وزیر اعظم عمران خان نے کہاہے کہ مجھ سے پارٹی ٹکٹ دینے اور وزراء کے انتخاب میں غلطیاں ہو تی رہی ہیں اور سچی بات یہ ہے کہ ہم سے بڑی غلطیاں ہوئی ہیں ۔ اعتراف حقیقت بھی دل گردے کا کام ہے، اچھی بات ہے کہ وزیر اعظم نے غلطیوں کو تسلیم کیا مگر وزیر اعظم صاحب کو اس بات کا ادراک کرنا چاہیے کہ سربراہ کی غلطی کے اثرات عام آدمی تک پہنچتے ہیں ، جیسا کہ ہمارے سابق وزیر خزانہ اسد عمرکی طرف سے کرنسی کو ڈی ویلیو کرنے کے نقصان کا اندازہ لگایا گیا تو وہ زرداری اور نواز شریف کی طرف سے لوٹی گئی دولت سے چار گنا زائد تھا ۔یہ صرف ایک غلطی تھی موجودہ نا تجربہ کار وزراء کی جملہ غلطیوں کو اکٹھا کیا جائے تو ملک میں پائے جانے والے پورے بحران کی کہانی آسانی کے ساتھ سمجھ آ سکتی ہے ۔یوم مزدور پر مزدورو ں سے ان کے حالات کے بارے میں جانا اور ان کے چہروں کو دیکھا تو چاہے میںیہ لفظ استعمال نہ بھی کروں پھر بھی حقیقت میں یہ رقت آمیز مناظر تھے ۔ یوم مئی کے حوالے سے ملتان میں تقریبات منعقد ہوئیں ، نوا ں شہر چوک میں کمیونسٹ مزدور کسان پارٹی کی طرف سے مظاہرہ ہوا ،قیادت محفوظ خان شجاعت نے کی ۔ اسی طرح شہر کے دیگر حصوں میں کامریڈ یامین خان ،غازی احمد حسن کی قیادت میں مظاہرے ہوئے اور مزدور ں کی حالت زار بارے بہت کچھ سننے کو ملا۔ جھوک سرائیکی میں مزدوروں کے عالمی دن کے حوالے سے سیمینار کا اہتمام کیاگیا جس میں سرائیکی رہنما ملک جاوید چنڑ ، شریف خان لاشاری، روبینہ بخاری ، حاجی عید احمد دھریجہ و دیگر نے خطاب کیا۔ شاعروں جاوید شانی ، ظفر مسکین اور حاجی بشیر ملتانی نے کلام سنایا جبکہ ریڈیو پاکستان ملتان صوبیہ ملک نے مزدوروں کے گیت پیش کئے۔میزبان کی حیثیت سے استقبالیہ کلمات میں میں نے کہاکہ حکومت کی طرف سے لیبر پالیسی کا اعلان ہونا چاہیے ،لیبر قوانین پر سختی سے عملدآرمد کے ساتھ ساتھ جبری مشقت اور چائلڈ لیبر کا خاتمہ ضروری ہے۔ حکومت کی طرف سے مزدوروں کو گھر دینے کے لیے نصف صدی سے اعلانات سنتے آ رہے ہیں ۔وزیر اعلیٰ پنجاب نے گھر دینے کا اعلان کیا ہے اور لیبر ہائوسنگ پالیسی 2021ء کی منظوری بھی ہوئی ہے مگر اصل مسئلہ عملدرآمد کا ہے ۔بعض سرکاری دفتروں میں درجہ چہارم کے ملازمین سے ڈیوٹی سے زائد کام لیا جاتا ہے اور بعض افسروں کے گھروں پر بھی سرکاری ملازم کام کرتے ہیںاس روش کوختم ہونا چاہیے۔ بڑے افسر اپنے کام کرا لیتے ہیں اور وہ ٹی اے ڈی اے بھی وصول کرلیتے ہیں مگر چھوٹے ملازمین کو تنگ کیا جاتا ہے اور ریٹائرمنٹ کے بعد بھی اس کے پنشن کے معاملات حل نہیں ہوتے ۔حکومت نے مزدوروں کے لیے سوشل سکیورٹی ہسپتال بنائے ہیں مگر یہ ہسپتال بڑے شہروں میں ہیں۔ چھوٹے شہروں اور قصبات میں کام کرنے والے مزدور کہاں جائیں؟ اسی طرح لیبر ویلیفئر سکول بھی بڑے شہروں تک محدود ہیں ایسا طریقہ کار ہونا چاہیے کہ سب کو سہولت حاصل ہو سکے۔ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ صنعتی ادارے چندشہروں تک محدود ہیں جبکہ انڈسٹری کو دیہات تک پھیلانے کی ضرورت ہے ، خصوصاً زرعی صنعتیں تو لازمی طور پر دیہات میں بننی چاہئیں ۔