18اگست کے بعد سے دن گنے جا رہے تھے کہ تحریک انصاف کے قائد وزیر اعظم عمران خان مزار ِ قائد پر کب حاضری دینے آئیں گے۔عموماً اور یہ برسوں نہیں دہائیوں سے ہورہا ہے کہ ابھی صدر، وزیر اعظم منتخب نہیں ہوتا کہ ہفتہ دس دن میں ایک دن اور کبھی شاذ و نادر ایک شب گذار نے بڑے دھوم دھام کے ساتھ کراچی کے دورے کا پروگرام بناتا ہے۔آغاز مزار قائد پر حاضری سے ہوتا ہے جس کے لئے مزار قائد کے چہار جانب چلنے والی شاہراہوں پر گھنٹوں پہلے کرفیو لگا دیا جاتا ہے۔یہاں سے سربراہ مملکت اگر اُس کی اپنی جماعت کا گورنر ہو تو گورنر ہاؤس کا رخ کرتا ہے۔2008ء اور 2013ء کے دوران کیونکہ صدر ،وزیر اعظم دونوں کا تعلق پاکستان پیپلز پارٹی سے ہی تھا اس لئے زیادہ توجہ وزیر اعلیٰ ہاؤس پر دی جاتی تھی کہ اُن کا اپنا جیالا وزیر اعلیٰ ہوتا تھا۔ تاہم 2013ء سے2018ء کے دوران جب ن لیگ کی حکومت تھی تو اس دوران وزیر اعلیٰ ہاؤس سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کی اس میزبانی سے محروم رہا۔وزیر اعظم چاہے پی پی کا ہو یا ن لیگ کا ۔۔۔کراچی کا دورہ لگا بندھا ہوتا ہے۔مزار ِ قائد کے بعد گورنر ہاؤس یا وزیر اعلیٰ ہاؤس میں ون 2+ایک ایک گھنٹے رینجرزکے سربراہ اورکورکمانڈر اور صحافیوں کے ساتھ اور آئی جی سندھ کے ساتھ، اور اُس کے بعد تاجروں کیساتھ ڈنر اور رات سے پہلے ہی واپسی۔تحریک انصاف کے وزیر اعظم محترم عمران خان کیوںکہ 22سال سے تبدیلی کا نعرہ لگانے کے بعد پہلی بار کراچی آرہے تھے تو خیال یہی تھا کہ اُن کے دورہ ٔ کراچی میں بھی تبدیلی کی جھلک نظر آئے گی۔مگر ایسا لگا کہ 2013...2008ء بلکہ 2002ء کی فلم چل رہی ہو۔ بس ایک تبدیلی ضرور تھی ۔محترم وزیر اعظم ایئر پورٹ سے مزار قائد ہیلی کوپٹر اور پھر مزار قائد سے اسٹیٹ گیسٹ ہاؤس بھی ہیلی کاپٹر سے پہنچے۔ یوں کم از کم ایئر پورٹ سے مزار قائد اور مزار قائد سے اسٹیٹ گیسٹ ہاؤس تک کی شاہراہیں ’’کرفیو‘‘سے محرو م رہیں۔وزیر اعظم عمران خان نے گورنر ہاؤس کی جگہ اسٹیٹ گیسٹ ہاؤس کوکیوں رونق بخشی ، یہ اپنی جگہ خود ایک الگ طول طویل داستان ہے۔اسٹیٹ گیسٹ ہاؤس برسہا برس بلکہ دہائیوں سے وزارت خارجہ کی ملکیت ہے۔ہمارے اپنے اور غیر ملکی وزرائے خارجہ کے ساتھ ساتھ اسلام آباد سے آنے والے معززین یہیں قیام فرماتے تھے۔ مگر 2013ء میں ہوا یہ کہ جب ہمارے ’’دہی بھلے فیم‘‘ صدر محترم ممنون حسین صدرِ مملکت کے عہدہ ٔ جلیلہ پر فائز ہوئے تو ’’بلو بُک‘‘ کے خالقوں نے محترم ممنون حسین کی ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹی میں واقع کوٹھی کو ’’سیکورٹی ‘‘ کے اعتبار سے رِسک قرار دے دیا۔اب معاملہ دن دو دن کا تو تھا نہیں کہ محترم ممنون حسین اپنے شہر کراچی میں قیام ’’صدارت‘‘ کا منصب ہوتے ہوئے ہفتہ پندرہ دن رکھنا چاہتے تھے۔تاکہ اپنے اہلخانہ اور احباب کو زیادہ وقت دے سکیں۔سیکورٹی کے اعتبار سے جب تلاش شروع ہوئی تو گھوم پھر کے اسٹیٹ گیسٹ ہاؤس پر تان ٹوٹی۔وزیر خارجہ ’’مرنجا مرنج‘‘محترم سرتاج عزیز تھے۔وزارت خارجہ کے بابوؤں نے بڑی مزاحمت کی۔ کراچی میں وزارت خارجہ کے انچارج نے جو خاندان سمیت یہاں رہائش پذیر تھے بڑی آہ و زاریاں کیں۔ بات وزیر اعظم نواز شریف تک بھی گئی۔