لاہور،اسلام آباد (نامہ نگارخصوصی،خبر نگار،92 نیوزرپورٹ،نیٹ نیوز،نیوزایجنسیاں،مانیٹرنگ ڈیسک) لاہور ہائیکورٹ نے سابق وزیر اعظم نوازشریف کوبیان حلفی کی بنیاد پرعلاج کی غرض سے چار ہفتوں کیلئے بیرون ملک جانے کی اجازت دے دی اوروفاقی حکومت کو نواز شریف کا نام ای سی ایل سے ہٹانے کا حکم دے دیا۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا اگر 4 ہفتوں میں نواز شریف صحت یاب نہیں ہوتے تو دونوں بھائیوں کے قیام کی مدت میں مزید توسیع کی جا سکتی ،لاہور ہائیکورٹ نے 7 ارب روپے کے انڈیمنٹی بانڈز کی شرط مسترد کر دی اورمرکزی درخواست کو باقاعد سماعت کیلئے منظور کرتے ہوئے مزید کارروائی جنوری کے تیسرے ہفتے تک ملتوی کر دی۔جسٹس علی باقر نجفی کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے نواز شریف کی صحت کے پیش نظرہفتے کے روز خصوصی طور پر شہباز شریف کی درخواست پر سماعت کی، کیس کی 6 گھنٹے تک سماعت ہوئی جس میں 4 بار وقفہ بھی کیا گیا۔ سابق وزیراعظم کو غیر مشروط طور پر بیرون ملک جانے کی اجازت دینے کے معاملے پر حکومت اور ن لیگ کے درمیان اتفاق نہ ہونے پر عدالت نے خود نواز شریف اور شہباز شریف کے بیان حلفی کا مسودہ تیار کروایا۔ عدالت نے سماعت کے آغاز پر فریقین کو چند قانونی نکات پر معاونت کرنے کی ہدایت کی کہ حکومت کی جانب سے جو شرائط عائد کی گئی ہیں کیا ان میں کمی بیشی کی جا سکتی ہے ؟، یا فریقین نواز شریف کے واپس آنے سے متعلق کوئی رعائت کی بات کر سکتے ہیں؟، کیا میمورنڈم انسانی بنیادوں پر جاری کیا گیا؟، اس پر وفاقی حکومت کے وکیل کا کہنا تھا نواز شریف کی تشویشناک حالت کے پیش نظر وفاق کو انکے بیرون ملک علاج پر اعتراض نہیں لیکن نوازشریف کو باہر جانے سے پہلے عدالت کو مطمئن کرنا ہو گا۔ شہباز شریف کے وکیل نے مشاورت کیلئے مہلت طلب کی جو عدالت نے منظور کرتے ہوئے سماعت 15 منٹ کیلئے ملتوی کر دی، 34 منٹ بعد کیس کی دوبارہ سماعت کا آغاز ہوا تو شہباز شریف نے عدالت کے روبرو یقین دہانی کرائی کہ نواز شریف صحت مند ہوتے ہی وطن واپس آئیں گے کیونکہ ان کے خلاف جس وقت ریفرنس دائر ہوئے وہ بیرون ملک تھے لیکن احتساب عدالت کے طلب کرنے پر فوری پیش ہوئے اور ڈیڑھ برس کی کارروائی میں ایک روز بھی عدالت سے غیر حاضر نہیں ہوئے ، نواز شریف قانون کی حکمرانی پر یقین رکھتے اورعدالتی حکم پراب بھی یقین دہانی کرانے کیلئے تیار ہیں۔ وفاقی حکومت کے وکیل نے اعتراض کرتے ہوئے کہا ہم نے نواز شریف سے صرف ایک تحریری بیان مانگا ہے جس کی قانون ہمیں اجازت دیتا ہے ، عدالت نے ریمارکس دیئے قانون آپ کو اس کی اجازت نہیں دیتا اور نہ ہی نیب نے اس بارے میں اپنی رضا مندی ظاہر کی ہے ، ای سی ایل سے متعلق کارروائی بھی رولز کی خلاف ورزی ہے ،نواز شریف جو بیان حلفی دینا چاہ رہے ہیں اسے دیکھ لیں کیونکہ ہم یہ معاملہ فریقین کی رضامندی سے حل کرنا چاہتے ہیں،کل پرسوں سے رضا مندی کی فضا بن گئی ہے اس سے فائدہ اٹھائیے ، عدالت نے سماعت ایک بار پھر ملتوی کرتے ہوئے نواز شریف اور شہباز کو بیان حلفی کا ڈرافٹ پیش کرنے کا حکم دے کرقرار دیا یہ بیان حلفی 3 بار کے وزیراعظم اور سابق وزیر اعلی پنجاب کی طرف سے ہو گا۔ شہباز شریف نے عدالتی استفسار پر کہا میں یقین دلاتا ہوں نواز شریف صحت یاب ہوتے ہی وطن واپس آ جائینگے ، میں ان کے ساتھ علاج کیلئے باہر جائوں گا۔ بعد ازاں عدالتی حکم پر نواز شریف اور شہباز شریف کے بیان حلفی عدالت میں پیش کئے گئے جس میں یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ سابق وزیر اعظم صحت مند ہوتے ہی وطن واپس آئیں اور عدالتی کیسز کا سامنا کریں گے تاہم وفاقی حکومت کی جانب سے اس بیان حلفی کے مسودے کو مسترد کرتے ہوئے اعتراض عائد کیا گیا کہ بیان حلفی میں اسلام آباد ہائیکورٹ کی طرف سے ملنے والی 8 ہفتے کی ضمانت کا ذکر نہیں کیا گیا، بیان حلفی میں نواز شریف نے اپنی واپسی کی مدت کے بارے میں بتایا نہ ہی انڈیمنٹی بانڈز کا کوئی ذکر کیاگیا ہے ۔ عدالت نے ریمارکس دیئے ہم توقع نہیں کرتے نواز شریف بیان حلفی دے کر جائیں اور پھر واپس نہ آئیں، نواز شریف کا بیان حلفی مناسب لگ رہا ہے ، عدالت نے شہباز شریف کو اپنے بیان حلفی میں سہولت کار کے لفظ کو یقین میں تبدیل کرنے کی ہدایت کی،وفاقی حکومت کی جانب سے بھی نواز شریف اور شہباز شریف کے بیان حلفی سے متعلق مسودہ پیش کیا گیا جس میں کہا گیا وفاقی حکومت جب چاہے گی نواز شریف واپس آنے کے پابند ہوں گے ، اس کے علاوہ یہ بیان حلفی بھی لیا جائے کہ نواز شریف واپس نہیں آتے تو جرمانے کی رقم وہ ادا کریں گے ، حکومتی مسودے کو نواز شریف کے وکلاء نے کمرہ عدالت میں ہی غیر قانونی قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا۔ عدالت نے وفاقی حکومت کے وکیل سے استفسار کیا اگر نواز شریف زیر علاج ہوئے تو حکومت نے انکو طلب کر لیا تو کیا ہو گا؟، کل اگر نواز شریف ہائیڈ پارک میں برگر کھانے جاتے ہیں تو آپ یہاں درخواست دائر کر دیں گے کہ وہ صحت مند ہیں، عدالت کے ان ریمارکس پر کمرہ عدالت میں قہقہے گونج اٹھے ۔ عدالت نے ایک بار پھر کیس کی ساعت ملتوی کرتے ہوئے وفاقی حکومت اور نواز شریف کے بیان حلفی کا ڈرافٹ اکٹھا کر معمولی تبدیلی کا حکم دے دیا، عدالتی حکم پر تیار ہونے والے نئے بیان حلفی میں کہا گیا کہ نواز شریف کو بیرون ملک علاج کیلئے 4 ہفتے کا وقت دیا جاتا ہے ، اگر نواز شریف کی صحت میں بہتری نہیں تو اس مدت میں توسیع ہو سکتی ہے ،حکومتی نمائندہ سفارتخانے کے ذریعے نواز شریف کے ڈاکٹرز سے رابطہ کر سکے گا۔