مہنگائی اور زرعی شعبے کے حوالے سے ماتحت مشینری کے فیصلوں کو غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے وزیر اعظم نے عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے متعدد اہم فیصلے کیے ہیں۔ وزیر اعظم نے کاشت کاروں کے لیے کھاد سستی نہ ہونے پر متعلقہ حکام پر سخت برہمی کاا ظہار کیا۔ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کے تعین کے حوالے سے ہونے والے ایک دوسرے اجلاس میں وزیر اعظم نے ہدایت کی کہ رواں برس گندم خریداری کا سرکاری ہدف دوگنا کر دیا جائے۔ چینی کی قیمتوں کو مستحکم رکھنے کے لیے فیصلہ کیا گیا ہے کہ اب تعین تیسری پارٹی کرے گی۔ اجلاس میں اس امر کا بھی جائزہ لیا گیا کہ عالمی مارکیٹ میں گھی کی قیمتوں میں ہونے والی کمی کا فائدہ کس طرح عوام تک منتقل کیا جائے۔ اس اجلاس کی ایک اہم بات بجلی اور گیس کی قیمتوں میں کمی کے لیے غیر روایتی حل اور تجاویز پر غور ہے۔ ان فیصلوں کی اگرچہ بہت ابتدائی صورت سامنے آئی ہے تا ہم وزیر اعظم کی مسلسل دلچسپی سے امکان ہے کہ مدت سے عوام جن مسائل کے حل کے منتظر ہیں ان کا خاتمہ نہ سہی قابل ذکر حد تک کمی ضروری واقع ہو گی۔ تحریک انصاف نے عمران خان کی قیادت میں دو عشروں سے زیادہ مدت تک نا انصافی، بدعنوانی اور عوام دشمن پالیسیوں کے خلاف جدوجہد کی ہے۔ پاکستان میں نچلے طبقات کے ساتھ دوہرا ظلم روا رہا ہے۔ بالائی طبقات نے اتحاد کر کے پہلے تو طاقت اور اختیار کے ہر مرکز سے نچلے طبقات کو بیدخل کیا اور پھر ایسی پالیسیاں ترتیب دیں جن کا فائدہ صرف مراعات یافتہ خاندانوں کو پہنچتا ہے۔ پالیسی بنانے والے اور پالیسی سے فائدہ اٹھانے والے ایک ہی طبقے کے لوگ ہیں۔ یہی لوگ اعلیٰ سرکاری ملازمتوں پر فائز ہوتے ہیں، یہی سرکاری مالیاتی اور معاشی پالیسیوں سے فائدہ اٹھا کر صنعتیں اور کاروبار جماتے ہیں اور یہی لوگ پارلیمنٹ میں بیٹھ کر اپنے بھائی بندوں کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں۔ تحریک انصاف جس تبدیلی کی بات کرتی ہے وہ دراصل اسی حکمران اشرافیہ سے اختیارات لے کر محروموں کو باختیار بنانے کی بات ہے۔ یہ عمل سہل نہیں، حکومت کی اپنی صفوں میں ایسے لوگ ہو سکتے ہیں جو تبدیلی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں دیکھنا چاہتے یا تبدیلی کے مفہوم کو اس شکل میں اجاگر کرنے کے آرزو مند ہوں جس سے نظام جوں کا توں رہے۔ پاکستان کی ساٹھ فیصد سے زائد آبادی کا روزگار آج بھی زرعی معیشت سے وابستہ ہے۔ دال، چاول،گندم، آٹا، بیسن، سبزی، پھل ہر گھر کی بنیادی ضرورت ہیں۔ یہ سب اجناس ملک میں اس قدر پیدا ہوتی ہیں کہ قومی ضرورت پوری ہو جاتی ہے بلکہ بہت سی اشیاء برآمد کی جا سکتی ہیں۔ ان کی قیمتوں میں استحکام لا کر عوامی معیشت کو مضبوط اور پائیدار بنایا جا سکتا ہے۔ گزشتہ کئی عشروں سے یہ تکلیف دہ حقیقت حکومتوں کی غیر مقبولیت کا سبب بنتی رہی ہے کہ یکایک روز مرہ استعمال کی اشیاء کے نرخ سرکاری کنٹرول سے باہر ہو جاتے ہیں۔ کسان سے 12سو روپے فی من میں خریدی گئی گندم بڑے بیوپاری 1800روپے کی کر دیتے ہیں۔ آٹے کی ملوں والوں نے الگ خفیہ گودام بنا رکھے ہیں۔ چینی، گھی اور دیگر اجناس کی قیمتوں میں اس لیے اضافہ نہیں ہوتا کہ ان کی قلت واقع ہو جاتی ہے بلکہ اس قلت کا سبب وہ طاقتور کاروباری گروہ ہیں جن کے محافظ پارلیمنٹ اور متعلقہ سرکاری اداروں میں بیٹھے ہیں۔زراعت اور زراعت سے وابستہ طبقات کی بدحالی بڑھتی جا رہی ہے۔ دیہی انفراسٹرکچر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ وسائل اور بڑے ترقیاتی منصوبے چند شہروں تک محدود ہو گئے ہیں۔ کسانوں کو سستی کھاد کی فراہمی سے فصلوں کی پیداواری لاگت کم کی جا سکتی ہے۔ سابق حکومتوں نے کھاد کی قیمتیں کم رکھنے کے لیے وقتاً فوقتاً اگر کچھ نمائشی اقدامات کیے تو ان کا فائدہ کسان کی بجائے کھاد کا کاروبار کرنے والوں کو پہنچا۔ وزیر اعظم کا یہ فیصلہ قابل تعریف ہے کہ انہوں نے افسر شاہی کی پیدا کردہ روایتی رکاوٹوں کو خاطر میں لائے بغیر معاشی بہتری کے لیے اہم کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھنے والے طبقات کو آسانی فراہم کرنے کا چارہ کیا۔ یہ امر اپنی جگہ اہمیت رکھتا ہے کہ ملک میں اشیائے ضروریہ کا بحران ہمیشہ مصنوعی ثابت ہوا۔ بار بار کے بحرانوں پر سرکاری سطح پر ایسا ادارہ جاتی انتظام ترتیب دینے کی ضرورت تھی جس سے آئندہ کے لیے یہ سلسلہ بند کیا جا سکے۔ نرخوں کو قابو میں رکھنے اور گراں فروشوں کی حوصلہ شکنی کے لیے مارکیٹ کمیٹیوں اور پرائس کنٹرول کمیٹیوں کا نظام قائم ہوا مگر سیاسی مداخلت اور نگرانی کے عمل میں کوتاہی کے باعث یہ نظام اپنی افادیت کھو بیٹھا ہے۔ اس کا فائدہ چونکہ طاقتور مافیا کو ملتا ہے جو قیمتوں میں از خود کمی بیشی کر کے ناجائز منافع کماتا ہے لہٰذا اصلاح کے امکانات معدوم ہو جاتے ہیں۔ گزشتہ دنوں چینی کی قیمت میں اضافے کی اطلاعات آتی رہی ہیں۔ وزیر اعظم کی بروقت ہدایات کا فائدہ ہوا کہ چینی کے غیر قانونی ذخیروں پر چھاپے مارے گئے اور ہزاروں من چینی سرکاری تحویل میں لی گئی۔ ان کارروائیوں کے بعد مارکیٹ میں چینی کی بڑھتی ہوئی قیمت کم ہونے لگی۔ یہ فیصلہ خوش آئند ہے کہ چینی کے نرخ مل مالکان یا بیوپاری کی بجائے تیسری پارٹی طے کرے گی۔ ایسا نظام ترتیب دیا گیا تو ناجائز منافع خوری کی شکایات کا ازالہ ممکن ہو سکے گا۔ وزیر اعظم کاشت کاروں کے لیے اپنے دل میں نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ انہیں کچھ اور فیصلے بھی کرنا چاہئیں۔کسانوں کو جدید ٹیکنالوجی کی فراہمی سے غذائی پیداوار میں کئی گنا اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ بھارت جس طرح اسرائیل سے جدید زرعی ٹیکنالوجی حاصل کر رہا ہے پاکستان کو بھی چین، آسٹریلیا اور امریکہ سے اس سلسلہ میں مدد لینے کی منصوبہ بندی درکار ہے۔