یہ ٹھیک ہے نجی صنعتیں صنعتکار اپنی مرضی سے قائم کرتے ہیں مگر حکومت ٹیکس فری انڈسٹریل زون قائم کرتے وقت پسماندہ علاقوں کو ترجیح دے اور وہ علاقے جہاں خام مال اور افرادی قوت وافر موجود ہے اسے نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔جیسا کہ میں نے گذشتہ روز بھی لکھا تھا کہ ’’ہیں تلخ بہت بندئہ مزدور اوقات ‘‘ ایک مزدور کے لیے قدم قدم پر مشکلات ہیں ۔بیٹی یا بیٹا پیدا ہو تو سب سے پہلے مسئلہ تعلیم کا اور پھر اولاد کے بڑے ہونے کا مقصد مسائل کا بڑا ہونا ہے۔وزیر اعلیٰ پنجاب کا کہنا ہے کہ ہم نے مزدور کی میرج گرانٹ ایک لاکھ سے بڑھا کر دو لاکھ کر دی ہے ۔اسی طرح ڈیتھ گرانٹ پانچ لاکھ سے بڑھا کر چھ لاکھ کر دی ہے ۔مگر سوال یہ ہے کہ ملک کے کروڑوں مزدوروں میں سے یہ سہولت کتنے لوگوں کو حاصل ہے ؟ مزدوروں کے حقوق کے تحفظ اور ان کی فلاح و بہبود کے لیے عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔اور مزدور صرف وہ نہیں جو سرکاری سیکٹر یا رجسٹرڈ پرائیوٹ اداروں میں کام کرتے ہیں مزدور وہ بھی ہیں جو کھیتوںمیں مزدوری کرتے ہیں یا گھروں میں کام کرتے ہیں ۔میرا کراچی آنا جانا رہتا ہے میں خود مزدور کلاس سے ہوں اور میرا اپنی کلاس سے بہت تعلق رہتا ہے ، کراچی کی ٹیکسٹائل انڈسٹری میں وسیب کے مزدور کثرت سے کام کرتے ہیں ۔ اسی طرح کراچی کے بڑے بڑے بلڈرز کے پاس لیبر وسیب کی ہے ۔ گھروں میں کام کرنے والی خواتین کا تعلق بھی ہمارے خطے سے ہے۔میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کوکبھی لیبرویلفیئر سکول یا سوشل سکیورٹی ہسپتالوں سے کبھی کوئی سہولت حاصل ہوئی؟ تو ان کا جواب یہ تھا کہ یہ نام ہم پہلی مرتبہ سن رہے ہیں ۔ایک ستم یہ بھی ہے کہ کراچی میں کام کرنے والی خواتین کو ’’ماسی‘‘ کا نام دیا جاتا ہے حالانکہ سرائیکی زبا ن میں ماسی ماں کی بہن کو کہا جاتا ہے ۔اور یہ مقدس ترین رشتہ ہے جسے نوکرانی کے معنی میں تبدیل کر دیا گیا ہے ۔ دنیا کی کسی لغت میں ماسی کا مطلب نوکرانی نہیںہے۔ مزدور پر جودیگر مظالم ہوتے آ رہے ہیں یہ اس کی کا حصہ ہے۔ یہ بھی بتاتا چلوں لیبر ویلفیئر کا کام لیبر کے فنڈ سے ہی کیا جاتا ہے اس میں بھی کرپشن ہوتی ہے ، بڑے بڑے افسر مزدور وں کے خون پسینے کی کمائی کھا جاتے ہیں۔مزدوروں کو اس بات کا ادراک نہیں کہ لیبر ویلفیئر فنڈ میں ایک کھرب روپیہ اب بھی موجود ہے ۔ مگر بہانے بہانے سے یہ رقم بھی افسر ہی کھا جائیں گے ۔ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں بہت اچھے لیبر قوانین بنے مگر عملدرآمد نہ ہو سکا ۔مزدوروں کے بارے میں پالیسیوں کو ناکام بنانے میں بعض لیبر لیڈروں کا بھی ہاتھ ہے کہ وہ کام چور بن گئے اور کام کوئی نہ ہوتا اور اُجرت کا تقاضا پہلے ہوتا ، فلاح وبہبود اور ویلفیئر کے پیش نظر یونین اچھی چیز ہے مگر اس کا مقصد کام چوری یا حاضری کے بغیر اُجرت نہیں ہونا چاہیے۔آج دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی ۔ترقی یافتہ ممالک کو دیکھیں یا کم از کم چائنہ کو ہی د یکھ لیں وہ کتنا کام کرتے ہیں پاکستان بھی اس بناء پر ترقی کر سکتا ہے کہ مزدور کام کرے اور اُس کو مزدور ی کا معقول معاوضہ ملے ۔ہمیشہ اصول ایک تولہ سونا کے برابر تنخواہ رہی ہے۔ مگر آج تولہ تو کیا تولے کی چوتھائی بھی نہیں ،مسئلے کیسے حل ہوں؟ ۔