شہباز شریف اور انکے وکلاء نے عدالتی مسودے کو قبول کرتے ہوئے کہا گیا ہمیں یہ مسودہ منظور ہے تا ہم حکومتی وکیل کی جانب سے ایک بار پھر مسودے پر اعتراض کرتے ہوئے کہا گیا کہ یہ عوام کی رقم کا معاملہ ہے ، اگر بیان حلفی پر عمل نہیں ہوتا تو کیا ہو گا۔ فاضل بنچ نے قرار دیا بیان حلفی پر عمل نہ کرنے کی صورت میں توہین عدالت کی کارروائی ہو سکتی ہے ، عدالت کو آپ لوگوں میں اتفاق رائے پیدا کرنے میں صبح سے شام ہو گئی لیکن کوئی نتیجہ نہیں نکل سکا۔بعد ازاں عدالت نے 4صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ بھی جاری کردیا جس کے مطابق انڈیمنٹی بانڈزکی حد تک شرط معطل اورنوازشریف کو 4ہفتے کیلئے باہرجانے کی اجازت دی جاتی ہے ،نوازشریف کوجب ڈاکٹرزصحت مندقراردیں تو وہ واپس آجائیں،رجسٹرارہائیکورٹ نوازاورشہبازشریف کے دستخط شدہ بیان حلفی جمع کریں،نوازشریف کی درخواست کو باقاعدہ سماعت کیلئے منظورکیاجاتاہے ،جنوری 2020کے تیسرے ہفتے میں کیس کی سماعت کی جائے گی۔ لاہور ہائیکورٹ کے باہر کارکنوں سے خطاب میں صدرمسلم لیگ ن شہبازشریف نے کہاعدالت نے انسانی بنیادوں پر نوازشریف کے حق میں فیصلہ دیا،قوم کا دل کی گہرائیوں سے شکر گزار ہوں،اللہ نے قوم کی دعائیں اورمیری والدہ کی التجائیں قبول فرمالیں،عدالت کابھی شکرگزارہوں،نواز شریف کے علاج میں حکومت کی پیدا کردہ آخری رکاوٹ بھی دور ہوگئی،اﷲ تعالی نواز شریف کے سفر کو مبارک کرے اور نواز شریف صحت یاب ہوکر وطن واپس آئیں۔نوازشریف کے ساتھ ایئرایمبولینس پر لندن جائونگا،نوازشریف 48گھنٹے میں لندن روانہ ہونگے ،ڈاکٹرزنے علاج کیلئے کسی دوسرے ملک کا مشورہ دیاتوضرورجائینگے ،ان کی صحت کیلئے بیرون ملک قیام کرناپڑاتوکرونگا،قوم نوازشریف کی صحت کیلئے دعاکرے ،مریم نواز پاکستان میں ہی رہیں گی،مجھے بھی کمرکی تکلیف ہے ،لندن میں اپنابھی میڈیکل چیک اپ کرائونگا۔مسلم لیگ (ن) کی ترجمان مریم اورنگزیب نے کہا نوازشریف کے جسم پر سوجن اور سائیڈ انفیکشن میں اضافہ ہوا،ڈاکٹرز کے مطابق بہت ہی کافی وقت ضائع ہوچکا، نواز شریف کو بیرون ملک منتقل کرنے کی تیاریاں ہنگامی بنیادوں پر شروع کر دی گئی ہیں ،طویل ہوائی سفرکیلئے ڈاکٹرزکو48گھنٹے درکارہیں، اولین کوشش نواز شریف کے پلیٹ لیٹس کو اس سطح پر لانا ہے جس سے وہ بحفاظت سفر کر سکیں۔ادھر اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیراعظم کی معاون خصوصی فردوس عاشق اعوان نے کہا ہمیں نوازشریف کی صحت ہرحال میں عزیزہے ،ان کی بیماری پر کبھی سیاست نہیں کی،پہلے دن سے موقف تھایہ انسانی اورقانونی مسئلہ ہے ، اسے سیاسی نہ بنایاجائے ،وزیراعظم نے کشادہ دلی کامظاہرہ کرتے ہوئے میڈیکل بورڈبنانے کی ہدایت کی،معززعدالت نے نوازشریف کے حق میں فیصلہ سنایا،ہم نے ہمیشہ عدالتی فیصلوں کا احترام کیا ہے ،وزیراعظم تمام ترجمانوں کو نوازشریف کی صحت پر بیان دینے سے روک چکے ہیں۔