گلگت بلتستان کے انتخابات میں تمام بڑی جماعتیں کی ساکھ دائو پر لگی ہوئی تھی اور بلاول بھٹو اور مریم نواز کے بڑے بڑے جلسوںنے ان کی پارٹیوں کے لئے امید کے چراغ ضرور جلائے تھے لیکن تمام تگ و دو کے با وجود وہی ہوا جو ہوتا آیا ہے کہ فتح کا قرعہ اسلام آباد کے ایوان اقتدار میں موجود جماعت پی ٹی آئی کے نام نکلا۔ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں اسلام آباد کی حکمران جماعت کی حیثیت کی روایت ہمیشہ قائم رہی ۔ یہ حقیقت ہے کہ گلگت بلتستان کے انتخابات ملکی سیاسی منظر نامے میں ایک گرینڈ ریہرسل ثابت ہوئے ہیں اور سیاسی جماعتوں نے جمہوری روایات کا اعادہ کیا۔ تیز و تند اور وعدوں سے بھر پور تقریریں کیں، ووٹر ز کو اپنی طرف مائل کیا۔ 2009کے بعد مجلس قانون ساز کے یہ تیسرے انتخابات تھے ، جس میں اسلام آباد کا عمل دخل اور اثر و رسوخ سے کوئی انکار نہیں کر سکتا ۔ 2009میں جب مرکز میں پیپلز پارٹی کی حکومت تھی اس وقت ان انتخابات میں پی پی پی سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری ۔ اس نے مجموعی طور پر 35نشستوں میں سے (20) نشستیں حاصل کیں اور اس وقت مہدی علی شاہ گلگت بلتستان کے بلا مقابلہ وزیر اعلیٰ منتخب ہو گئے تھے۔ اندازہ کیجئے 2020کو جب دوسری لی قانون ساز اسمبلی کے انتخابات ہو گئے تو اسلام آباد میں نواز شریف کی حکومت تھی ۔ چنانچہ جس مسلم لیگ نے 15نومبر کو ہونے والے انتخابات میں صرف دو نشستیں حاصل کیں۔ اسی مسلم لیگ نے 2015میں 33میں سے 22نشستوں پر اپنے حریفوں کو چاروں شانے چت کر دیا تھا۔ 2020کی معرکہ آرائی کو پورے ملک میں بڑی دلچسپی سے دیکھا گیا، خصوصاً جہاں ایک طرف وزیر اعظم عمران خان کو اپنے وزیروں کی مدد کو آنا پڑا اور انہوں نے گلگت بلتستان کو صوبہ کا اسٹیٹس دینے کا اعلان کیا۔ وہاں دوسری طرف پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے بڑی جارحانہ مہم چلائی ۔ یہ انتخابات بلاول بھٹو ، زرداری ، اور مریم نواز کے لئے ٹیسٹ کیس تھے اور دونوں نے ثابت کیا کہ وہ فیوچر کے لیڈر ہیں اور دونوں اپنے دل کی بات کہنے میںمہارت بھی حاصل کر چکے ہیں۔ نظر آ رہا ہے کہ حکومت اور حزب مخالف کی محاذ آرائی اور پنجہ آزمائی فیصلہ کن مرحلے کی طرف جا رہی ہے۔ حکومت سمجھتی ہے کہ اگر اتحاد یوں کی ڈور کٹ گئی تو پھر پہلے پنجاب اور پھر بلوچستان اور آخر میں آئینی طریقے سے مرکزمیں عدم اعتماد کی تحریکیں آ سکتی ہیں۔ دنیا میں جمہوری ریاستوں کی کامیابی کی بنیاد سیاسی جماعتوں کی لیڈر شپ کے رویئے ڈسپلن اور نظریات ہوتے ہیں مگرعمران خان کسی بھی صورت حزب مخالف سے بات کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ تمام تر انگڑائی لیتی صورت حال کے با وجود انہیں پورا اعتماد ہے کہ حزب اختلاف میں وہ دم خم نہیں کہ وہ انہیں استعفیٰ دینے یا پھر سے نئے انتخابات کے اعلان پر مجبور کر سکتی ہے لیکن وہ اس مخمصے میں ضرور دکھائی دیتے ہیںکہ اداروں کے کسی جانب سے پی ڈی ایم کے لئے کوئی اشارہ موجود ہے یا نہیں کیونکہ جب مولانا فضل الرحمن نے اسلام آباد میں دھرنا دیا تھا تو انہوں نے اپنے ان خد شوں کا تذکرہ کیا تھا۔ اگر ادارے عمران خان کی حکومت کے پیچھے پوری یکسوئی سے کھڑے ہیں تو پھر پی ڈی ایم کی اس تحریک کو آپ ایم آر ڈی کی تحریک سے مماثل قرار دے سکتے ہیں ۔ آپ پاکستان کی سیاسی تاریخ پر نظر ڈالیں تو ہمیں نظر آئے گا کہ ہمارے حکمران اکثر غافل رہتے ہیں، انہیں زمینی حقائق سے ایسا لگتا ہے کہ سب اچھا ہے۔ جو ایجنسیاں انہیں اطلاعات بہم پہنچاتی ہیں، اس سے انہیں خطرے کی کوئی گھنٹی سنائی نہیں دیتی ۔ 1976میں وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے ایجنسیوں کی رپورٹس کی روشنی میں یہ دیکھتے ہوئے کہ اپوزیشن اس وقت بکھری ہوئی ہے، انہوں نے ایک سال قبل انتخابات کے انعقاد کا علان کر دیاحالانکہ وہ آئینی اور قانونی طو ر پر ایک سال مزید حکومت کر سکتے تھے۔ انتخابات کا اعلان ہوتے ہی اپوزیشن اکھٹی ہو گئی ، انتخابات ہوئے تو قومی اتحاد نے نتائج ماننے سے انکار کر دیا۔ بھٹو صاحب کو ان کی قریبی ساتھیوں اور مشیروںنے مشورہ دیا کہ اپوزیشن کی جانب سے چلائی جانے والی تحریک جلد دم توڑ دے گی اور فکر نہ کریں فوج بھی حکومت کے ساتھ کھڑی ہے۔ 9اپریل 1977کو لاہور میں گولی چل گئی اورکئی افراد جان سے گئے ۔ صورت حال بے قابو ہونے لگی اور 4جولائی 1977کی رات جب وزیر اعظم ہائوس کی ڈائننگ ٹیبل پر جنرل ضیاء الحق کور کمانڈر کی موجودگی میں ذولفقار علی بھٹو سے گفتگو کر رہے تھے اور بار بار ان کے منہ سے’’وی سر‘‘ وی سر‘‘ نکل رہا تھا اور بھٹو ’’ معاملات جلد ٹھیک ہو جائیں گے‘‘ کی یقین دہانی کرا رہے تھے تو اچانک جنرل ضیاء ا لحق نے پوری عاجزی سے سینے پر ہاتھ رکھا اور تھوڑے سے آگے جھکے اور بولے سر ہم آپکے وفادار ہیں، آپ ہم پر پورا اعتماد کر سکتے ہیں۔ پھر چند گھنٹے بعد ہی وزیر اعظم ہائوس میں بھٹو کو نیند سے بیدار کرکے بتایا گیا کہ فوج آ گئی ہے۔ یہ ہماری تاریخ میں ماضی کی ایک جھلک ہے کیونکہ حکمران ضرورت سے ز یادہ خود اعتماد ی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ وقت بدل گیا ہے اور اس وقت جنرل باجوہ ایک پروفیشنل سولجر ہیں، انہوں نے ملک میں جمہوری عمل کی بھر پور حمایت کی ہے۔ ایسی صورت حال میں بہتر ہے وزیر اعظم مسائل کو پارلیمنٹ میں لے جائیں اور پارلیمانی طریقے سے مذاکرات کا آغاز کریں ۔ اپنا ایجنڈا پی ڈی ایم کے سامنے رکھیں اور ہاتھ بڑھائیں تومجھے یقین ہے کہ اس ملک کے22کروڑ عوام کی رگوں میں غیرت مند لہو، تخلیق کے لئے پسینہ ،کوشش کے لئے محنت اور بار گاہ الٰہی میں پیش کرنے لئے آنسو موجو د ہیں۔ وزیر اعظم اپنادل اور سینہ کشادہ کریں اورہم آہنگی کے لئے حزب مخالف کی طرف ہاتھ بڑھائیں۔ کچھ کرنے کا ارادہ تو کریںپھر ہم ایک تابندہ قوم بن کر ابھر سکتے ہیں۔