اس نے بس اتنا کہا میں نے سوچا کچھ نہیں میں وہیں پتھرا گیا میں نے سوچا کچھ نہیں کیا ہے وہ کیسا ہے وہ مجھ کو اس سے کیا غرض وہ مجھے اچھا لگا میں نے سوچا کچھ نہیں میرے پیارے قارئین!آج محبت کی شدت پر بات ہو گی۔ محبت کی کئی اقسام ہیں اور پھر یہ بہت سوں سے ہو سکتی ہے۔ ہم بات کو پھیلائیں گے نہیں ،بس بنیادی بات کریں گے کہ ایک اعلیٰ محبت غیر مشروط ہوتی ہے اور وہی بے لوث ہوتی ہے کہ جس کے پیچھے کوئی اعلیٰ مقصد ہوتا ہے۔ ہم اس محبت کو بھی فی الحال رہنے دیتے ہیں ایک اور محبت ہے کہ جس میں حواس ہی گم ہو جاتے ہیں کہ کیفیت چشم اس کی مجھے یاد ہے سودا۔ ساغر کو مرے ہاتھ سے لینا کہ چلا میں۔ یا پھر کہنا پڑے کہ بے ربط کر کے رکھ دیے اس نے حواس بھی۔ جتنا وہ دور لگتا ہے اتنا ہے پاس بھی۔ چلیے چھوڑیے ہم بجھارتیں کیوں ڈالیں کہ ہم تو سیاسی محبت کی بات کرنے لگے ہیں کہ جہاں مفادات سانجھے ہوتے ہیں بات کریں گے وزیر اعظم اور چودھری شجاعت کی ملاقات پر: مرتبہ اور مقام اپنی جگہ کوئی اچھا لگے تو کیا کیجیے تو آخر چودھری شجاعت کی محبت محترم وزیر اعظم کو کھینچ لائی یا پھر حالات ہی ایسے بن گئے تھے کہ کچے دھاگے سے کھینچے آئے ہیں سرکار مرے۔ وزیر اعظم چودھری صاحب کے گھر تشریف لے آئے وہ آئے گھر میں ہمارے خدا کی قدرت ہے۔ کبھی ہم ان کو کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں۔ بہرحال: گلے سے لگتے ہی جتنے گلے تھے بھول گئے وگرنہ یاد تھیں ہم کو شکایتیں کیا کیا پرویز الٰہی طارق چیمہ اور مونس بھی موجود تھے۔ کچھ شکوے شکایت ہوئے اور پھر کچھ مزید وعدے وعید۔ اخباری زبان میں یا ڈپلومیٹک زبان میں کہا جائے گا کہ اہم امور پر بات چیت ہوئی۔ ان بے چارے سیاستدانوں کے امور خاص کیا ہو سکتے ہیں۔ یہ کہ انہیں خاص توجہ دی جائے۔ یہی کہ گل پھینکے ہے اوروں کی طرف بلکہ ثمر بھی اے خانہ برانداز چمن کچھ تو ادھر بھی۔ یعنی: اپنی پلکوں پر لے کر وفا کے دیے دیکھ بیٹھے ہیں رستے میں تیرے لئے خان نے انہیں کچھ یاد دلایا ہو گا۔ اس لئے یہ بے مہری اچھی نہیں۔ چودھری صاحب کو کچھ ڈرایا بھی ہو گا کہ وہ دوسری مرتبہ شریفوں سے ڈسے نہ جائیں۔ویسے خود بھی چودھری ان پر اعتبار نہیں کرتے۔ دیکھا جائے تو یہ سب لوگ ایک حوالے سے ایک ہی طرح کے لوگ ہیں۔دوسرے الفاظ میں مشرف سکول آف تھاٹ۔۔ وہی جو حالی نے کہا تھا: خاکساری اپنی کام آئی بہت ہم نے ہر ادنیٰ کو اعلیٰ کر دیا واقعتاً اس میں کیا شک ہے کہ کیسے کیسے لوگ اس دور میں سامنے آ گئے۔ لوگوں کی لاٹریاں نکل آئیں۔ لیکن چودھریوں کو بھی تو اپنی کھال بچانا تھی کہ شریف تو بے وفائی کر کے مکہ اور مدینہ سدھار گئے تھے۔ بات دور نکل جائے گی کہ بات تو ملاقات کی کرنی ہے کہ جس میں اپوزیشن کے بڑھتے ہوئے ریلے کو روکنا ہے کہ سیاست میں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ فی الحال تو عدم اعتماد کو روکنا ہو گا۔ وجہ یہ کہ اب ایک اور ایشو بننے جا رہا ہے جس ضمن میں خان صاحب کو بیان دینا پڑ گیا کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لئے کوئی دبائو نہیں۔اب اس بیان کے کئی مطالب ہیں۔ اس سے پہلے کہا گیا کہ جب تک فلسطین کا مسئلہ حل نہیں ہوتا۔ اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا جا سکتا اور اس سے پہلے ایک شوشہ یہ چھوڑا گیا کہ کسی صورت بھی اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ یہ بیان یوٹرن کا جواز بن سکتا ہے۔ اب دبائو کی بات ہو رہی ہے کہ ہم کوئی فیصلہ دبائو پر تھوڑی کرتے یں یعنی اپنا نفع اور نقصان دیکھیں گے جس طرح پرویز مشرف نے سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ لگایا تھا۔ تب بیک ڈور ایک ملاقات قصوری صاحب کی ہو گی۔صورت حال اب کے بھی عجیب ہے۔ ڈاکٹر صغریٰ صدف کا شعر یاد آ گیا: آنکھوں میں کوئی اور ہے دل میں ہے کوئی اور دونوں سے دل کا حال چھپانا پڑا مجھ سے جو بھی ہے یہ ملاقات بہت ضروری تھی کہ دونوں نے مل کر ہی کوئی ایجنڈا پورا کرنا ہے یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی اپنے یاروں کو منیر سیفی کا شعر سنا کر تسلی دے: یہ تو رستے مجھے لے آئے ہیں تیری جانب یہ ملاقات ملاقات نہ سمجھی جائے چلیے کچھ مل بیٹھنے کا موقع مل گیا اور کچھ بارگینگ بھی ہو گئی ہو گی۔ مگر اس ملاقات سے لوگوں کا کیا بھلا ہے۔ وہ بے چارے تو رو رو کر تھک گئے ہیں اور حکومتی ترجمان کبھی یہ کہہ کر ان کا مذاق اڑاتے ہیں کہ ملک ترقی کر رہا ہے اور سارے اشاریے اوپر ہی اوپر جا رہے ہیں۔ ایک مشیر کہتے ہیں کہ مہنگائی واضح کمی کے باوجود اپوزیشن پراپیگنڈا کر رہی ہے۔ہو سکتا ہے انہیں محلے کے دکاندار نے آلو دو روپے سستے دے دیے ہوں یا دھنیا مفت دے دیا ہو جس سے انہوں نے اندازہ لگا لیا کہ مہنگائی میں اتار آ گیا ہے۔ خان صاحب کو چاہیے کہ ایک آدھ کسی غریب سے بھی ملاقات کر کے پوچھ لیں کہ کس بھائو بک رہی ہے۔ یا وہ غریبوں کی آرا جانتے ہیں کہ وہ کون سی زبان بولتے ہیں۔جس کے پیٹ میں روٹی نہیں ہو گی اور دوائی کے لئے پیسے نہیں ہونگے تو اس کی زبان زہر ہی اگلے گی ۔عوام کی بات اور لب و لہجہ ضابطہ تحریر میں نہیں لایا جا سکتا۔اب تو خان صاحب پر فدا ہونے والے بھی لاتعلق ہو گئے ہیں۔ عجیب صورت حال ہے کہ حکومت کا سارا زور اپوزیشن کو ختم کرنے کے لئے ہے اور اپوزیشن حکومت کی چھٹی کروانے نکلی ہے۔ ہاتھیوں کی لڑائی میں بے چارے عوام رگڑے جا رہے ہیں۔کوئی کسی کو پوچھنے والا نہیں۔ منافع خوروں کی موجیں لگی ہوئی ہیں۔ حکومت بلوں میں اضافے کر کے کما رہی ہے۔ موبائل فون والے بھی حکومت کی مدد سے لوٹتے ہیں اور اس طرح دوسرے بھی سب کا چارہ بے چارہ عام آدمی۔ چلیے شکر ہے چودھری صاحب کہ وزیر اعظم جیسے تیسے آ تو گئے اور کھل کر باتیں ہو گئیں وگرنہ بشیر بدر کی طرح انہیں کہنا پڑیا: نہ جی بھر کے دیکھا نہ کچھ بات کی بڑی آرزو تھی ملاقات کی