پریس کانفرنس کرتے ہوئے معاون خصوصی نے کہاحکومت نوازشریف کابہترین علاج معالجہ چاہتی ہے ،حکومتی میڈیکل بورڈکی سفارشات کی لا آفیسرنے مخالفت نہیں کی،بدقسمتی سے حکومت کی نیت پرشک کیاگیا،وزیراعظم کی نیک نیتی کومختلف الفاظ سے نوازاگیا،حکومت قانون کی روشنی میں ترجیحات طے کرے گی،انڈیمنٹی بانڈشریف خاندان کے سابقہ ریکارڈکودیکھتے ہوئے مانگا،شریف خاندان ماضی میں وعدوں سے مکرتارہاہے ، افسوس شیورٹی بانڈپرواویلاکیاگیا،وزیراعظم کی کردارکشی افسوسناک ہے ،سیاسی بیان بازی سے حکومتی شخصیات اورکارکنوں میں اضطراب پھیلا،دیکھاجائیگاعدالت کاتفصیلی فیصلہ کیاہوتاہے ،اس کے بعد حکومتی لیگل ٹیم موقف دے گی۔اٹارنی جنرل انورمنصورنے کہاعدالت نے انسانی ہمدردی کی بنیادپرفیصلہ سنایا،حکومت عدالتی حکم پرعملدرآمد کریگی،4ہفتے کی اجازت بہت اہم ہے ،عدالت نے عارضی حکم سنایا،کیس کابھرپوردفاع کرینگے ،عدالت فیصلہ کریگی کیاکوئی قیدی اس طرح باہرجاسکتاہے یانہیں، اپیل کا فیصلہ تحریری حکمنامہ آنے کے بعد کیا جائے گا، نوازشریف عدالت سے سزایافتہ ہیں، ایک کیس میں 7ارب روپے کا جرمانہ ہوا ،اس وقت نواز شریف کی سزااورجرامانہ برقرارہے ،وہ ضمانت ہونے پرہسپتال جانے کے بجائے اپنے گھرگئے ،عدالت میں معاملہ آیاتووفاقی حکومت نے بیرون ملک جانے پراعتراض نہیں کیا،حکومت نے کہاانڈیمنٹی بانڈہوناچاہئے ،شریف خاندان کی طرف سے پہلے بھی مختلف اوقات میں انڈرٹیکنگ دی گئیں جن پر عملدرآمد نہیں کیا گیا،عدالت نے کہا ہم خود اس کیس کو دیکھیں گے ،دعاہے نوازشریف اپنی بات رکھ لیں،واپس آجائیں تاکہ حکومت اوروہ ایک پیج پرآجائیں،دوٹوک الفاظ میں کہتاہوں عدالت نے حکومت کا موقف مستردنہیں کیا،اب بھی ملک سے باہر جانے کے لئے انڈیمنٹی کے موقف پرقائم ہیں،لاہورہائیکورٹ نے کہاحتمی فیصلہ جنوری میں دیاجائیگا،انڈیمنٹی کے معاملے پر کچھ سولات اٹھائے ہیں جن پر دوبارہ تفصیلی بحث ہوگی ، عبوری آرڈر آنے کے بعد کابینہ فیصلہ کرے گی کہ اسے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جائے گا یا نہیں،نیب قانون میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ سزا یافتہ ملزم کی سزا نہ تو معطل ہوسکتی ہے اور نہ ہی انھیں ضمانت پر رہا کیا جاسکتا ہے ،ہائی کورٹ کو انڈیمنٹی کا قدغن لگانا چاہئے تھا،بہت سارے لوگ جیلوں میں ہیں اور انھیں خطرناک بیماریوں کا سامنا ہے ،ان کے علاج کے لئے بھی انتظام ہونا چاہیے ،قانون امیر اور غریب کے لئے یکساں ہونا چاہیے ۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل اشتیاق اے خان نے کہاعدالتی ڈرافٹ پرہمارے تحفظات تھے جن پرعدالت نے کہاہم خودفیصلہ کردیتے ہیں،اگرنوازشریف واپس نہ آئے تو عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے ۔