وزیر اعظم عمران خان نے عالمی برادری کی توجہ ایک بار پھر مقبوضہ کشمیر کی المناک صورت حال کی جانب دلائی ہے۔ وزیر اعظم نے اپنے ٹویٹس میںبھارت کو خبردار کیا ہے کہ سرحد پار نہتے کشمیریوں کے بہیمانہ قتل عام کا سلسلہ نہ رکا تو پاکستان کے لئے خاموش تماشائی بن کر بیٹھے رہنا مشکل ہو جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ قابض بھارتی افواج کے شدت پکڑتے حملوں کے پیش نظر لازم ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل فوری طور پر اپنا فوجی مبصر مشن مقبوضہ کشمیر میں واپس بھیجے۔ وزیر اعظم نے عالمی برادری سے اپیل اس وقت کی جب مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت کو یکطرفہ طور پر ختم کرنے کے بعد بھارت نے وہاں 168روز سے کرفیو اور دیگر پابندیاں عاید کر رکھی ہیں۔ لوگ گھروں میں محصور ہو کر رہ گئے ہیں۔ کشمیری نوجوانوں کو گرفتار کیا جا رہا ہے‘ گھروں اور دکانوں کو جلایا جا رہا ہے اور کم سن لڑکوں کو اصلاح خانوں کے نام پر حراستی مراکز میں قید کیا جا رہا ہے۔ بھارت طویل عرصے تک اپنے داخلی تضادات اور جھگڑوں کو سیکولر فکر اور جمہوری طرز حکومت کے پردے میں چھپاتا رہا ہے۔ پچاس سال تک کانگرس حکمران رہی۔ پنڈت نہرو وزیر اعظم تھے۔ وہ خود اقوام متحدہ میں گئے اور سیز فائر لائن کے تعین سمیت کشمیر پر استصواب رائے اور عالمی ثالثی کی درخواست کی۔ ہونا یہی چاہیے تھا کہ ان کی جانشین بیٹی اندرا گاندھی اور نواسے راجیو گاندھی ان کے وعدوں کا پاس کرتے اور اقوام متحدہ کی قرار دادوں پر عملدرآمد کرا کے تنازع کشمیر حل کرتے لیکن ان کی مجرمانہ غفلت نے ناصرف بھارت اور پاکستان کو مستقل تصادم کی راہ پر ڈال دیا بلکہ اقوام متحدہ کی ساکھ اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کو بھی معمول بنا لیا۔ کوئی دن نہیںجاتا جب کشمیر کی لائن آف کنٹرول پر بھارتی افواج اشتعال انگیزی نہ کریں۔ پاکستان تنازع کشمیر کا بنیادی فریق ہے۔ پاکستان کشمیریوں کا وکیل اور مددگار ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ عالمی قوانین کا احترام کیا اور اقوام متحدہ جیسے اداروں کے ضابطوں پر عمل کیا۔ وزیر اعظم لیاقت علی خان سے لے کر عمران خان تک ہر پاکستانی رہنما نے ہمیشہ اس بات کا اعادہ کیا کہ وہ تنازع کشمیر کا پرامن حل چاہتے ہیں۔ اس خواہش کے باوجود بھارت نے پاکستان کے ساتھ چار جنگیں لڑیں اور گزشتہ دو عشروں سے مقبوضہ کشمیر میں اپنے ظلم و جبر کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ بی جے پی کی پہلی مرکزی حکومت اٹل بہاری واجپائی کی سربراہی میں بنی۔ واجپائی صاحب کے تحمل مزاج چہرے کو دکھا کر بی جے پی نے ایل کے ایڈوانی جیسے شرپسندوں کو موقع دیا کہ وہ رام کی جنم بھومی کا پروپیگنڈہ کر یں اورتاریخی بابری مسجد کو شہید کر دیں۔ بی جے پی نے اس وقت کے پاکستانی وزیر اعظم میاں نواز شریف سے رابطے بڑھائے تاکہ اپنے انتشاری ایجنڈے کی تکمیل کے لئے وقت حاصل کر سکے۔ کانگرس کے بعد بی جے پی نے تنازع کشمیر کو التوا میں رکھنے کی پالیسی اسی طرح اپنائے رکھی مگر ساتھ کشمیر میں فوجی موجودگی بڑھا کر پرتشدد کارروائیوں میںاضافہ کر دیا اور ملک کے دوسرے علاقوں میں مسلمانوں پر زمین تنگ کر دی۔ آج حالت یہ ہے کہ بی جے پی کی لائن آف کنٹرول اور اپنے علاقوں میں بھڑکائی آگ جہنم کا منظر پیش کر رہی ہے۔ دوسری اقلیتوں پر بھی مظالم کم نہیں مگر مسلمان خاص طور پر بھارتی حکمرانوں کے عتاب کا شکار ہیں۔ دو ماہ قبل مودی حکومت نے شہریت بل متعارف کرایا۔ اس ترمیمی قانون میں کہا گیا کہ دنیا کے کسی بھی ملک سے آنے والے ہندوئوں کو بھارت شہریت دے گا لیکن مسلمانوں کو شہریت دینے سے انکار کیا گیا ہے۔ یہی نہیں بلکہ آسام‘ مہاراشٹر‘ یو پی‘ کرناٹک اور بنگال جیسی ریاستوں میں صدیوں سے آباد مسلمان خاندانوں کو غیر ملکی قرار دیا جا رہا ہے۔ بی جے پی اور آر ایس ایس کے غنڈے سرعام مسلمانوں پر تشدد کر رہے ہیں اور ان کی املاک پر قبضہ ہو رہا ہے۔ بھارتی پولیس اور سکیورٹی فورسز واضح طور پر ان غنڈوں کی حوصلہ افزائی کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ مسلمان ممالک عرب اسرائیل جنگ کے بعد امہ کے تصور کو مضبوط کرنے کی کوشش میں رہے ہیں۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ مسلم عقیدے کی بنیاد پر دنیا بھر میں پھیلی جس ڈیڑھ ارب آبادی کو سیاسی طور پر متحد کرنے کی بات کی جاتی ہے وہ اپنے حکمرانوں کی مفاد پرستی کے باعث بدحالی کا شکار ہے۔ پاکستان نے فلسطین کے معاملے پر عرب مسلمانوں کا ساتھ دیا اور اب بھی فلسطینیوں کے حق خود ارادیت کے لئے کھڑا ہے۔ آج جب امریکی منصوبہ بندی مشرق وسطیٰ میں عرب و عجم کی جنگ کا نیا میدان لگانا چاہتی ہے تو پاکستان مصالحت کاری کے لئے دوڑ دھوپ کر رہا ہے لیکن جب کشمیر اور بھارت کے مظلوم مسلمانوں کی بات آتی ہے تو ہمارے برادر مسلم ممالک خاموش ہو جاتے ہیں یا پھر سفارتی تکلفات سے لبریز زبان میں وہ موقف اختیار کرتے ہیں جس کا فائدہ بھارت کو ہوتا ہے۔ ایک ترکی اور ملائشیا ہیں جو پاکستان کا ساتھ دیتے ہوئے کسی مصلحت پسندی کا شکار نہیں ہوئے۔ بھارت مسلمان ممالک کی اس بے حسی کا فائدہ اٹھا رہا ہے۔ اس کا خیال ہے کہ مقبوضہ کشمیر اور بھارت کے مسلمان بے آسرا ہیں اس لئے ان کو کچلنا آسان ہے۔ پاکستان کے لئے یہ سب برداشت کرنا ممکن نہیں۔ جغرافیائی ونسلی اور خون کا رشتہ ہمیں غیرت دلاتا ہے کہ بھارت کے طرز عمل سے پوری دنیا کو آگاہ کریں مگر دنیا بھارت کے ظلم نظر انداز کرتی رہی تو پھر پاکستان کے لئے یہ ممکن نہیں رہے گا کہ وہ صرف سفارتی کوششوں اور عالمی اداروں کی مدد کی راہ دیکھتا رہے۔ پاکستان کو اب فیصلہ خود کرنا پڑے گا۔ بات اس مقام تک پہنچی تو یہ صرف دو ریاستوں کا تصادم نہیں ہو گا بلکہ ایک ہولناک عالمی جنگ کی صورت اختیار کر سکتا ہے۔