حکم اور فرمان کسی اور کا نہیں بھلے کتنا ہی مسکین ممنون صدر مملکت ہو۔۔۔صدر بہر حال صدر ہوتا ہے۔پھر ہمارے محترم ممنون حسین اپنے قائد میاں صاحب کے علاوہ کسی کو خاطر میں بھی نہیں لاتے تھے۔وزیر اعظم کی جانب سے خاموش اشارہ ملتے ہی محترم صدر کے لاؤ لشکر نے اسٹیٹ گیسٹ ہاؤس میں پڑاؤ ڈال دیا۔محترم صدر ممنون حسین کی بیگم، بیٹے ، بیٹیاں،پوتوں،نواسوںکاتو ’’بلو بُک‘‘ کے مطابق آنا ہی تھا مگر محترم صدر کا اصرار تھا کہ اُن کی اولاد کی طرح عزیز بطخوں ، مرغیوں اور کبوتروں حتیٰ کہ کتوں اوربلیوں کو بھی تمام تر پروٹوکول کے ساتھ پُر آسائش اینیکسی میں رکھا جائے۔ یوں پورے پانچ سال تک اسٹیٹ گیسٹ ہاؤس ’’صدارتی کیمپ یعنی اُن کے آبائی گھر کیسا تھ پارک بنا رہا۔ مزید بلکہ اضافی معلومات کیلئے یہ بھی بتاتا چلوں کہ اسٹیٹ گیسٹ ہاؤس مین عبداللہ ہارون روڈ پرتھا۔مرکزی گیٹ پر ایک پولیس والا آتے جاتوں سے رسمی پوچھ گچھ کرلیتا تھا۔بتانے میں کیا حرج ہے کہ 2013ء سے پہلے اکثر و بیشتر ہاؤ ہو کی محفلوںمیں شریک ہوتامگر صدارتی کیمپ کا رتبہ حاصل کرتے ہی اس پر باڑھیں لگا دی گئیں۔اور کمشنر کراچی کے ساتھ والے گیٹ کوکھول دیا گیا۔یہ لیجئے ،پرانے صدر کے صدارتی کیمپ یعنی اسٹیٹ گیسٹ ہاؤس کے بیانیہ میں نئے پاکستان کے وزیر اعظم کو کہیں دور چھوڑ آیاجنہوں نے بغیر کسی تبدیلی کے نہ تو اپنے صدر محترم ڈاکٹر عارف علوی سے یہ پوچھا کہ پرانے پاکستان کے پرانے صدر مملکت کی طرح وہ کیوں یہاں رہائش پذیر ہیں۔ پھر دلچسپ بات یہ ہے کہ ہمارے نئے پاکستان کے معمار محترم وزیر اعظم عمران خان کا ساری نشست و برخاست و اجلاس کے پروگرام بغیرکسی اسٹاپ ،کامہ کے وہی رکھے گئے جو سابقہ پی پی، ن لیگی وزرائے اعظم کے ہوا کرتے تھے۔وہی دو بجے سے تین بجے تک اپنے گورنر عمران اسماعیل کے ساتھ، وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کے ساتھ مسکراتا فوٹو سیشن ۔۔3بجے سے چار بجے تک امن وامان کی صورتحال کے حوالے سے گورنر ،وزیر اعلیٰ کے ساتھ ڈی جی رینجرز ،کورکمانڈر کراچی، چیف سکریٹری ،ہوم سکریٹری ،آئی جی سندھ ۔۔۔چار سے پانچ بجے تک مالکان چینل و اخبارات اور پھر پانچ سے چھ بجے تک ہم poorاینکرز۔ اگلے پروگرام یعنی 7بجے گورنر ہاؤس میں تھا۔جہاںڈنر کھانے والوں پر لازم تھا کہ وہ ڈیموں کے قیام کیلئے چندہ بھی دیں۔ہر میٹنگ کے اختتام پر ایک پریس ریلیز اسٹیٹ گیسٹ ہاؤس کے باہر گھنٹوں سے کڑی دھوپ میں کھڑے رپورٹروں اور کیمرہ مینوں کو تھما دی جاتی۔ہاں، اینکروں سے جو ملاقات ہوئی اُس میں ہم بھی وہیں موجود تھے۔ایک سوال بھی داغا۔۔۔ارد گرد اینکرز خواتین و حضرا ت کا جو ہجوم تھااُس میں یہ ایک سوال بھی بڑی مشکل سے ہوا۔کراچی میں ہمارے محترم عمران خان کی وزیر اعظم کی حیثیت سے آمد پر جو کالم باندھ چکا ہوں اُ س سے مجھے لگ رہا ہے کہ کہیں پی ٹی آئی کے جذباتی سوشل میڈیا کے سرخیل مجھے دوسرے کیمپ میں ڈال کر چھترول نہ شروع کردیںکہ ابھی اتنے طویل عرصے بعد حکومت کو آئے ’’دو جمعے‘‘ بھی ہوئے نہیں کہ آپ جیسے سینئر ہونے کے دعویدار بے صبرے ہوگئے۔اب یہ کالم تو سپر دکر ہی چکا ہوں۔مگر آئندہ احتیاط کم از کم 90دن تک ۔ مگر نئے پاکستان کے نئے وزیر اعظم کی کراچی آمد میںجو چہرے اور جلوے دیکھے۔۔۔اُس سے خوف آرہا ہے۔