افغانستان کی موجودہ صورتحال پر پورے ملک میں تشویش پائی جاتی ہے ۔امریکہ افغانستان سے جارہاہے مگر تاریخی طور پر دیکھا جائے تو جو بھی بیرونی طاقت کسی ملک سے جاتی ہے تو مسائل کے پہاڑ کھڑے کرکے جاتی ہے ، جس طرح برطانیہ نے ہندوستان چھوڑا تو ورثے میں ہمیں اس طرح کے تضادات دے گیا کہ74سال گزرنے کے باوجود ہم ان عذابوں سے چھٹکارا حاصل نہیں کر سکے۔ گزشتہ روز ڈیرہ اسماعیل خان میں ہونے والی سرائیکی رہنمائوں کی ایک میٹنگ میں اس بات پر تشویش کا اظہار کیاگیا کہ افغانستان سے مہاجرین کی آمدکا سلسلہ شروع ہو چکا ہے اورہمیں خدشہ ہے کہ یہ سلسلہ انے والے دنوں میں بڑھتا جائے گا ۔ سرائیکی قیادت کی تشویش اس لیے بھی درست ہے کہ ضیاء الحق دور میں جو مہاجرین آئے اُن میں سے اکثریت واپس نہیں گئی ، اُن کو بیوروکریسی کی حمایت بھی حاصل ہے اور وہ دولت کے بل بوتے پر جائیدادیں خرید کر اس علاقے میں مستقل سکونت اختیار کررہے ہیں ۔ڈیرہ اسماعیل خان و ٹانک دامان کے علاقے کہلاتے ہیں ، مقامی لوگ اقلیت میں تبدیل ہورہے ہیں اس علاقے کے لوگوں کو سابقہ ادوار میں ہونے والی نا جائز الاٹمنٹوں پر بھی تشویش ہے ۔ وزیر اعظم عمران خان کو اس مسئلے پر ہر صورت غور کرنا ہو گاکہ انہیںخیبر پختونخواہ کے سرائیکی اضلاع میں سے بھی بھرپور مینڈیٹ ملا ہے۔ ہم جغرافیائی لحاظ سے بات کریں توکوہ سلیمان سے دریائے سندھ کے مغربی کنارے جب کہ شمال میں ڈیرہ اسماعیل خان سے لیکر جنوب ڈیرہ غازی خان تک پھیلے ہوئے علاقے کو دامان کہا جاتا ہے۔ دامان کی زمینوں کو بھی برطانوی حکومت نے رکھوکھ میں تقسیم کیا تھا۔ 1962ء سے 1965ء تک ایوب خان نے مختلف سکیموں کے ذریعے پشتونوں اور فوجیوں کو زمینیں الاٹ کرائیں ۔ ڈیرہ اسماعیل خان کے سادہ لوگوں نے مذہب سے محبت کی بناء پر مولانا مفتی محمود کو چندے کی شکل میں نوٹ بھی دیتے رہے اور ووٹ بھی دیتے رہے مگر اس ظلم کے خلاف وہ نہ بولے ،بلکہ اندر خانہ اس بات پر خوش تھے کہ ان کے پشتونوں کو زمینیں حاصل ہو رہی تھیں اور سرائیکی لوگوں سے آہستہ آہستہ ان کی زمینیں چھینی جا رہی تھیں ، مگر اور تو اور علماء بھی خاموش تھے۔ ہم پوچھتے ہیں کہ کونسا مذہب ہے جو دھرتی کے وارثوں سے ان کی زمینیں اور ان کے وسائل چھینے جانے کی اجازت دیتا ہے اور پھر مذہبی رہنما بھی اس پر خاموش رہتے ہیں اور جونہی موقع ملتا ہے وہ خود بھی اس لوٹ مار میں شریک ہو جاتے ہیں۔ قبائلیوں پر بندوبستی علاقوں میں زمینیں اور املاک خریدنے پر پابندی چلی آ رہی ہے۔ لیکن ضیاء الحق نے افغان جنگ کے دوران سب سے بڑا افغان مہاجرین کیمپ ڈیرہ اسماعیل خان میں قائم کرایا اور پھر نام نہاد مہاجروں کو ہر طرح کی سہولتیں دیں تو وہ خود اس علاقے کے سکونتی بن گئے، ان کے شناختی کارڈ بھی بن گئے، ان کے ڈومیسائل بھی بن گئے۔ انہوں نے ان کو ہر طرح کی سہولتیں دی گئیں۔ انہوںنے ہیروئن اور کلاشنکوف کے کلچر کو فروغ دیا اور ناجائز ذرائع سے اتنی دولت حاصل کر لی کہ وہ گدا سے بادشاہ بن گئے اور ڈیرہ اسماعیل خان کی زمینیں خریدنے لگے ۔ پھر ناجائز الاٹمنٹوں کے طوفان آئے تو پانچ سے پچاس روپے ایکڑ تک رقبے الاٹ ہوئے ۔ روزنامہ ڈان کی ایک رپورٹ کے مطابق 1965ء سے 1994تک بیس سے تیس روپے ایکڑ زمینیں خریدی گئیں ، ان میں ڈیرہ اسماعیل خان، ڈیرہ غازی خان، راجن پور، مظفر گڑھ، وہاڑی، پاکپتن، ملتان ، خانیوال اور ساہیوال کے رقبے شامل تھے ۔ اس دوران ایک لاکھ ایکڑ رقبہ صوبائی اور وفاقی حکومتوں سے منسٹری آف ڈیفنس کو منتقل کیا گیا اور یہ سب کچھ ایوب خان کے ملٹری ایکٹ کے تحت ہوا۔ سرائیکی خطے کے دوسرے اضلاع سے ہٹ کر اگر ہم ڈیرہ اسماعیل خان کی بات کریں تو ڈیرہ اسماعیل خان کی ایک لاکھ پچاسی ہزار ایکڑ پہلے مرحلے میں ، ایک لاکھ 73ہزار ایکڑ دوسرے مرحلے میں اور تیسرے مرحلے میں ایک لاکھ 54 ہزار ایکڑ زمین چھینی گئی۔ مشرف کے دورمیں صوبہ سرحد میں ایم ایم اے ’’ متحدہ مجلس عمل‘‘ کی حکومت تھی ، اس نے بھی سرائیکی دھرتی کے خون سے اپنے ہاتھ رنگے ۔ مشرف نے 23اکتوبر 2004ء کو ڈیرہ اسماعیل خان کی 1200 کنال زمین محض دو سو روپے سالانہ پر دے دی ، چھ سو کنال کا مولانا فضل الرحمن برادران اور چھ سو کنال رقبہ وزیراعلیٰ سرحد اکرم درانی میں تقسیم کیا گیا۔ مولانا کے عزیزوں کو موضع رکھ گھاس ڈیرہ اسماعیل خان میں دو دو سو کنال فی کس اراضی محض دو سو روپے سالانہ پر دی گئی۔ انتقال نمبر40سے 45تک ہے اور مورخہ 26 جنوری 2005ء ہے۔ زمینوں کی لوٹ مار کی طویل تفصیل ہے جو کہ سرکاری ریکارڈ کے مطابق پانچ لاکھ چھ سو اٹھانوے کنال زمین سرکاری طور پر پشتونوں کو دی گئیں۔ صوبائی حکومت کی ملکیت میں وسیع زمینوں کا سکینڈل سامنے آئے تو پوری دنیا کا میڈیا اس کے خلاف چیخ اُٹھا تو محض وقتی طورپر کاغذوں میں ردو بدل کیا گیا مگر اکرم درانی اور مولانا صاحبان کے قبضے میں رقبے موجود ہیں۔ وسیب کی زمینوںکی لوٹ مار آج بھی جاری ہے، خیبرپختونخواہ میں پشتون بیورو کریسی لسانی تعصب اورنسل پرستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے وسیب کی زمینیں الاٹ کرانے میں اور وسیب کے لوگوں کو اقلیت میں تبدیل کرنے کے لئے شب و روز کام کر رہی ہے، اس لئے وسیب کے لوگ مسلسل فریاد کرتے آ رہے ہیں ،ڈیرہ اسماعیل خان کے سرائیکی رہنما ملک خضرت حیات ڈیال نے کہا ہے کہ ہمارا توسیع پسندوں اور قبضہ گیروں کو مشورہ ہے کہ وہ وسیب کے ساتھ ظلم نہ کریں اور اپنی اپنی حدود میں رہیں۔ ہم ان کی ماں دھرتی اور ان کی ماں بولی کا احترام کرتے ہیں ، وہ ہماری ماں دھرتی اور ہماری ماں بولی کا احترام کریں اور اب اس کی ایک ہی شکل ہے کہ وہ ماں دھرتی کے بیٹے بن جائیں اور اپنی شناخت کو اس میں ضم کریں اور خود کو اپنی ماں دھرتی کا بیٹا سرائیکی لکھوائیں یا پھر وہ اپنے اس گھر میں خوش رہیں جس کو اپنی ماں دھرتی قرار دیتے ہیں۔