جناب وزیر اعظم نے کہا ہے کشمیر کی آئینی حیثیت بحال ہونے تک بھارت سے تجارت نہیں ہو گی ۔ سوال یہ ہے کہ کون سی آئینی حیثیت؟ ایک طالب علم کے طور پر میں جاننا چاہتا ہوں کہ ’’ آئینی حیثیت بحال‘‘ ہونے کا مطلب کیا ہے ؟ بھارت کے آئین کا آرٹیکل 370 کیا ہمارے وزیر اعظم کے مطابق کشمیر کی ’’ آئینی حیثیت‘‘ کا تعین کرتا تھا ؟ اور کیا اس آرٹیکل کی بحالی سے کشمیر کی ’’ آئینی حیثیت‘‘ بحال ہو جائے گی؟ آرٹیکل 370 کے خاتمے سے پہلے کی صورت حال کیا جناب وزیر اعظم کے نزدیک ایک موزوں اور مناسب صورت حال تھی؟ کیا کابینہ سے لے کر دفتر خارجہ تک کوئی ایک بھی ایسا آدمی موجود نہیں جو اپنے وزیر اعظم کو جا کر سمجھائے کہ بھارت کے آئین کا آرٹیکل 370 ہمارا پوائنٹ آف ریفرنس نہیں ہے اور نہ ہی اس کی بحالی ہمارا مطالبہ ہونا چاہیے۔ وزیر اعظم کو معلوم ہونا چاہیے بھارت اس آرٹیکل 370 کو پامال کرے یا بحال کرے ، یہ پاکستان کا مسئلہ نہیں ہے۔انہیں یہ بھی پتا ہونا چاہیے کہ آرٹیکل 370 کی بحالی کو کشمیر کی ’آئینی حیثیت کی بحالی‘ قرار دینا بھی بہت بڑی غلطی ہے۔انہیں اس حقیقت سے بھی بے خبر نہیں ہونا چاہیے کہ بھارت کے آئین کا کوئی آرٹیکل کشمیر کی ’’ آئینی حیثیت‘‘ کا تعین نہیں کر سکتا۔اگر ہم نے بھارت کے آئین کے کسی آرٹیکل کو یا اس کی بحالی کو ’’ کشمیر کی آئینی حیثیت کی بحالی‘‘ سمجھ لیا تو پیچھے کیا رہ جاتا ہے؟پھر تو کھیل ہی ختم ہو گیا۔ آرٹیکل 370 کی بحالی کو کشمیر کی آئینی حیثیت کی بحالی قرار دینے والے وزیر اعظم کو معلوم ہونا چاہیے کہ اس آرٹیکل کی شان نزول کیا تھی۔یہ آرٹیکل شیخ عبد اللہ کی کشمیر فروشی کی ایک معمولی سی قیمت تھی جو بھارت نے اس وقت ادا کی اور واپس لے لی۔ کشمیر پر ناجائز قبضے کے تیسرے سال وہاں ایک الیکشن کروایا گیا تاکہ ایک نام نہاد اسمبلی بنائی جائے ا ور اس اسمبلی سے بھارت سے الحاق کی قرارداد منظور کروا کر کہا جائے کہ کشمیریوں نے حق خود ارادیت استعمال کر لیا ہے اور اب کشمیر بھارت کا حصہ ہے۔ تیس مارچ 1951 کو سلامتی کونسل نے اپنی قرارداد میں کہا کہ ایسی کوئی اسمبلی بن بھی جاتی ہے اور وہ کوئی فیصلہ بھی کر لیتی ہے تو اسے حق خود ارادیت نہیںسمجھا جائے گا۔ تاہم الیکشن ہوا۔ کشمیریوں نے اس کا بائیکاٹ کیا۔ ٹرن آئوٹ صرف پانچ فیصد رہا۔بھارت نواز نیشنل کانگریس نے 75 نشستوں پر کامیابی حاصل کی اور ان میں سے 73 نشستوں پر بلا مقابلہ ہی کامیابی حاصل کر لی۔اس جعلی اسمبلی نے قرار دیا کہ ’’ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے‘‘۔ اس کے جواب میں بھارت نے کہا کہ اچھا ہم اپنے اٹوٹ انگ کو داخلی خود مختاری دیتے ہوئے آرٹیکل370 متعارف کرا رہے ہیں۔حیرت اور دکھ ہوتا ہے کہ آج ہمارا وزیر اعظم اس آرٹیکل کی بحالی کو ’’ کشمیر کی آئینی حیثیت کی بحالی‘‘ قرار دیتا ہے۔ کیا وزیر اعظم کو اتنا بھی معلوم نہیں کہ بھارت کی آئینی حیثیت کا تعین بھارت کے آئین کے تحت نہیں ہونا بلکہ اقوام متحدہ کی قراردادوں اور انٹر نیشنل لاء کے تحت ہونا ہے۔ فرض کریںبھارت پانچ اگست کا اقدام واپس بھی لے لے تو کیا اس سے کشمیر کی آئینی حیثیت بحال ہو جائے گی اور جناب وزیر اعظم اس سے مطمئن ہو جائیں گے؟ کیا پانچ اگست سے پہلے کشمیر کی جو حیثیت تھی وہ عمران خان کے نزدیک ’’ آئینی حیثیت‘‘ تھی؟ وزیر اعظم کے خیال میںکشمیر کی قانونی حیثیت کا تعین اقوام متحدہ کی قراردادوں کے ذریعے ہونا ہے یا بھارت کے آئین کے ذریعے؟ پاکستان کا آرٹیکل 370 سے کچھ لینا دینا نہیں۔پاکستان کا موقف یہ ہے کہ بھارت اقوام متحدہ کی قراردادوں اور انٹر نیشنل کو پامال کرتے ہوئے کشمیر کو بھارتی یونین میں ضم نہیں کر سکتا۔ پاکستان کا موقف یہ ہے کہ جب تک کشمیریوں نے کس ملک کے ساتھ جانا ہے اس کا تعین بھارت یکطرفہ طور پر نہیں کر سکتا۔ پاکستان کا موقف یہ ہے کہ اس کا تعین صرف کشمیری عوام کریں گے اور انٹر نیشنل لاء کے تحت حق خود ارادیت کے ذریعے کریں گے۔آرٹیکل 370 تو حق خودارادیت کی نفی کرتے ہوئے متعارف کرایا گیا۔ ہمارے نزدیک اس وقت بھی غلط تھا جب آرٹیکل 370 کو متعارف کرایا گیا اور یہ بھی غلط ہے جب اسے ختم کیا گیا۔ یہ دونوں اقدام اقوام متحدہ کی قراردادوں کی نفی اور ناجائز قبضے کا تسلسل ہیں۔ہم نے بھارت کے ان اقدامات کا جواب کیا خاک دینا ہے جب ہمیں علم ہی نہ ہو کہ ہم نے کہنا کیا ہے۔پہلے قومی اسمبلی میں یہی کام ہوا اور ہماری اسمبلی نے اپنی قرارداد میں آرٹیکل370 کے خاتمے کی مذمت کر دی۔ اور ہم ہمارا وزیر اعظم اسی آرٹیکل کی بحالی کو تجارت سے مشروط کر رہا ہے۔بھارت کے آئین کے کسی آرٹیکل کے تحفظ کا علم ہماری پارلیمان اور وزیر اعظم نے کب سے اٹھا لیا؟ان دونوں کو معلوم ہونا چاہیے انہوں نے پاکستان کے آئین کا حلف اٹھا رکھا ہے بھارت کے آئین کا نہیں۔ ہمیں اپنی بات اپنے بیانیے میں کرنی چاہیے۔ہمارا بیانیہ وہ اصول ہیں جو اقوام متحدہ نے طے کر دیے۔ بھارت نے پانچ اگست کو یہ کیا کہ کشمیر کو بھارت کا باقاعدہ حصہ قرار دے دیا۔ یہ اقوام متحدہ کے قوانین کی نفی ہے۔بے شک ہمارا مطالبہ پانچ اگست کے اقدامات کی نفی ہی ہونا چاہیے لیکن ہمارا پوائنٹ آف ریفرنس یہ نہیں ہو سکتا کہ آرٹیکل 370 بحال کیا جائے۔ ہمارا مطالبہ یہ ہونا چاہیے کہ وہ قدم واپس لیا جائے جو اقوام متحدہ کی قراردادوں اور کشمیر پر طے شدہ بین الاقوامی اصولوں کو پامال کر کے اٹھایا گیا۔ جمہوریت کا حسن ہی یہ ہے کہ اس میں اجتماعی شعور بروئے کار آتا ہے اور بہتر فیصلہ سازی ہوتی ہے۔جمہوریت میں مشاورت اصل میں اس حقیقت کا اعتراف ہے کہ اب ہم میں سے کوئی بھی’ سپر ہیومن ‘ نہیں ہے بلکہ مختلف لوگوں کے پاس مختلف شعبوں کی مہارت ہے اور فیصلہ باہم مشاورت سے ہو گا۔ یہاں افتاد طبع ایسی ہے کہ ذات کے حصار سے بلند ہی نہیں ہو پا رہی۔ میں سے بات شروع ہوتی ہے اور میں پر ہی ختم ہو جاتی ہے۔ کرکٹ کو تو میں ایسا ٹھیک کر دوں گا۔۔۔رمضان میں مہنگائی کو تو میں خود دیکھوں گا۔۔۔۔ماحولیات کا تو مجھ سے بڑا ماہر کوئی نہیں۔۔۔۔۔ انداز بیاں کی ایک لمبی فہرست ہے جو اعلان عام کر رہی ہے کہ ’’ سرکار سبھی کچھ آپ ہیں‘‘۔داخلی سیاست میں تو یہ رویہ کسی حد تک گوارا کیا جا سکتا ہے لیکن امور خارجہ میں نہیں۔ ایسے ایسے لوگ عمران خان کے ساتھ کھڑے ہیں،جن سے ہم طالب علم مسئلہ کشمیر کی مبادیات سمجھا کرتے تھے۔کیا ان میں سے کوئی ایسا نہیں جو جناب وزیر اعظم سے عرض کرے کہ اہم قومی امور پر قوم کی رہنمائی فرمانے سے پہلے تھوڑی سی بریفنگ لے لیا کریں اور معاملے کو سمجھ لیا کریں؟