعلی کا اپنے خطاب میں یہ کہنا درست ہے کہ تین سال قبل پاکستان تحریک انصاف کو صوبہ پنجاب کے عوام کی خدمت کا موقع ملا۔ماضی کی حکومت کی غلط پالیسیوں کے باعث صوبے میں 1300ارب روپے کا تھرو فارورڈاور 4 ہزار نامکمل ترقیاتی منصوبے ورثے میں ملے۔56ا رب روپے کے چیک خزانے میں کیش کور نہ ہونے کی وجہ سے بائونس ہوگئے۔صوبہ پنجاب میں41ارب روپے کے اوور ڈرافٹ لیا گیا۔مگر اب بات کو آگے بڑھایا جائے اور اقدامات کئے جائیں ۔ وزیر اعلیٰ نے یہ بھی کہاکہ سابق حکومت پنجاب اسمبلی، وزیرآباد انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی اور اور نج لائن میٹرو ٹرین کے نامکمل منصوبے چھوڑ کر گئی۔ تریموں تھر مل پاورپراجیکٹ، پاک پتن ہائیڈرو پاورپراجیکٹ، مرالہ ہائیڈرو پاور پراجیکٹ اور پاکستان کڈنی اینڈ لیور ٹرانسپلانٹ انسٹی ٹیوٹ کے ادھورے منصوبے ورثے میں ملے۔نامکمل منصوبوں کی ایک لمبی فہرست ہے جوہمیں ورثے میں ملی۔اب ضرورت اس بات کی ہے کہ وزیر آباد کارڈیالوجی بنایاجائے،ملتان کارڈیالوجی فیز 2کو مکمل کیا جائے اور ڈی جی خان کارڈیالوجی کو بھی فوری مکمل کیا جائے ۔ آخر میں یہ کہوں گا کہ میں نے وزیر اعلیٰ کو ملاقات کے موقع پر سرائیکی زبان و ادب کے فروغ کے لیے ادارے کی قیام کی درخواست دی تھی جسے انہوں نے قبول کرلیا تھا اور سیکرٹری اطلاعات وثقافت راجہ جہانگیر انور کی معرفت اس پر کام بھی شروع ہوا تھا، ہم توقع کررہے تھے کہ بجٹ میں اس کے لیے رقم مختص ہو گی مگر ہم نے وزیراعلیٰ کی مکمل بجٹ تقریر سنی جب سرائیکی ادبی ادارے کے قیام کے لیے کوئی ذکر نہ ہوا تو مایوسی ہوئی ۔وزیر اعلیٰ سردار عثمان خان بزدار اور وزیر خزانہ ہاشم جواں بخت سے یہی کہوں گا کہ وہ سلاک کی طرز پر سرائیکی ادبی ادارے سلاک کے لیے اقدامات کریں ورنہ وسیب کے لوگ انہیں معاف نہیں کریں گے ۔